تشریح:
(1) یہ روایت صحیحین، سنن اربعہ، مسند امام احمد،سنن دار قطنی، مسند ابی عوانہ، سنن بیہقی، سنن دارمی، کتاب القراءۃ، جزءالقراءۃ اور احادیث کی تقریبا تمام کتابوں میں موجود ہے بلکہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو متواتر قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ ام القرآن، یعنی فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ (جزءالقراءة، حدیث:27) اس حدیث کے متعلق علامہ عینی ؒ نے لکھا ہے: اس حدیث سے عبداللہ بن مبارک، اوزاعی، مالک، شافعی، احمد، اسحاق، ابو ثور اور داود ظاہری ؒ نے تمام نمازوں میں فاتحہ خلف الامام پڑھنے کے وجوب پر استدلال کیا ہے۔ (عمدةالقاري:644/4) علامہ کرمانی ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے پیش نظر سورۂ فاتحہ امام اور مقتدی پر ہر نماز میں پڑھنا واجب ہے۔ (صحیح البخاري بشرح الکرماني:124/2) واضح رہے کہ قراءت فاتحہ نماز کے ارکان میں سے ہے اور رکن ایسی چیز کو کہتے ہیں کہ واجب التعمیل کام اس کے بغیر مکمل نہ ہو۔ اور رکن کے نہ ہونے سے شریعت کی نظر میں اس کام کا کوئی اعتبار نہ ہو۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے ارکان نماز کے متعلق لکھا ہے کہ جسے رسول اللہ ﷺ نے لفظ رکن سے ذکر کیا ہو، جیسے آپ نے فرمایا: ’’فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔‘‘ نیز آپ کا فرمان ہے کہ آدمی کی نماز جائز نہیں جب تک وہ رکوع اور سجود میں اپنی پشت کو سیدھا نہ کرے اور جسے شارع نے نماز کہا ہے، نماز کے لیے اس کے رکن ہونے کی بڑی زبردست تنبیہ ہے۔ (حجة اللہ البالغة:4/2) پھر یہ بھی قاعدہ ہے کہ لائے نفی جنس کی خبر جب محذوف ہوتو اس میں وجود کی نفی مراد ہوتی ہے الایہ کہ وہاں کوئی قرینۂ صارفہ موجود ہو۔ حدیث مذکور میں بھی لانفی جنس کے لیے ہے جس کے معنی ہیں کہ سورۂ فاتحہ کے بغیر نماز کا سرے سے وجود ہی برقرار نہیں رہتا۔ اسے لائے نفی کمال قرار دینا محض سینہ زوری ہے۔ (2) حضرت عبادہ بن صامت ؓ کی مذکورہ روایت مختصر ہے۔ مفصل روایت میں امام کے پیچھے جہری نماز میں سورۂ فاتحہ پڑھنے کی صراحت ہے، چنانچہ عبادہ بن صامت ؓ کہتے ہیں کہ ہم نماز فجر میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے تھے۔ آپ نے قرآن پڑھا تو آپ پر قراءت کرنا بھاری ہوگیا۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ’’شاید تم اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے ہو؟‘‘ ہم نے عرض کیا: ہاں، اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ’’فاتحہ کے سوا اور کچھ نہ پڑھا کرو کیونکہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورۂ فاتحہ نہیں پڑھتا۔ ‘‘ (جامع الترمذی، الصلاة، حدیث:311) اس روایت کو امام بیہقی ؒ نے صحیح جبکہ امام ترمذی اور دار قطنی نے حسن کہا ہے۔ امام شوکانی ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے دوفائدے حاصل ہوتے ہیں:٭ امام کے پیچھے قرآن کریم پڑھنے کی اجازت نہیں۔٭ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔ یہ بات واضح اور ظاہر ہے، لہٰذا اس کے متعلق تردد مناسب نہیں۔ (السیل الجرار، طبع دار ابن حزم، ص:215/2) اس مفصل روایت پر ایک اعتراض ہے کہ اس میں محمد بن اسحاق نامی راوی ناقابل اعتبار ہے، اس لیے یہ روایت قابل حجت نہیں۔ اس اعتراض کے متعلق ہمارے مندرجہ ذیل ملاحظات ہیں:٭ابن اسحاق کے متعلق امام ابو زرعہ دمشقی فرماتے ہیں کہ ابن اسحاق وہ آدمی ہیں جن سے روایت لینے میں بڑے بڑے اہل علم متفق ہیں۔ اہل حدیث نے ان کے متعلق جانچ پڑتال کی تو انھیں صدوق پایا۔ (تھذیب التھذیب:42/9) ٭جمہور ائمۂ حدیث نے ابن اسحاق کو ثقہ اور حسن الحدیث قرار دیا ہے، لہٰذا ان پر جرح ناقابل التفات ہے۔ ابن اسحاق پر اعتراض کرنے والوں نے متعدد مسائل میں ابن اسحاق سے مروی احادیث سے استدلال کیا ہے، چنانچہ بطور مثال چند ایک مرویات کا حوالہ پیش خدمت ہے۔٭ چور کا ہاتھ کاٹنے پر اتفاق ہے لیکن کتنی مالیت کی چوری پر ہاتھ کاٹا جائے؟امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک اگر دس درہم مالیت کی چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ اس سلسلے میں بطور دلیل جو روایت پیش کی ہے اس میں محمد بن اسحاق موجود ہے۔ (شرح معاني الآثار:361/3) نماز فجر کو خوب روشن وقت میں پڑھنے کے متعلق جو حدیث پیش کی جاتی ہے، جسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے وہ ابن اسحاق کے واسطے سے مروی ہے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:154) (3) حضرت عبادہ بن صامت ؓ کی مذکورہ روایت متعدد ایسے طرق سے مروی ہے جس میں ابن اسحاق راوی نہیں ہے، مثلا: ٭ امام دار قطنی، امام حاکم اور امام بیہقی رحمہم اللہ نے یہ روایت بواسطہ سعید بن عبدالعزیز عن مکحول ذکر کی ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:165/2)٭امام بیہقی ؒ نے یہ روایت بواسطہ العلا بن حارث عن مکحول ذکر کی ہے۔ (کتاب القراءة) ٭امام بیہقی نے یہ حدیث بواسطہ زید بن واقد عن مکحول بیان کی ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقی:165/2) اس قسم کے استنادی مباحث کا مطالعہ کرنے کے لیے ''توضيح الكلام في وجوب القراءة خلف الإمام'' مفید رہے گی۔ (4) فاتحہ خلف الامام کے متعلق دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی مرویات حسب ذیل ہیں: ٭حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھائی، جب فارغ ہوئے تو ان کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا:’’جب امام قراءت کررہا ہوتا ہے تو کیا تم نماز میں قراءت کرتے ہو؟‘‘ وہ سب خاموش رہے۔ آپ نے تین مرتبہ یہ سوال دہرایا، پھر انھوں نے کہا کہ ہاں!ہم ایسا کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ ایسا مت کیا کرو بلکہ ہر ایک اپنے جی میں صرف فاتحہ پڑھا کرے۔‘‘ (السنن الکبرٰی للبیھقي:166/2) امام ابن حبان ؒ نے اس روایت کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ (مواردالظمآن، باب القراءة في الصلاة:2/174 ،173، حدیث:126)٭حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جس شخص نے نماز پڑھی اور اس میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھی وہ (نماز) ناقص ہے، ناقص ہے، ناقص ہے پوری نہیں۔‘‘ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے پوچھا گیا: ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں (پھر بھی پڑھیں؟) تو ابو ہریرہ نے کہا:ہاں، تو اس کو اپنے جی میں پڑھ۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:878 (395)) قراءة في النفس کا معنی زبان کے ساتھ آہستہ پڑھنا ہے، چنانچہ ملا علی قاری حنفی ؒ لکھتے ہیں کہ اس کا معنی ہے: آہستہ پڑھ، بلند آواز سے نہ پڑھ۔ (مرقاةالمفاتیح:2/579،578) ٭محمد بن ابو عائشہ رسول اللہ ﷺ کے ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’شاید تم اس وقت قراءت کرتے ہو جب امام پڑھ رہا ہوتا ہے؟ ‘‘ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: ہاں، ہم پڑھتے ہیں۔آپ نے فرمایا:’’فاتحہ کے علاوہ اور کچھ نہ پڑھا کرو۔‘‘ (مسندأحمد:236/4) علامہ ہیثمی ؒ اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں کہ مسند امام احمد کی اس روایت کے رجال صحیح کے رجال ہیں۔ (مجمع الزوائد:111/2) حافظ ابن حجر ؒ نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔ (تلخیص الحبیر:231/1) ان کے علاوہ اور بھی روایات ہیں جنھیں ہم اندیشۂ طوالت کے پیش نظر چھوڑ رہے ہیں۔والله المستعان۔ ان احادیث کے مطابق جمہور علمائے حدیث کا موقف ہے کہ مقتدی کے لیے سورۂ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ مقتدی کے لیے امام کی قراءت ہی کافی ہے، اسے فاتحہ پڑھنا ضروری نہیں، حالانکہ مقتدی کو امام کی وہ قراءت کافی ہوتی ہے، جو فاتحہ کے علاوہ ہو کیونکہ ان احادیث ک پیش نظر فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی، خواہ وہ امام کے پیچھے ہی کیوں نہ ہو۔