تشریح:
اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ قرآن اور تلاوت میں فرق واضح کیا جائے اور یہ بتایا جائے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور تلاوت بندے کا فعل ہے یہی وجہ ہے کہ بندے کے فعل کی وجہ سے تلاوت، تلاوت میں فرق ہے۔ ایک عامل مومن کا تلاوت کرنا سنگترے کی طرح ہے جو بے شمار فوائد کا حامل ہے اور بد کردار کی تلاوت سے ماحول معطر نہیں ہوتا اور اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس بنا پر قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق اور مومن و منافق کا تلاوت کرنا ان کا ذاتی فعل ہے اور فعل ہونے کے اعتبار سے وہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے ہیں بہر حال بندوں کے افعال سب مخلوق ہیں جن کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔