تشریح:
(1) بعض حضرات نے کہا ہے کہ محض ڈاڑھی کی حرکت سے قراءت پر استدلال تام نہیں ہے کیونکہ اس سے کچھ پڑھنے کا پتہ چلتا ہے ممکن ہے کہ دعا یا ذکر وغیرہ پڑھتے ہوں لیکن صحابی حضرات خباب بن رات ؓ نے ڈاڑھی کی جنبش کو قراءت کا قرینہ قرار دیا ہے، کیونکہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو جہری نمازوں میں دیکھا تھا کہ یہ محل قراءت کا ہے دعا یا ذکر کا نہیں ہے۔ اس کے ساتھ جب حضرت ابو قتادہ ؓ کی بات کو شامل کرلیا جائے کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں کبھی کبھی کوئی آیت سنا بھی دیتے تھے، لیکن بلکہ بعض روایات میں سورۂ لقمان اور سورۂ ذاریات کی آیات سنانے کی صراحت ہے۔ اور ابن خزیمہ کی روایت میں ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ﴿١﴾ اور ﴿هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ ﴿١﴾ پڑھنے کی وضاحت ہے۔
(2) ان شواہد سے معلوم ہوا کہ ڈاڑھی کی حرکت یہاں قراءت ہی کو ظاہر کرتی ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ بھی استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ظہر اور عصر کی نمازوں میں سری قراءت کرتے تھے۔ امام بیہقی ؒ نے لکھا ہے کہ آہستہ قراءت کے لیے ضروری ہے کہ زبان اور ہونٹ حرکت کریں اور انسان خود کو سنا سکے۔ ہونٹ بند کر کے زبان کو حرکت دیے بغیر پڑھنا اس سے ڈاڑھی کو حرکت نہیں ہوتی۔ والله أعلم۔