Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: To cast a look at the Imam during As-Salat (the prayer))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے سورج گہن کی نماز میں فرمایا کہ میں نے جہنم دیکھی۔ اس کا بعض حصہ بعض کو کھا رہا تھا۔ یہ اس وقت ہوا جب تم نے دیکھا کہ میں ( نماز میں ) پیچھے سرک گیا۔
760.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایاکہ ہمیں نبی ﷺ نے نماز پڑھائی۔ اس کے بعد منبر پر تشریف لائے اور اپنے دونوں ہاتھوں سے مسجد کے قبلے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: ’’میں نے ابھی جبکہ تمہیں نماز پڑھا رہا تھا جنت اور دوزخ کو دیکھا۔ ان دونوں کی اس دیوار کے قبلے میں تصویریں بنا دیں گئی تھیں۔ میں نے آج کے دن جیسا کوئی دن نہیں دیکھا جس میں خیر اور شر دونوں جمع ہوں۔‘‘ آپ نے ایسا تین مرتبہ فرمایا۔
تشریح:
(1) دوران نماز میں مقتدی کی نظر کہاں ہو؟ اس میں اختلاف ہے۔ جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ سجدہ کی جگہ پر مقتدی کی نظر ہونی چاہیے کیونکہ ایسا کرنا انتہائی خشوع کی علامت ہے، البتہ امام مالک کا موقف ہے کہ مقتدی کی نظر امام کی طرف ہونی چاہیے تاکہ اسے اس کے انتقالات کا علم ہوتا رہے۔ امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ واقعی مقتدی کو اپنی نظر سجدہ گاہ پر مرکوز رکھنی چاہیے ، البتہ کسی ضرورت ک پیش نظر وہ امام کی طرف نظر اٹھا سکتا ہے۔ اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔ مذکورہ روایت میں اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں: بہتر یہی ہے کہ نمازی بحالت نماز سجدہ گاہ پر نظر رکھے لیکن اگر وہ امام کو دیکھے اور سجدے پر نظر نہ رکھے تو اس کی گنجائش ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بحالت نماز اپنے سامنے کی طرف دیکھا اور سجدہ گاہ کی طرف نہ دیکھا۔ اس پر مقتدی کو قیاس کیا جائے گا۔ (2) امام بخاری ؒ کی مراد سجدہ گاہ کو دیکھنے کے لزوم کی نفی کرنا ہے۔ (3) یہ حکم قیام کی صورت میں ہے کہ نظر سجدہ گاہ پر ہو، تاہم تشہد کی حالت میں نظر دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی پر ہونی چاہیے، اس طرح کے اسے اٹھائے رکھے اور دعا کرے۔ (سنن النسائي، التطبیق، حدیث:1161)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
741
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
749
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
749
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
749
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
نماز کی حالت آسمان کی طرف نظر کرنا سخت منع ہے جیسا کہ اس کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ آئندہ ایک مستقل عنوان قائم کریں گے۔اس عنوان سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ نماز کی حالت میں بوقت ضرورت امام کی طرف دیکھنا جائز ہے۔اس معلق روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی اپنی صحیح میں متصل سند سےبیان کیا ہے۔(صحیح البخاری،العمل فی الصلاۃ،حدیث:1212) اس روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جب تم نے مجھے بحالت نماز پیچھے ہٹتے دیکھا۔" امام بخاری رحمہ اللہ نے ان الفاظ سے استدلال کیا ہے کہ نماز کی حالت میں امام کو دیکھا جاسکتا ہے،اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی ۔
اور حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے سورج گہن کی نماز میں فرمایا کہ میں نے جہنم دیکھی۔ اس کا بعض حصہ بعض کو کھا رہا تھا۔ یہ اس وقت ہوا جب تم نے دیکھا کہ میں ( نماز میں ) پیچھے سرک گیا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایاکہ ہمیں نبی ﷺ نے نماز پڑھائی۔ اس کے بعد منبر پر تشریف لائے اور اپنے دونوں ہاتھوں سے مسجد کے قبلے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: ’’میں نے ابھی جبکہ تمہیں نماز پڑھا رہا تھا جنت اور دوزخ کو دیکھا۔ ان دونوں کی اس دیوار کے قبلے میں تصویریں بنا دیں گئی تھیں۔ میں نے آج کے دن جیسا کوئی دن نہیں دیکھا جس میں خیر اور شر دونوں جمع ہوں۔‘‘ آپ نے ایسا تین مرتبہ فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
(1) دوران نماز میں مقتدی کی نظر کہاں ہو؟ اس میں اختلاف ہے۔ جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ سجدہ کی جگہ پر مقتدی کی نظر ہونی چاہیے کیونکہ ایسا کرنا انتہائی خشوع کی علامت ہے، البتہ امام مالک کا موقف ہے کہ مقتدی کی نظر امام کی طرف ہونی چاہیے تاکہ اسے اس کے انتقالات کا علم ہوتا رہے۔ امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ واقعی مقتدی کو اپنی نظر سجدہ گاہ پر مرکوز رکھنی چاہیے ، البتہ کسی ضرورت ک پیش نظر وہ امام کی طرف نظر اٹھا سکتا ہے۔ اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔ مذکورہ روایت میں اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں: بہتر یہی ہے کہ نمازی بحالت نماز سجدہ گاہ پر نظر رکھے لیکن اگر وہ امام کو دیکھے اور سجدے پر نظر نہ رکھے تو اس کی گنجائش ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بحالت نماز اپنے سامنے کی طرف دیکھا اور سجدہ گاہ کی طرف نہ دیکھا۔ اس پر مقتدی کو قیاس کیا جائے گا۔ (2) امام بخاری ؒ کی مراد سجدہ گاہ کو دیکھنے کے لزوم کی نفی کرنا ہے۔ (3) یہ حکم قیام کی صورت میں ہے کہ نظر سجدہ گاہ پر ہو، تاہم تشہد کی حالت میں نظر دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی پر ہونی چاہیے، اس طرح کے اسے اٹھائے رکھے اور دعا کرے۔ (سنن النسائي، التطبیق، حدیث:1161)
ترجمۃ الباب:
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کسوف کے متعلق فرمایا: "جب تم نے مجھے دیکھا کہ میں پیچھے ہٹ رہا ہوں تو میں نے اس وقت جہنم کو دیکھا جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو توڑ پھوڑ رہا تھا۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے ہلال بن علی نے بیان کیا انس بن مالک ؓ سے۔ آپ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے ہم کو نماز پڑھائی۔ پھر منبر پر تشریف لائے اور اپنے ہاتھ سے قبلہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ ابھی جب میں نماز پڑھا رہا تھا تو جنت اور دوزخ کو اس دیوار پر دیکھا۔ اس کی تصویریں اس دیوار میں قبلہ کی طرف نمودار ہوئیں تو میں نے آج کی طرح خیر اور شر کبھی نہیں دیکھی۔ آپ نے قول مذکور تین بار فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
خیر بہشت اور شر دوزخ مطلب یہ کہ بہشت سے بہتر کوئی چیز میں نے نہیں دیکھی اور دوزخ سے بری کوئی چیز نہیں دیکھی۔ اس حدیث میں امام کا آگے دیکھنا مذکور ہے اور جب امام کو آگے دیکھنا جائز ہوا تو مقتدی کو بھی اپنے آگے یعنی امام کو دیکھنا جائز ہوگا۔ حدیث اورباب میں یہی مطابقت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): The Prophet (ﷺ) led us in prayer and then went up to the pulpit and beckoned with both hands towards the Qibla of the mosque and then said, "When I started leading you in prayer, I saw the display of Paradise and Hell on the wall of the mosque (facing the Qibla). I never saw good and bad as I have seen today." He repeated the last statement thrice.