تشریح:
(1) ایک روایت میں حضرت ام الفضل ؓ نے صراحت فرمائی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ آخری نماز پڑھائی تھی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو فوت کرلیا تھا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4429) جبکہ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی مرض وفات میں آخری نماز ظہر کی پڑھائی تھی۔ جیسا کہ صحیح بخاری (حدیث :687) میں ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس تعارض کو اس طرح دور فرمایا ہے کہ حضرت ام الفضل نے جس نماز مغرب کا ذکر کیا ہے وہ آپ نے اپنے گھر میں پڑھی تھی۔ جیسا کہ سنن نسائی میں ہے۔ (سنن النسائي، الصلاة، حدیث:986) اور حضرت عائشہ ؓ نے جس نماز ظہر کا بیان کیا ہے وہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں پڑھائی تھی۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے لیکن جامع ترمذی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہماری طرف اس حالت میں نکلے کہ آپ نے بیماری کی وجہ سے اپنے سر پر پٹی باندھ رکھی تھی، پھر آپ نے مغرب کی نماز پڑھی۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:308) اس روایت کی توجیہ اس طرح ممکن ہے کہ آپ جہاں آرام فرما تھے وہاں سے نماز کے لیے باہر تشریف لائے، یعنی اپنے کمرے سے باہر صحن میں تشریف لائے۔ اس طرح تمام روایات میں تطبیق ہوسکتی ہے اور ان کے درمیان کوئی تعارض نہیں رہتا۔ (فتح الباري:319/2)
(2) مغرب کی نماز کا وقت چونکہ مختصر ہے، اس لیے بالعموم چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھی جاتی ہیں، لیکن اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کبھی کبھار کوئی بڑی سورت بھی پڑھ لی جائے تو کوئی حرج نہیں۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ آپ نے ایک دفعہ مغرب میں سورۂ"والطور" پڑھی تھی۔ (سنن النسائي، الصلاة، حدیث:988) ایک روایت میں سورۂ الدخان پڑھنے کا ذکر بھی ہے۔ (سنن النسائي، الصلاة، حدیث:989) یہ بھی مسنون طریقہ ہے۔ والله أعلم۔