Sahi-Bukhari
10. Call to Prayers (Adhaan)
96. Chapter: Recitation of the Qur'an (Surat Al-Fatiha) is compulsory for the Imam and the followers, at the home and on journey, in all As-Salat (the prayers) whether the recitation is done silently or aloud
باب: امام اور مقتدی کے لیے قرآت کا واجب ہونا، حضر اور سفر ہر حالت میں، سری اور جہری سب نمازوں میں۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: Recitation of the Qur'an (Surat Al-Fatiha) is compulsory for the Imam and the followers, at the home and on journey, in all As-Salat (the prayers) whether the recitation is done silently or aloud)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
767.
حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی، اس کی نماز ہی نہیں ہوئی۔‘‘
تشریح:
(1) یہ روایت صحیحین، سنن اربعہ، مسند امام احمد،سنن دار قطنی، مسند ابی عوانہ، سنن بیہقی، سنن دارمی، کتاب القراءۃ، جزءالقراءۃ اور احادیث کی تقریبا تمام کتابوں میں موجود ہے بلکہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو متواتر قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ ام القرآن، یعنی فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ (جزءالقراءة، حدیث:27) اس حدیث کے متعلق علامہ عینی ؒ نے لکھا ہے: اس حدیث سے عبداللہ بن مبارک، اوزاعی، مالک، شافعی، احمد، اسحاق، ابو ثور اور داود ظاہری ؒ نے تمام نمازوں میں فاتحہ خلف الامام پڑھنے کے وجوب پر استدلال کیا ہے۔ (عمدةالقاري:644/4) علامہ کرمانی ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے پیش نظر سورۂ فاتحہ امام اور مقتدی پر ہر نماز میں پڑھنا واجب ہے۔ (صحیح البخاري بشرح الکرماني:124/2) واضح رہے کہ قراءت فاتحہ نماز کے ارکان میں سے ہے اور رکن ایسی چیز کو کہتے ہیں کہ واجب التعمیل کام اس کے بغیر مکمل نہ ہو۔ اور رکن کے نہ ہونے سے شریعت کی نظر میں اس کام کا کوئی اعتبار نہ ہو۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے ارکان نماز کے متعلق لکھا ہے کہ جسے رسول اللہ ﷺ نے لفظ رکن سے ذکر کیا ہو، جیسے آپ نے فرمایا: ’’فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔‘‘ نیز آپ کا فرمان ہے کہ آدمی کی نماز جائز نہیں جب تک وہ رکوع اور سجود میں اپنی پشت کو سیدھا نہ کرے اور جسے شارع نے نماز کہا ہے، نماز کے لیے اس کے رکن ہونے کی بڑی زبردست تنبیہ ہے۔ (حجة اللہ البالغة:4/2) پھر یہ بھی قاعدہ ہے کہ لائے نفی جنس کی خبر جب محذوف ہوتو اس میں وجود کی نفی مراد ہوتی ہے الایہ کہ وہاں کوئی قرینۂ صارفہ موجود ہو۔ حدیث مذکور میں بھی لانفی جنس کے لیے ہے جس کے معنی ہیں کہ سورۂ فاتحہ کے بغیر نماز کا سرے سے وجود ہی برقرار نہیں رہتا۔ اسے لائے نفی کمال قرار دینا محض سینہ زوری ہے۔ (2) حضرت عبادہ بن صامت ؓ کی مذکورہ روایت مختصر ہے۔ مفصل روایت میں امام کے پیچھے جہری نماز میں سورۂ فاتحہ پڑھنے کی صراحت ہے، چنانچہ عبادہ بن صامت ؓ کہتے ہیں کہ ہم نماز فجر میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے تھے۔ آپ نے قرآن پڑھا تو آپ پر قراءت کرنا بھاری ہوگیا۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ’’شاید تم اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے ہو؟‘‘ ہم نے عرض کیا: ہاں، اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ’’فاتحہ کے سوا اور کچھ نہ پڑھا کرو کیونکہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورۂ فاتحہ نہیں پڑھتا۔ ‘‘(جامع الترمذی، الصلاة، حدیث:311) اس روایت کو امام بیہقی ؒ نے صحیح جبکہ امام ترمذی اور دار قطنی نے حسن کہا ہے۔ امام شوکانی ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے دوفائدے حاصل ہوتے ہیں:٭ امام کے پیچھے قرآن کریم پڑھنے کی اجازت نہیں۔٭ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔ یہ بات واضح اور ظاہر ہے، لہٰذا اس کے متعلق تردد مناسب نہیں۔ (السیل الجرار، طبع دار ابن حزم، ص:215/2) اس مفصل روایت پر ایک اعتراض ہے کہ اس میں محمد بن اسحاق نامی راوی ناقابل اعتبار ہے، اس لیے یہ روایت قابل حجت نہیں۔ اس اعتراض کے متعلق ہمارے مندرجہ ذیل ملاحظات ہیں:٭ابن اسحاق کے متعلق امام ابو زرعہ دمشقی فرماتے ہیں کہ ابن اسحاق وہ آدمی ہیں جن سے روایت لینے میں بڑے بڑے اہل علم متفق ہیں۔ اہل حدیث نے ان کے متعلق جانچ پڑتال کی تو انھیں صدوق پایا۔ (تھذیب التھذیب:42/9) ٭جمہور ائمۂ حدیث نے ابن اسحاق کو ثقہ اور حسن الحدیث قرار دیا ہے، لہٰذا ان پر جرح ناقابل التفات ہے۔ ابن اسحاق پر اعتراض کرنے والوں نے متعدد مسائل میں ابن اسحاق سے مروی احادیث سے استدلال کیا ہے، چنانچہ بطور مثال چند ایک مرویات کا حوالہ پیش خدمت ہے۔٭ چور کا ہاتھ کاٹنے پر اتفاق ہے لیکن کتنی مالیت کی چوری پر ہاتھ کاٹا جائے؟امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک اگر دس درہم مالیت کی چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ اس سلسلے میں بطور دلیل جو روایت پیش کی ہے اس میں محمد بن اسحاق موجود ہے۔ (شرح معاني الآثار:361/3) نماز فجر کو خوب روشن وقت میں پڑھنے کے متعلق جو حدیث پیش کی جاتی ہے، جسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے وہ ابن اسحاق کے واسطے سے مروی ہے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:154) (3) حضرت عبادہ بن صامت ؓ کی مذکورہ روایت متعدد ایسے طرق سے مروی ہے جس میں ابن اسحاق راوی نہیں ہے، مثلا: ٭ امام دار قطنی، امام حاکم اور امام بیہقی رحمہم اللہ نے یہ روایت بواسطہ سعید بن عبدالعزیز عن مکحول ذکر کی ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:165/2)٭امام بیہقی ؒ نے یہ روایت بواسطہ العلا بن حارث عن مکحول ذکر کی ہے۔ (کتاب القراءة) ٭امام بیہقی نے یہ حدیث بواسطہ زید بن واقد عن مکحول بیان کی ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقی:165/2) اس قسم کے استنادی مباحث کا مطالعہ کرنے کے لیے ''توضيح الكلام في وجوب القراءة خلف الإمام'' مفید رہے گی۔ (4) فاتحہ خلف الامام کے متعلق دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی مرویات حسب ذیل ہیں: ٭حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھائی، جب فارغ ہوئے تو ان کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا:’’جب امام قراءت کررہا ہوتا ہے تو کیا تم نماز میں قراءت کرتے ہو؟‘‘ وہ سب خاموش رہے۔ آپ نے تین مرتبہ یہ سوال دہرایا، پھر انھوں نے کہا کہ ہاں!ہم ایسا کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ ایسا مت کیا کرو بلکہ ہر ایک اپنے جی میں صرف فاتحہ پڑھا کرے۔‘‘(السنن الکبرٰی للبیھقي:166/2) امام ابن حبان ؒ نے اس روایت کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ (مواردالظمآن، باب القراءة في الصلاة:2/174 ،173، حدیث:126)٭حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جس شخص نے نماز پڑھی اور اس میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھی وہ (نماز) ناقص ہے، ناقص ہے، ناقص ہے پوری نہیں۔‘‘ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے پوچھا گیا: ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں (پھر بھی پڑھیں؟) تو ابو ہریرہ نے کہا:ہاں، تو اس کو اپنے جی میں پڑھ۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:878 (395))قراءة في النفس کا معنی زبان کے ساتھ آہستہ پڑھنا ہے، چنانچہ ملا علی قاری حنفی ؒ لکھتے ہیں کہ اس کا معنی ہے: آہستہ پڑھ، بلند آواز سے نہ پڑھ۔ (مرقاةالمفاتیح:2/579،578) ٭محمد بن ابو عائشہ رسول اللہ ﷺ کے ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’شاید تم اس وقت قراءت کرتے ہو جب امام پڑھ رہا ہوتا ہے؟ ‘‘ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: ہاں، ہم پڑھتے ہیں۔آپ نے فرمایا:’’فاتحہ کے علاوہ اور کچھ نہ پڑھا کرو۔‘‘(مسندأحمد:236/4) علامہ ہیثمی ؒ اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں کہ مسند امام احمد کی اس روایت کے رجال صحیح کے رجال ہیں۔ (مجمع الزوائد:111/2) حافظ ابن حجر ؒ نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔ (تلخیص الحبیر:231/1) ان کے علاوہ اور بھی روایات ہیں جنھیں ہم اندیشۂ طوالت کے پیش نظر چھوڑ رہے ہیں۔والله المستعان۔ ان احادیث کے مطابق جمہور علمائے حدیث کا موقف ہے کہ مقتدی کے لیے سورۂ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ مقتدی کے لیے امام کی قراءت ہی کافی ہے، اسے فاتحہ پڑھنا ضروری نہیں، حالانکہ مقتدی کو امام کی وہ قراءت کافی ہوتی ہے، جو فاتحہ کے علاوہ ہو کیونکہ ان احادیث ک پیش نظر فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی، خواہ وہ امام کے پیچھے ہی کیوں نہ ہو۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
748
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
756
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
756
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
756
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
نماز میں قراءتِ فاتحہ کے متعلق بعض اہل علم کا موقف ہے کہ نماز میں قراءت فاتحہ فرض نہیں بلکہ مطلق قراءت فرض ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ) : اور قرآن سے جو میسر ہو پڑھو۔"(المزمل20:73) ان کے نزدیک اس آیت کریمہ میں مطلق قراءت کا ذکر ہے اور وہ ایک آیت بھی ہوسکتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس موقف کی ترید میں مذکورہ بالا عنوان قائم کیا ہے اور اس کے لیے بڑے محتاط الفاظ کا انتخاب کیا ہے،حالانکہ ارشاد باری تعالیٰ:" قرآن سے جو میسر ہو پڑھو" سے مراد بھی سورۂ فاتحہ ہے جیسا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔(سنن ابی داؤد،الصلاۃ،حدیث:859) اس عنوان میں امام بخاری رحمہ اللہ نے منفرد نمازی،یعنی اکیلے نماز پڑھنے والے کا ذکر نہیں کیا کیونکہ اس کا حکم امام جیسا ہے۔پھر سفر کی نماز کا بطور خاص ذکر کیا ہے تاکہ یہ وہم نہ کیا جائے کہ شاید اس میں قراءت ضروری نہیں کیونکہ اس میں کچھ رکعات کم ادا کرنے کی اجازت ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ کے مذکورہ عنوان میں بڑی جامعیت ہے کہ کوئی بھی نماز ہو اور کوئی بھی شخص ہو،خواہ منفرد ہو،مقتدی ہو یا امام،کسی نمازی کی کوئی نماز قراءت فاتحہ کے بغیر نہیں ہوتی۔آپ نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے جس کا نام" جزء القراءۃ "ہے۔ہم ان شاءاللہ آئندہ فوائد میں اس سے بھی استفادہ کریں گے۔
حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی، اس کی نماز ہی نہیں ہوئی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) یہ روایت صحیحین، سنن اربعہ، مسند امام احمد،سنن دار قطنی، مسند ابی عوانہ، سنن بیہقی، سنن دارمی، کتاب القراءۃ، جزءالقراءۃ اور احادیث کی تقریبا تمام کتابوں میں موجود ہے بلکہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو متواتر قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ ام القرآن، یعنی فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ (جزءالقراءة، حدیث:27) اس حدیث کے متعلق علامہ عینی ؒ نے لکھا ہے: اس حدیث سے عبداللہ بن مبارک، اوزاعی، مالک، شافعی، احمد، اسحاق، ابو ثور اور داود ظاہری ؒ نے تمام نمازوں میں فاتحہ خلف الامام پڑھنے کے وجوب پر استدلال کیا ہے۔ (عمدةالقاري:644/4) علامہ کرمانی ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے پیش نظر سورۂ فاتحہ امام اور مقتدی پر ہر نماز میں پڑھنا واجب ہے۔ (صحیح البخاري بشرح الکرماني:124/2) واضح رہے کہ قراءت فاتحہ نماز کے ارکان میں سے ہے اور رکن ایسی چیز کو کہتے ہیں کہ واجب التعمیل کام اس کے بغیر مکمل نہ ہو۔ اور رکن کے نہ ہونے سے شریعت کی نظر میں اس کام کا کوئی اعتبار نہ ہو۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے ارکان نماز کے متعلق لکھا ہے کہ جسے رسول اللہ ﷺ نے لفظ رکن سے ذکر کیا ہو، جیسے آپ نے فرمایا: ’’فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔‘‘ نیز آپ کا فرمان ہے کہ آدمی کی نماز جائز نہیں جب تک وہ رکوع اور سجود میں اپنی پشت کو سیدھا نہ کرے اور جسے شارع نے نماز کہا ہے، نماز کے لیے اس کے رکن ہونے کی بڑی زبردست تنبیہ ہے۔ (حجة اللہ البالغة:4/2) پھر یہ بھی قاعدہ ہے کہ لائے نفی جنس کی خبر جب محذوف ہوتو اس میں وجود کی نفی مراد ہوتی ہے الایہ کہ وہاں کوئی قرینۂ صارفہ موجود ہو۔ حدیث مذکور میں بھی لانفی جنس کے لیے ہے جس کے معنی ہیں کہ سورۂ فاتحہ کے بغیر نماز کا سرے سے وجود ہی برقرار نہیں رہتا۔ اسے لائے نفی کمال قرار دینا محض سینہ زوری ہے۔ (2) حضرت عبادہ بن صامت ؓ کی مذکورہ روایت مختصر ہے۔ مفصل روایت میں امام کے پیچھے جہری نماز میں سورۂ فاتحہ پڑھنے کی صراحت ہے، چنانچہ عبادہ بن صامت ؓ کہتے ہیں کہ ہم نماز فجر میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے تھے۔ آپ نے قرآن پڑھا تو آپ پر قراءت کرنا بھاری ہوگیا۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ’’شاید تم اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے ہو؟‘‘ ہم نے عرض کیا: ہاں، اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ’’فاتحہ کے سوا اور کچھ نہ پڑھا کرو کیونکہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورۂ فاتحہ نہیں پڑھتا۔ ‘‘(جامع الترمذی، الصلاة، حدیث:311) اس روایت کو امام بیہقی ؒ نے صحیح جبکہ امام ترمذی اور دار قطنی نے حسن کہا ہے۔ امام شوکانی ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے دوفائدے حاصل ہوتے ہیں:٭ امام کے پیچھے قرآن کریم پڑھنے کی اجازت نہیں۔٭ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔ یہ بات واضح اور ظاہر ہے، لہٰذا اس کے متعلق تردد مناسب نہیں۔ (السیل الجرار، طبع دار ابن حزم، ص:215/2) اس مفصل روایت پر ایک اعتراض ہے کہ اس میں محمد بن اسحاق نامی راوی ناقابل اعتبار ہے، اس لیے یہ روایت قابل حجت نہیں۔ اس اعتراض کے متعلق ہمارے مندرجہ ذیل ملاحظات ہیں:٭ابن اسحاق کے متعلق امام ابو زرعہ دمشقی فرماتے ہیں کہ ابن اسحاق وہ آدمی ہیں جن سے روایت لینے میں بڑے بڑے اہل علم متفق ہیں۔ اہل حدیث نے ان کے متعلق جانچ پڑتال کی تو انھیں صدوق پایا۔ (تھذیب التھذیب:42/9) ٭جمہور ائمۂ حدیث نے ابن اسحاق کو ثقہ اور حسن الحدیث قرار دیا ہے، لہٰذا ان پر جرح ناقابل التفات ہے۔ ابن اسحاق پر اعتراض کرنے والوں نے متعدد مسائل میں ابن اسحاق سے مروی احادیث سے استدلال کیا ہے، چنانچہ بطور مثال چند ایک مرویات کا حوالہ پیش خدمت ہے۔٭ چور کا ہاتھ کاٹنے پر اتفاق ہے لیکن کتنی مالیت کی چوری پر ہاتھ کاٹا جائے؟امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک اگر دس درہم مالیت کی چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ اس سلسلے میں بطور دلیل جو روایت پیش کی ہے اس میں محمد بن اسحاق موجود ہے۔ (شرح معاني الآثار:361/3) نماز فجر کو خوب روشن وقت میں پڑھنے کے متعلق جو حدیث پیش کی جاتی ہے، جسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے وہ ابن اسحاق کے واسطے سے مروی ہے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:154) (3) حضرت عبادہ بن صامت ؓ کی مذکورہ روایت متعدد ایسے طرق سے مروی ہے جس میں ابن اسحاق راوی نہیں ہے، مثلا: ٭ امام دار قطنی، امام حاکم اور امام بیہقی رحمہم اللہ نے یہ روایت بواسطہ سعید بن عبدالعزیز عن مکحول ذکر کی ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:165/2)٭امام بیہقی ؒ نے یہ روایت بواسطہ العلا بن حارث عن مکحول ذکر کی ہے۔ (کتاب القراءة) ٭امام بیہقی نے یہ حدیث بواسطہ زید بن واقد عن مکحول بیان کی ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقی:165/2) اس قسم کے استنادی مباحث کا مطالعہ کرنے کے لیے ''توضيح الكلام في وجوب القراءة خلف الإمام'' مفید رہے گی۔ (4) فاتحہ خلف الامام کے متعلق دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی مرویات حسب ذیل ہیں: ٭حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھائی، جب فارغ ہوئے تو ان کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا:’’جب امام قراءت کررہا ہوتا ہے تو کیا تم نماز میں قراءت کرتے ہو؟‘‘ وہ سب خاموش رہے۔ آپ نے تین مرتبہ یہ سوال دہرایا، پھر انھوں نے کہا کہ ہاں!ہم ایسا کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ ایسا مت کیا کرو بلکہ ہر ایک اپنے جی میں صرف فاتحہ پڑھا کرے۔‘‘(السنن الکبرٰی للبیھقي:166/2) امام ابن حبان ؒ نے اس روایت کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ (مواردالظمآن، باب القراءة في الصلاة:2/174 ،173، حدیث:126)٭حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جس شخص نے نماز پڑھی اور اس میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھی وہ (نماز) ناقص ہے، ناقص ہے، ناقص ہے پوری نہیں۔‘‘ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے پوچھا گیا: ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں (پھر بھی پڑھیں؟) تو ابو ہریرہ نے کہا:ہاں، تو اس کو اپنے جی میں پڑھ۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:878 (395))قراءة في النفس کا معنی زبان کے ساتھ آہستہ پڑھنا ہے، چنانچہ ملا علی قاری حنفی ؒ لکھتے ہیں کہ اس کا معنی ہے: آہستہ پڑھ، بلند آواز سے نہ پڑھ۔ (مرقاةالمفاتیح:2/579،578) ٭محمد بن ابو عائشہ رسول اللہ ﷺ کے ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’شاید تم اس وقت قراءت کرتے ہو جب امام پڑھ رہا ہوتا ہے؟ ‘‘ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: ہاں، ہم پڑھتے ہیں۔آپ نے فرمایا:’’فاتحہ کے علاوہ اور کچھ نہ پڑھا کرو۔‘‘(مسندأحمد:236/4) علامہ ہیثمی ؒ اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں کہ مسند امام احمد کی اس روایت کے رجال صحیح کے رجال ہیں۔ (مجمع الزوائد:111/2) حافظ ابن حجر ؒ نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔ (تلخیص الحبیر:231/1) ان کے علاوہ اور بھی روایات ہیں جنھیں ہم اندیشۂ طوالت کے پیش نظر چھوڑ رہے ہیں۔والله المستعان۔ ان احادیث کے مطابق جمہور علمائے حدیث کا موقف ہے کہ مقتدی کے لیے سورۂ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ مقتدی کے لیے امام کی قراءت ہی کافی ہے، اسے فاتحہ پڑھنا ضروری نہیں، حالانکہ مقتدی کو امام کی وہ قراءت کافی ہوتی ہے، جو فاتحہ کے علاوہ ہو کیونکہ ان احادیث ک پیش نظر فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی، خواہ وہ امام کے پیچھے ہی کیوں نہ ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہری نے بیان کیا محمود بن ربیع سے، انھوں نے حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا، جس شخص نے سورہ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی۔
حدیث حاشیہ:
امام کے پیچھے جہری اور سری نمازوں میں سورۃ فاتحہ پڑھنا ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا اثبات بہت سی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ باوجود اس حقیقت کے پھر یہ ایک معرکہ آراءبحث چلی آرہی ہے۔ جس پر بہت سی کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ جو حضرات اس کے قائل نہیں ہیں۔ ان میں بعض کا توغلویہاں تک بڑھاہواہے کہ وہ اسے حرام مطلق قراردیتے ہیں اورامام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے والوں کے بارے میں یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ قیامت کے دن ان کے منہ میں آگ کے انگارے بھرے جائیں گے۔ نعوذباللہ منه۔ اسی لیے مناسب ہوا کہ اس مسئلہ کی کچھ وضاحت کردی جائے تاکہ قائلین اورمانعین کے درمیان نفاق کی خلیج کچھ نہ کچھ کم ہوسکے۔ یہاں حضرت امام بخاری ؒ جو حدیث لائے ہیں اس کے ذیل میں حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وسميت فاتحة الكتاب؛ لأنه يبدأ بكتابتها في المصاحف، ويبدأ بقراءتها في الصلاة، وفاتحة كل شيء مبدأه الذي يفتح به ما بعده، افتتح فلان كذا ابتدأ به. قال ابن جرير في تفسيره (ج1: ص35) : وسميت فاتحة الكتاب؛ لأنها يفتتح بكتابتها المصاحف ويقرأ بها في الصلاة فهي فواتح لما يتلوها من سور القرآن في الكتابة والقراءة، وسميت أم القرآن لتقدمها على سائر سور القرآن غيرها، وتأخر ما سواها خلفها في القراءة والكتابة الخ۔(مرعاة، ج1، ص:583)خلاصہ اس عبارت کا یہ کہ سورۃ الحمد شریف کا نام فاتحۃ الکتاب اس لیے رکھا گیاکہ قرآن مجید کی کتابت اسی سے شروع ہوتی ہے اورنماز میں قرات کی ابتدا بھی اسی سے کی جاتی ہے۔ علامہ ابن جریر نے بھی اپنی تفسیر میں یہی لکھاہے۔ اس کو ام القرآن اس لیے کہا گیا کہ کتابت اورقرات میں یہ اس کی تمام سورتوں پر مقدم ہے۔ اورجملہ سورتیں اس کے بعد ہیں۔ یہ حدیث اس امر پر دلیل ہے کہ نمازمیں قرات سورۃ فاتحہ فرض ہے اوریہ نماز کے ارکان میں سے ہے۔ جو اسے نہ پڑھے اس کی نماز صحیح نہ ہوگی۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے بھی اپنی مشہورکتاب حجۃ اللہ البالغۃ، جلد2، ص: 4 پر اسے نماز کا اہم رکن تسلیم کیاہے۔ اس لیے کہ یہ حدیث عام ہے۔ نماز چاہے فرض ہو چاہے نفل، اوروہ شخص امام ہو یا مقتدی، یااکیلا۔ یعنی کسی شخص کی کوئی نماز بھی بغیرفاتحہ پڑھے نہیں ہوگی۔ چنانچہ مشہورشارح بخاری حضرت علامہ قسطلانی ؒ شرح صحیح بخاری، جلد2، ص: 439 میں اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: أي في کل رکعة منفردا أوإماما أومأموما سواءأسرالإمام أوجهر۔یعنی اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ ہر رکعت میں ہرنماز کو خواہ اکیلا ہو یاامام ہو، یامقتدی، خواہ امام آہستہ پڑھے یا بلند آواز سے سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔ نیز اسی طرح علامہ کرمانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وفي الحدیث (أي حدیث عبادة ) دلیل علی أن قراءة الفاتحة واجبة علی الإمام والمنفرد والمأموم في الصلوٰت کلها۔(عمدة القاري شرح صحیح بخاري، جلد3، ص:63)یعنی حضرت عبادہ ؓ کی یہ حدیث اس امر پر صاف دلیل ہے کہ سورۃ فاتحہ کا پڑھنا امام اور اکیلے اورمقتدی سب کے لیے تمام نمازوں میں واجب ہے۔ نیز عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، ج3، ص: 84 ) میں لکھتے ہیں: حنفیوں کے مشہور شارح بخاری امام محمود احمدعینی التوفی 855ھ استدل بهذاالحدیث عبداللہ بن المبارك والأوزاعي ومالك و الشافعي وأحمد وإسحاق وأبوثور وداود علی وجوب قراة الفاتحة خلف الإمام في جمیع الصلوٰت۔ یعنی اس حدیث (حضرت عبادہ ؓ ) سے امام عبداللہ بن مبارک، امام اوزاعی، امام مالک، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق، امام ابوثور، امام داؤد رحمۃ اللہ علیہم نے ( مقتدی کے لیے ) امام کے پیچھے تمام نمازوں میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کے وجوب پر دلیل پکڑی ہے۔ امام نووی ؒ المجموع شرح مہذب، جلد3، ص: 326 مصری میں فرماتے ہیں: وقراءة الفاتحة للقادر علیها فرض من فروض الصلوٰة ورکن من أرکانها ومتعینة لایقوم ترجمتها بغیرالعربیة ولاقراءة غیرها من القرآن ویستوي في تعینها جمیع الصلوٰت فرضها ونفلها جهرها و سرها والرجل و المرأة والمسافر والصبي والقائم والقاعد والمضظجع وفي حال الخوف وغیرها سواء في تعینها الإمام والمأموم والمنفرد۔یعنی جو شخص سورۃ فاتحہ پڑھ سکتاہے ( یعنی اس کو یہ سورہ یاد ہے ) اس کے لیے اس کا پڑھنا نماز کے فرائض میں سے ایک فرض اورنماز کے ارکان میں سے ایک رکن ہے اوریہ سورۃ فاتحہ نماز میں ایسی معین ہے کہ نہ تو اس کی بجائے غیرعربی میں اس کا ترجمہ قائم مقام ہوسکتاہے اورنہ ہی قرآن مجید کی دیگر آیت۔ اوراس تعین فاتحہ میں تمام نمازیں برابر ہیں فرض ہوں یا نفل، جہری ہوں یاسری اور مردعورت، مسافر، لڑکا ( نابالغ ) اورکھڑا ہوکر نماز پڑھنے والااوربیٹھ کر یالیٹ کر نماز پڑھنے والا سب اس حکم میں برابر ہیں اور اس تعین فاتحہ میں امام، مقتدی اوراکیلا نماز پڑھنے والا ( سبھی ) برابر ہیں۔ حدیث اورشارحین حدیث کی اس قدر کھلی ہوئی وضاحت کے باوجود کچھ حضرات کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس حدیث میں امام یا مقتدی یامنفرد کا ذکر نہیں۔ اس لیے اس سے مقتدی کے لیے سورۃ فاتحہ کی فرضیت ثابت نہیں ہوگی۔ اس کے جواب کے لیے حدیث ذیل ملاحظہ ہو۔ جس میں صاف لفظوں میں مقتدیوں کا ذکر موجود ہے۔ عن عبادة بن الصامت قال کنا خلف رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم في صلوٰة الفجر فقرأ رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فثقلت علیه القراءة فلما فرغ قال لعلکم تقرءون خلف إمامکم قلنا نعم هذا یارسول اللہ قال لا تفعلوا إلابفاتحة الکتاب فإنه لا صلوٰة لمن لم یقراء بھا۔(أبوداود، ج1، ص: 119، ترمذي، ج1، ص: 41 وقال حسن)حضرت عبادہ بن صامت ؓ کہتے ہیں کہ فجر کی نماز میں ہم رسول کریم ﷺ کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے آپ نے جب قرآن شریف پڑھا توآپ پر پڑھنا مشکل ہوگیا۔ جب آپ ( نمازسے ) فارغ ہوئے تو فرمایا کہ شاید تم اپنے امام کے پیچھے ( قرآن پاک سے کچھ ) پڑھتے رہتے ہو۔ ہم نے کہا، ہاں یا رسول اللہ! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں آپ نے فرمایا کہ یادرکھو سورۃ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھا کرو۔ کیونکہ جو شخص سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی اور حضرت امام ترمذی ؒ نے اس کو حسن کہاہے۔ اس حدیث کے ذیل میں امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں: والعمل علی هذا الحدیث في القراءة خلف الإمام عند أکثر أهل العلم من أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم والتابعین وهو قول مالك ابن أنس وابن المبارك والشافعي وأحمد وإسحاق یرون القراءة خلف الإمام۔(ترمذي، ج1، ص:41)یعنی امام کے پیچھے ( سورۃ فاتحہ ) پڑھنے کے بارے میں اکثراہل علم، صحابہ کرام اورتابعین کا اسی حدیث ( عبادہ رضی اللہ عنہ ) پر عمل ہے اور امام مالک، امام عبداللہ بن مبارک ( شاگرد امام ابوحنیفہ ) ، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق ( بھی ) امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے۔ امام خطابی معالم السنن شرح ابوداؤد، ج1، ص: 205میں لکھتے ہیں: هذاالحدیث نص صریح بأن قراءة الفاتحة واجبة علی من صلی خلف الإمام سواءجهرالإمام باالقراءة أوخافت بها و إسنادہ جید لا طعن فیه۔ (مرعاة، ج1، ص: 619) یعنی یہ حدیث نص صریح ہے کہ مقتدی کے لیے سورۃ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے۔ خواہ امام قرات بلند آواز سے کرے یا آہستہ سے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے خاص مقتدیوں کو خطاب کرکے سورۃ فاتحہ پڑھنے کاحکم دیااوراس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ سورۃ فاتحہ پڑھے بغیرکسی کی نماز ہی نہیں ہوتی۔ اس حدیث کی سند بہت ہی پختہ ہے۔ جس میںطعن کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس بارے میں دوسری دلیل یہ حدیث ہے۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ» ثَلَاثًا غَيْرُ تَمَامٍ. فَقِيلَ لِأَبِي هُرَيْرَةَ: إِنَّا نَكُونُ وَرَاءَ الْإِمَامِ؟ فَقَالَ: «اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ»؛ فإنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " قَالَ اللهُ تَعَالَى: قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ الحدیث۔(صحیح مسلم، ج1، ص:169)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جو شخص کوئی نماز پڑھے اور اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھے تووہ نماز ناقص ہے ( مردہ ) ناقص ہے ( مردہ ) ناقص ہے ( مردہ ) پوری نہیں ہے۔ جضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ لوگ امام کے پیچھے ہوتے ہیں۔ ( تب بھی پڑھیں ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ( ہاں ) اس کو آہستہ پڑھاکرو، کیونکہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ میں نے نماز کو اپنے اوربندے کے درمیان دوحصوں میں تقسیم کردیاہے۔ ( آخر تک ) اس حدیث میں سورۃ فاتحہ ہی کو نماز کہا گیاہے۔ کیونکہ نماز کی اصل روح سورۃ فاتحہ ہی ہے۔ دوحصوں میں بانٹنے کا مطلب یہ کہ شروع سورت سے إیاك نستعین تک مختلف طریقوں سے اللہ کی حمد وثناہے۔ پھر آخر سورت تک دعائیں ہیں جو بندہ خدا کے سامنے پیش کررہاہے۔ اس طرح یہ سورت شریفہ دوحصوں میں منقسم ہے۔ امام نووی ؒ شرح مسلم، جلد1، ص: 170میں لکھتے ہیں: ففیه وجوب قراءة الفاتحة وأنها متعینة لایجزي غیرھا إلالعاجزعنها وهذا مذهب مالك والشافعي وجمهور العلماء من الصحابة والتابعین فمن بعدهم۔یعنی اس حدیث ( ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ ) میں سورۃ فاتحہ کے فرض ہونے کا ثبوت ہے اورعاجز کے سوا سورۃ فاتحہ نماز میں متعین ہے۔ کوئی دوسری آیت اس کی جگہ کفایت نہیں کرسکتی اور یہی مذہب امام مالک اورامام شافعی اور جمہورصحابہ کرام اورتابعین اوران کے بعد علماءوائمہ عظام کاہے۔ اس حدیث میں سورۃ فاتحہ پڑھے بغیرنماز کے لیے لفظ خداج کا استعمال کیاگیاہے۔ چنانچہ امام خطابی معالم السنن شرح ابوداؤد، جلد1، ص: 203 پر فہی خداج کا معنی لکھتے ہیں: معناہ ناقصة نقص فساد وبطلان یقول العرب أخدجت الناقة إذا ألقت ولدها وهو دم لم یستبن خلقه فهي مخدج والخداج اسم مبني عنه۔(مرعاة، ج1، ص: 588)حاصل اس کا یہ ہے کہ جس نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے، وہ فاسداور باطل ہے۔ اہل عرب اخدجت الناقۃ اس وقت بولتے ہیں جب اونٹنی اپنے بچے کو اس وقت گرادے کہ وہ خون ہو اور اس کی خلقت وپیدائش ظاہر نہ ہوئی ہو۔ اوراسی سے لفظ خداج لیا گیاہے۔ ثابت ہوا کہ خداج وہ نقصان ہے جس سے نماز نہیں ہوتی اوراس کی مثال اونٹنی کے مردہ بچہ جیسی ہے۔ اقرابہا فی نفسک اس کا معنی دل میں تدبر وتفکر اورغورکرنا نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ زبان کے ساتھ آہستہ آہستہ سورۃ فاتحہ پڑھا کر۔ امام بیہقی ؒ فرماتے ہیں: والمراد بقوله اقرأ بها في نفسك أن یتلفظ بها سرا دون الجهر بها ولایجوز حمله علی ذکرها بقلبه دون التلفظ بها لإجماع أهل اللسان علی أن ذلك لایسمی قراءة ولإجماع أهل العلم علی أن ذکرها بقلبه دون التلفظ بها لیس بشرط ولامسنون ولایجوز حمل الخبر علی مالا یقول به أحد ولایساعدہ لسان العرب۔(کتاب القراءت، ص:17) یعنی اس قول ( اقرأ بها في نفسك) سے مراد یہ ہے کہ زبان سے آہستہ آہستہ پڑھ اور اس کو ذکر قلب یعنی تدبر و تفکر و غور پر محمول کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ اہل لغت کا اس پراجماع ہے کہ اس کو قراۃ نہیں کہتے اوراہل علم کا اس پر بھی اجماع ہے کہ زبان سے تلفظ کئے بغیر صرف دل سے ذکر کرنا نماز کی صحت کے لیے نہ شرط ہے اورنہ ہی سنت۔ لہٰذا حدیث کو ایسے معنی پر حمل کرنا جس کا کوئی بھی قائل نہیں اورنہ ہی لغت عرب اس کی تائید کرے جائز نہیں۔ تفسیرجلالین، جلد1، ص: 148مصری میں ﴿واذکر ربك في نفسك﴾ کا معنی لکھاہے: أي سرا یعنی اللہ تعالیٰ کو زبان سے آہستہ یادکر۔ امام نووی ؒ شرح مسلم، جلد1، ص: 170 اقرأ بها في نفسك کا معنی لکھتے ہیں: فَمَعْنَاهُ اقْرَأْهَا سِرًّا بِحَيْثُ تُسْمِعُ نَفْسَكَ وَأَمَّا مَا حَمَلَهُ عَلَيْهِ بَعْضُ الْمَالِكِيَّةِ وَغَيْرُهُمْ أَنَّ الْمُرَادَ تَدَبُّرُ ذَلِكَ وَتَذَكُّرُهُ فَلَا يُقْبَلُ لِأَنَّ الْقِرَاءَةَ لَا تُطْلَقُ إلا على حركةاللسان بحيث يسمع نفسه۔ اورحدیث میں قرات ( پڑھنے ) کا حکم ہے۔ لہٰذا جب تک مقتدی فاتحہ کو زبان سے نہیں پڑھے گا، اس وقت تک حدیث پر عمل نہیں ہوگا۔ ہدایہ، جلد1، ص: 98 میں ہے: لأن القراءة فعل اللسان۔کیونکہ قراۃ ( پڑھنا ) زبان کا کام ہے۔ کفایہ، جلد1، ص: 64 میں ہے: فیصلي السامع في نفسه أي یصلي بلسانه خفیا یعنی جب خطیب آیت ﴿یآیها الذین آمنوا صلوا علیه وسلموا تسلیما﴾ ( الاحزاب: 56 ) پڑھے توسامعین کو چاہئیے کہ اپنی زبان سے آہستہ درود پڑھ لیں۔ یعنی فی نفسہ کا معنی زبان سے آہستہ اورپوشیدہ پڑھنا ہے۔ ان حوالہ جات سے واضح ہوگیا کہ فی نفسک کا معنی دل میں تدبر اور غوروفکر کرنا، لغت اوراہل علم اور خودفقہاءکی تصریحات کے خلاف ہے اورصحیح معنی یہ ہے کہ زبان سے آہستہ پڑھا کراوریہی حدیث کا مقصود ہے۔ تیسری حدیث یہ ہے: عن عائشة رضي اللہ عنها قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم من صلی صلوٰة لم یقرأ افیها بفاتحة الکتاب فهي خداج غیر تمام۔ ( جزءالقرات، ص: 8، دہلی، کتاب القرات، ص: 31 ) حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے کسی نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی وہ نماز ناقص ہے پوری۔ ” خداج کی تفسیر اوپر گزر چکی ہے۔ اس بارے میں چوتھی حدیث یہ ہے: عن أنس رضی اللہ عنه أن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم صلی بأصحابه فلما قضی صلوٰته أقبل علیهم بوجهه فقال أتقرءون في صلوٰتکم خلف الإمام والإمام یقرأ فسکتوا فقال لها ثلاث مرات فقال قائل أوقائلون إنا لنفعل قال فلا تفعلوا ولیقرأ أحدکم فاتحة الکتاب في نفسه۔(کتاب القراءت، ص: 48، 49، 50، 55، جزءالقراءة دہلي، ص: 28) حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھائی۔ نماز پوری کرنے کے بعد آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا۔ جب امام پڑھ رہا ہو توتم بھی اپنی نماز میں امام کے پیچھے پڑھتے ہو؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خاموش ہوگئے۔ تین بار آپ نے یہی فرمایا۔ پھر ایک سے زیادہ لوگوں نے کہا، ہاں! ہم ایسا کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ایسا نہ کرو۔ تم میں سے ہر ایک صرف سورۃ فاتحہ آہستہ پڑھا کرے۔ اس حدیث سے امام کے پیچھے مقتدی کے لیے سورۃ فاتحہ پڑھنے کی فرضیت صاف ثابت ہے۔ اس بارے میں مزیدوضاحت کے لیے پانچویں حدیث یہ ہے: عن أبي قلابة أن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قال لعل أحدکم یقرأ خلف الإمام والإمام یقرأ فقال رجل إنالنفعل ذلك قال فلا تفعلوا ولکن لیقرأ أحدکم بفاتحة الکتاب۔(کتاب القراءة، ص: 50)ابوقلابہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، شاید جب امام پڑھ رہا ہو تو ہر ایک تمہارا امام کے پیچھے پڑھتاہے۔ ایک آدمی نے کہا بے شک ہم ایسا کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا مت کرو اورلیکن ہر ایک تمہارا ( امام کے پیچھے ) سورۃ فاتحہ پڑھا کرے۔ ان احادیث سے روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ مقتدی کے لیے سورۃ فاتحہ ضروری ہے۔ کیونکہ ان احادیث میں خاص لفظ فاتحہ اورخلف امام موجود ہے اورمزید وضاحت کے لیے چھٹی حدیث یہ ہے: عن عبداللہ بن سوادة القشیري عن رجل من أهل البادیة عن أبیه وکان أبوہ أسیرا عند رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قال سمعت محمدا صلی اللہ علیه وسلم قال لأصحابه تقرؤن خلفي القرآن فقالوا یارسول اللہ نهذہ هذا قال لا تقرءوا إلابفاتحة الکتاب۔(کتاب القراءة، ص: 53)عبداللہ بن سوادۃ ایک دیہاتی سے، وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں اور اس کا باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسیر تھا۔ اس نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو فرماتے ہوئے سنا۔ کیا تم نماز میں میرے پیچھے قرآن پڑھتے ہو؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا۔ اے اللہ کے رسول الله ﷺ ! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا سوائے سورۃ فاتحہ کے کچھ نہ پڑھا کرو۔ امام بخاری ؒ فرماتے ہیں: وتواترالخبرعن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم لاصلوٰة إلابقراءة أم القرآن۔(جزءالقراءة، ص: 4، دہلی)یعنی اس بارے میں کہ بغیرسورۃ فاتحہ پڑھے نماز نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر ( یعنی جم غفیر روایت کرتے ہیں ) کے ساتھ احادیث مروی ہیں۔ امام عبدالوہاب شعرانی میزان کبریٰ، جلد1، ص: 166، طبع دہلی میں فرماتے ہیں: من قال بتعین الفاتحة وإنه لایجزي قراءة غیرها قددار مع ظاهرالأحادیث التي کادت تبلغ حدا لتواتر مع تائید ذلك بعمل السلف والخلف۔یعنی جن علماءنے سورۃ فاتحہ کو نماز میںمتعین کیاہے اورکہاکہ سورۃ فاتحہ کے سوا کچھ اورپڑھنا کفایت نہیں کرسکتا۔ اولاً توان کے پاس احادیث نبویہ اس کثرت سے ہیں کہ تواتر کو پہنچنے والی ہیں۔ ثانیاً سلف وخلف ( صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وتابعین وتبع تابعین وائمہ عظام ) کا عمل بھی تعین فاتحہ درنماز کی تائید کرتاہے۔ مسک الختام شرح بلوغ المرام، جلد1، ص: 219 مطبع نظامی میں ہے۔ ''وایں حدیث راشواہد بسیاراست۔'' یعنی قراۃ فاتحہ خلف الامام کی حدیث کے شواہد بہت زیادہ ہیں۔ تفسیر ابن کثیر، ص: 12 میں ہے: والأحادیث في هذا الباب کثیرة۔ یعنی قراۃ فاتحہ کی احادیث بکثرت ہیں۔ ان ہی احادیث کثیرہ کی بناپر بہت سے محققین علمائے احناف بھی قراۃ خلف الامام کے قائل ہیں، جس کی تفصیل کے سلسلہ میں المحدث الکبیر حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری مرحوم فرماتے ہیں: علامہ شعرانی نے لکھاہے کہ امام ابوحنیفہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول کہ مقتدی کو الحمدنہیں پڑھنا چاہئیے ان کا پرانا قول ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے اپنے پرانے قول سے رجوع کرلیا ہے اورمقتدی کے لیے الحمد پڑھنے کو سری نماز میں مستحسن اورمستحب بتایاہے۔ چنانچہ علامہ موصوف لکھتے ہیں: لأبي حنیفة ومحمد قولان أحدھما عدم وجوبها علی المأموم بل ولاتسن وهذا قولهما القدیم وأدخله محمد في تصانیفه القدیمة وانتشرت النسخ إلی الأطراف وثانیها استحسانها علی سبیل الاحتیاط وعدم کراہتها عندالمخالفة الحدیث المرفوع لاتفعلوا إلابأم القرآن وفي روایة لاتقرءوا بشيئ إذا جهرت إلا بأم القرآن وقال عطاء کانوا یرون علی المأموم القراءة في ما یجهر فیه الإمام وفي ما یسرفرجعا من قولهما الأول إلی الثاني احتیاطا انتهیٰ کذا في غیث الغمام، ص: 156 حاشیۃ امام الکلام۔ خلاصہ ترجمہ: اس عبارت کا یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ اورامام محمد ؒ کے دوقول ہیں۔ ایک یہ کہ مقتدی کوالحمد پڑھنا نہ واجب ہے اورنہ سنت اوران دونوں اماموں کا یہ قول پرانا ہے اورامام محمد ؒ نے اپنی قدیم تصنیفات میں اسی قول کو درج کیاہے اور ان کے نسخے اطراف وجوانب میں منتشر ہوگئے اور دوسرا قول یہ ہے کہ مقتدی کونماز سری میں الحمد پڑھنا مستحسن ہے علی سبیل الاحتیاط۔ اس واسطے کہ حدیث مرفوع میں وارد ہواہے کہ نہ پڑھو مگرسورۃ فاتحہ اور ایک روایت میں ہے کہ جب میں باآوازبلند قرات کروں توتم لوگ کچھ نہ پڑھو مگرسورۃ فاتحہ اور عطاء ؒ نے کہا کہ لوگ ( یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم وتابعین رحمۃ اللہ علیہم ) کہتے تھے کہ نماز سری وجہری دونوں میں مقتدی کوپڑھنا چاہئیے۔ پس امام ابوحنیفہ ؒ اورامام محمد ؒ نے احتیاطاً اپنے پہلے قول سے دوسرے قول کی طرف رجوع کیا۔ لواب بقول علامہ شعرانی امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک بھی امام کے پیچھے الحمد پڑھنا جائز ہوا بلکہ مستحسن ومستحب۔ اے ناظرین: جس حدیث کو علامہ شعرانی نے ذکرکیاہے اورجس کی وجہ سے امام ابوحنیفہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا اپنے قول سے رجوع کرنا لکھاہے۔ اسی حدیث اوراس کے مثل اوراحادیث صحیحہ کو دیکھ کرخود مذہب حنفی کے بڑے بڑے فقہاء وعلماءامام ابوحنفیہ ؒ کے قول قدیم کو چھوڑ کر امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کے قائل وفاعل ہوگئے۔ بعض تونماز سری اور جہری دونوں میں اور بعض فقط نماز سری میں۔ علامہ عینی شرح بخاری میں لکھتے ہیں: بعض أصحابنا یستحسنون ذلك علی سبیل الاحتیاط في جمیع الصلوات وبعضهم في السریة فقط وعلیه فقهاءالحجاز والشام ( کذا فی غیث الغمام، ص: 156 ) یعنی بعض فقہائے حنفیہ ہرنماز میں خواہ سری ہو خواہ جہری امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کواحتیاطاً مستحسن بتاتے ہیں اوربعض فقہاءفقط نماز سری میں اورمکہ اورمدینہ اورملک شام کے فقہاءکا اسی پر عمل ہے۔ عمدۃ القاری، ص: 173میں مولانا عبدالحئی صاحب لکھتے ہیں: وروي عن محمد أنه استحسن قراءة الفاتحة خلف الإمام في السریة و روي مثلي عن أبي حنیفة صریح به في الهدایة والمجتبیٰ شرح مختصر القدروي وغیرهما وهذا هو مختار کثیرمن مشائخنا۔یعنی امام محمد ؒ سے مروی ہے کہ انھوں نے امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کو نماز سری میں مستحسن بتایاہے اوراسی طرح امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیاگیاہے۔ اوراسی کو ہمارے بہت سے مشائخ نے اختیارکیاہے۔ ہدایہ میں ہے ویستحسن علی سبیل الاحتیاط في مایروی عن محمد۔یعنی امام محمد ؒ سے مروی ہے کہ امام کے پیچھے الحمد پڑھنا احتیاطاً مستحسن ہے۔ مولوی عبدالحی صاحب امام الکلام میں لکھتے ہیں: وهو وإن کان ضعیفاً روایة لکنه قوي درایة ومن المعلوم المصرح في غنیة المستملي شرح منیة المصلي وغیرہ أنه لایعدل عن الروایة إذا وافقتها درایة۔یعنی امام محمد ؒ کا یہ قول کہ ” امام کے پیچھے الحمد پڑھنا مستحسن ہے “ اگرچہ روایتاً ضعیف ہے لیکن دلیل کے اعتبار سے قوی ہے۔ اور غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ جب روایت دلیل کے موافق ہو تواس سے عدول نہیں کرناچاہئیے اورعلامہ شعرانی کے کلام سے اوپر معلوم ہوچکاہے کہ امام محمد ؒ نیز امام ابوحنیفہ ؒ کابھی اخیرقول ہے۔ اور ان دونوں اماموں نے اپنے پہلے قول سے رجوع کرلیاہے۔ اورشیخ الاسلام نظام الملۃ والدین مولانا عبدالرحیم جوشیخ التسلیم کے لقب سے مشہور ہیں اوررئیس اہل تحقیق کے نام سے بھی آپ یادکئے گئے ہیں اورباتفاق علماءماوراءالنہر وخراسان مذہب حنفی کے ایک مجتہد ہیں۔ آپ باوجود حنفی المذہب ہونے کے امام ابوحنیفہ کے مسلک قدیم کو چھوڑکر امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو مستحب کہتے ہیں اورخود بھی پڑھتے اور فرماتے تھے: لوکان في فمي یوم القیامة جمرة أحب إلي من أن یقال لاصلوٰة لك۔یعنی اگرقیامت کے روز میرے منہ میں انگارا ہو تومیرے نزدیک یہ بہتر ہے اس سے کہ کہا جائے کہ تیری تونماز ہی نہیں ہوئی۔(إمام الکلام، ص: 20) اے ناظرین! یہ حدیث کہ جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی نہایت صحیح ہے اوریہ حدیث جو شخص امام کے پیچھے پڑھے اس کے منہ میں قیامت کے روز انگارا ہوگا موضوع اورجھوٹی ہے۔ شیخ التسلیم نے اپنے قول میں پہلی حدیث کے صحیح ہونے اوردوسری حدیث کے موضوع اورجھوٹی ہونے کی طرف اشارہ کیاہے۔ اورامام ابوحفص کبیر ؒ جومذہب حنفی کے ایک بہت بڑے مشہور فقیہ ہیں اورامام محمد کے تلامذہ کبار میں سے ہیں۔ آپ نے بھی اسی مسلک کو اختیار کیا ہے۔ یعنی یہ بھی نماز سری میں امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کے قائل تھے اوران کے سوا اور بہت سے فقہاءنے بھی اسی مسلک کو اختیار کیاہے۔ جیسا کہ گزر چکاہے اورمشائخ حنفیہ اورجماعت صوفیہ کے نزدیک بھی یہی مسلک مختار ہے۔ ملاجیون نے تفسیراحمدی میں لکھاہے: فإن رأیت الطائفة الصوفیة والمشائخین تراهم یستحسنون قراءة الفاتحة للموتم کما استحسنه محمد أیضا احتیاطاً فیماروي عنه انتهیٰ۔ یعنی اگرجماعت صوفیہ اورمشائخین حنفیہ کو دیکھوگے توتمھیں معلوم ہوگا کہ یہ لوگ امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو مستحسن بتاتے تھے۔ جیساکہ امام محمد احتیاطاً استحسان کے قائل تھے۔ اورمولانا شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی نے بھی باوجود حنفی المذہب ہونے کے امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو اولیٰ الاقوال بتایاہے۔ دیکھو حجۃ اللہ البالغۃ اور جناب شاہ صاحب کے والدماجد مولاناشاہ عبدالرحیم صاحب ؒ بھی امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کے قائل تھے۔ چنانچہ شاہ صاحب ” انفاس العارفین “ میں اپنے والد ماجد کے حال میں لکھتے ہیں کہ وہ ( یعنی مولانا شاہ عبدالرحیم صاحب ؒ ) اکثرمسائل فروعیہ میں مذہب حنفی کے موافق تھے۔ لیکن کسی مسئلہ میں حدیث سے یاوجدان سے مذہب حنفی کے سوا کسی اورمذہب کی ترجیح اورقوت ظاہر ہوتی تو اس صورت میں حنفی مذہب کا مسئلہ چھوڑدیتے۔ ازاں جملہ ایک یہ ہے کہ امام کے پیچھے الحمد پڑھتے تھے اورنماز جنازہ میں بھی سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے۔ (غیث الغمام، ص: 174) اورمولانا شاہ عبدالعزیز صاحب ؒ نے بھی امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کی فرضیت کوترجیح دی ہے۔ چنانچہ آپ ایک استفتا کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ مقتدی کو امام کے پیچھے الحمد پڑھنا امام ابوحنیفہ کے نزدیک منع ہے اورامام محمد کے نزدیک جس وقت امام آہستہ پڑھے جائز ہے۔ اورامام شافعی کے نزدیک بغیر پڑھے الحمد کے نماز جائز نہیں۔ اورنزدیک اس فقیر کے بھی قول امام شافعی کا ترجیح رکھتاہے اور بہترہے کیونکہ اس حدیث کے لحاظ سے نہیں نماز ہوتی مگر سورۃ فاتحہ سے نماز کا بطلان ثابت ہوتا ہے۔ اورقول امام ابوحنیفہ کا بھی جابجا وارد ہے کہ جس جگہ حدیث صحیح وارد ہو اورمیرا قول اس کے خلاف پڑے تومیرے قول کو چھوڑدینا چاہئیے اورحدیث پر عمل کرناچاہئیے۔ انتهیٰ مترجماً بقدرالحاجة۔ اورمولوی عبدالحئی صاحب لکھنوی نے اس مسئلہ میں خاص ایک رسالہ تصنیف کیاہے جس کا نام امام الکلام ہے اس رسالہ میں آپ نے باوجود حنفی ہونے کے یہ فیصلہ کیاہے کہ امام کے پیچھے الحمد پڑھنا نماز سری میں مستحسن ومستحب ہے اور نماز جہری میں بھی سکتات امام کے وقت۔ چنانچہ رسالہ مذکورہ ص: 156میں لکھتے ہیں: فاذن ظهرحق الظهور إن أقوی المسالك سلك علیها أصحابنا هومسلك استحسان القراءة في السریة کما هو روایة عن محمد بن الحسن واختارها جمع من فقهاءالزمن وأرجورجاء موثقا أن محمدا لما جوز القراءة في السریة واستحسنها لابد أن یجوز القراءة في الجهریة في السکتات عند وجدانها لعدم الفرق بینه و بینه انتهیٰ۔مختصرا یعنی اب نہایت اچھی طرح ظاہرہوگیا کہ جن مسلکوں کو ہمارے فقہائے حنفیہ نے اختیارکیاہے، ان سب میں زیادہ قوی یہی مسلک ہے کہ امام کے پیچھے الحمد پڑھنا نماز سری میں مستحسن ہے۔ جیسا کہ روایت ہے امام محمدرحمۃ اللہ علیہ سے اوراسی مسلک کو فقہائے زمانہ کی ایک جماعت نے اختیار کیاہے اورمیں ( یعنی مولوی عبدالحئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ) امید واثق رکھتاہوں کہ امام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے جب نماز سری میں امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو مستحسن کہا ہے توضرور جہری میں بھی سکتات امام کے وقت مستحسن ہونے کے قائل ہوں گے۔ کیونکہ نماز جہری میں سکتات امام کی حالت میں اورنماز سری میں کچھ فرق نہیں ہے اورمولوی صاحب موصوف نے اپنا یہی فیصلہ سعایہ شرح وقایہ میں بھی لکھاہے۔ ملاعلی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے مرقاۃ شرح مشکوۃ میں یہ لکھاہے کہ نماز سری میں امام کے پیچھے الحمد پڑھنا جائز ہے، اورنماز جہری میں منع ہے۔ مولوی عبدالحئی صاحب نے ملاصاحب کے اس قول کورد کردیاہے۔ چنانچہ سعایہ میں لکھتے ہیں کہ ملاعلی قاری کا یہ قول ضعیف ہے، کیاملا علی قاری کو یہ نہیں معلوم ہے کہ عبادہ ؓ کی حدیث سے نماز جہری میں امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کا جواز صراحتاً ثابت ہے۔ فتح القدیر وغیرہ کتب فقہ میں لکھاہے کہ منع کی دلیلوں کے لینے میں زیادہ احتیاط ہے۔ مولوی عبدالحئی صاحب نے اس کو بھی رد کردیاہے۔ چنانچہ سعایہ، ص: 304 میں لکھتے ہیں: وکذا ضعف ما في فتح القدیر وغیرہ أن الأخذ بالمنع أحوط فإنه لامنع ههنا عند تدقیق النظر۔ یعنی فتح القدیر وغیرہ میں جو یہ لکھاہے کہ منع کی دلیلوں کے لینے میں زیادہ احتیاط ہے، سویہ ضعیف ہے۔ کیونکہ دقیق نظر سے دیکھا جائے تویہاں منع کی کوئی روایت ہی نہیں ہے اورمولوی صاحب موصوف تعلیق الممجد، ص: 101 میں لکھتے ہیں: لم یرد في حدیث مرفوع صحیح النهي عن قراءة الفاتحة خلف الإمام وکل ماذکروہ مرفوعا فیه إما لاأصل له وإما لا یصح انتهی۔یعنی امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کی ممانعت کسی حدیث مرفوع صحیح میں وارد نہیں ہوئی اور ممانعت کے بارے میں علمائے حنفیہ جس قدر مرفوع حدیثیں بیان کرتے ہیں یاتو ان کی کچھ اصل ہی نہیں ہے یاوہ صحیح نہیں ہیں۔ اے ناظرین! دیکھو اورتو اورخودمذہب حنفی کے بڑے فقہاءوعلماءنے قرات فاتحہ خلف الامام کی حدیثوں کو دیکھ کر امام ابوحنیفہ صاحب ؒ کے مسلک مشہور کو چھوڑ کر امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو مستحسن ومستحب بتایاہے اورخود بھی پڑھاہے۔ بعض فقہاءنے ہرنماز میں سری ہو یا جہری اور بعض نے فقط سری میں۔ اوربقول علامہ شعرانی خودامام ابوحنیفہ صاحب اورامام محمد نے بھی ان ہی حدیثوں کی وجہ سے اپنے پہلے قول سے رجوع کرکے نماز سری میں امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو مستحب ومستحسن بتایاہے اور مولوی عبدالحئی صاحب لکھنوی حنفی نے اس مسئلہ میں جو کچھ فیصلہ کیااور لکھاہے۔ آپ لوگوں نے اس کو بھی سن لیا۔ مگربااین ہمہ ابھی تک بعض حنفیہ کا یہی خیال ہے کہ امام کے پیچھے الحمد پڑھنا ہرنماز میں سری ہو خواہ جہری ناجائز وحرام ہے۔ اور امام صاحب کے اسی مسلک مشہور کو ( جس کی کیفیت مذکورہوچکی ہے ) شاہ راہ سمجھ کر اسی پر چلے جاتے ہیں۔ خیراگر اسی مسلک کو شاہ راہ سمجھتے تھے اور اسی پر چپ چاپ چلے جاتے۔ لیکن حیرت تویہ ہے کہ ساتھ اس کے قرات فاتحہ خلف الامام کی ان حدیثوں کا بھی صاف انکار کیاجاتاہے ۔ جن کی وجہ سے اورتو اورخودمذہب حنفی کے ائمہ وفقہاءوعلماءنے امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو اختیار کرلیا۔ یااگر انکارنہیں کیاجاتاہے توان کی مہمل اورناجائز تاویلیں کی جاتی ہیں۔ اورزیادہ حیرت تو ان علمائے حنفیہ سے ہے جوروایات موضوعہ وکاذبہ اورآثار مختلفہ وباطلہ کو اپنی تصنیفات میں درج کرکے اوربیان کرکے اپنے عوام اورجاہل لوگوں کو فتنے میں ڈالتے ہیں اوران کی زبان سے اورتواور خود اپنے ائمہ وفقہاءکی شان میں کلمات ناشائستہ اورالفاظ ناگفتہ بہ نکلواتے ہیں۔ کوئی جاہل بکتاہے کہ امام کے پیچھے جوالحمد پڑھے گا وہ گنہگار ہے۔ والعیاذ باللہ۔﴿کبرت کلمة تخرج من أفواههم﴾(الکهف: 5) ۔ اگرچہ غور سے دیکھاجائے تو ان جاہلوں کا یہ قصورنمبردوم میں ہے اور نمبراول کا قصور انھیں علماءحنفیہ کا ہے، جو روایات کاذبہ و موضوعہ کو ذکرکرکے ان جاہلوں کو فتنے میں ڈالتے اوران کی زبان سے اپنے بزرگان دین کے منہ میں آگ وپتھر بھرواتے ہیں اورجو چاہتے ہیں ان سے کہلواتے ہیں۔ اگریہ روایات کاذبہ وموضوعہ کو بیان نہ کرتے یابیان کرتے مگران کا کذب وموضوع ہونا بھی صاف صاف ظاہر کرتے اورساتھ اس کے اس ضمن کو بھی واضح طور پر بیان کرتے جو اوپر ہم نے بیان کیا ہے توان جاہلوں کی زبان سے ایسے ناگفتہ بہ کلمات نہ نکلتے۔
آنچہ مے پرسی کہ خسرو را کہ کشت غمزئہ تو چشم تو ابروئے تو
(تحقیق الکلام، حصہ اول، ص: 7) ہمارے محترم علمائے احناف کے پاس بھی کچھ دلائل ہیں جن کی تفصیلی حقیقت معلوم کرنے کے لیے محدث کبیر حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری کی مشہور کتاب تحقیق الکلام کا مطالعہ کیا جاسکتاہے۔ یہاں ہم اجمالی طور پر ان دلائل کی حقیقت حضرت مولاناعبدالحئی حنفی لکھنوی مرحوم کے لفظوں میں پیش کردینا چاہتے ہیں۔ موصوف علمائے احناف کے چوٹی کے عالم ہیں۔ مگراللہ پاک نے آپ کوجو بصیرت عطا فرمائی وہ قابل صد تعریف ہے۔ چنانچہ آپ نے مندرجہ ذیل بیان میں اس بحث کا بالکل خاتمہ کردیاہے۔ آپ فرماتے ہیں :لم یرد في حدیث مرفوع صحیح النهي عن قراءة الفاتحة خلف الإمام وکل ماذکروہ مرفوعا فیه إما لاأصل له وإما لا یصح۔ (تعلیق الممجد علی موطأ إمام مالك، ص: 101، طبع یوسفي) یعنی کسی مرفوع حدیث میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کی نہی ( منع ) وارد نہیں ہوئی اور اس کے بارے میں علمائے حنیفہ جس قدردلائل ذکر کرتے ہیں یاتو وہ بالکل بے اصل اورمن گھڑت ہیں، یا وہ صحیح نہیں۔ فظهر أنه لایوجد معارض لأحادیث تجویزالقراءة خلف الإمام مرفوعا۔(تعلیق الممجد، ص: 101 طبع یوسفي)یعنی امام کے پیچھے ( سورہ فاتحہ ) پڑھنے کی احادیث کے معارض ومخالف کوئی مرفوع حدیث نہیں پائی جاتی۔ حنفیہ کے دلائل کے جواب ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: وبالجملة لایظهر لأحادیث تجویزالقراءة خلف الإمام معارض یساویها في الدرجة ویدل علی المنع۔ ( تعلیق الممجد، ص: 101 ) یعنی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ امام کے پیچھے ( سورۃ فاتحہ ) پڑھنے کی احادیث کے درجہ کی کوئی معارض ومخالف حدیث نہیں ہے اورنہ ہی ( امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے ) منع پر کوئی حدیث دلالت کرتی ہے۔ امید ہے کہ ناظرین کرام کے اطمینان خاطرکے لیے اسی قدرکافی ہوگا۔ اپنا مقصد صرف یہی ہے کہ سورۃ فاتحہ خلف الامام پڑھنے والوں سے حسد بغض رکھنا، ان کو غیرمقلد، لامذہب کہنا یہ کسی طرح بھی زیبانہیں ہے۔ ضروری ہے کہ ایسے فروعی مباحث میں وسعت قلبی سے کام لے کر باہمی اتفاق کے لیے کوشش کی جائے جس کی آج اشد ضرورت ہے۔ وباللہ التوفیق۔ نوٹ: کچھ لوگ آیت شریفہ ﴿وإذاقرئ القرآن﴾ سے سورۃ فاتحہ نہ پڑھنے کی دلیل پکڑتے ہیں حالانکہ یہ آیت مکہ شریف میں نازل ہوئی جب کہ نماز باجماعت کا سلسلہ بھی نہ تھا، لہٰذا استدلال باطل ہے۔ تفصیل مزید کے لیے ثنائی ترجمہ والے قرآن مجید کے آخر میں مقالہ ثنائی کا مطالعہ کیاجائے۔ ( راز)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ubadahh bin As-Samit (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Whoever does not recite Al-Fatiha in his prayer, his prayer is invalid."