تشریح:
(1) امام ابن خزیمہ اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے ’’جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو‘‘ فرماتے ہیں اس فرمان نبوی سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ امام کو بآواز بلند آمین کہنی چاہیے کیونکہ رسول اللہ ﷺ امام کی آمین کے وقت آمین کہنے کا حکم اسی سورت میں دے سکتے ہیں۔ جب مقتدی کو امام کی آمین کا پتہ چل ہو۔ اگر امام بآواز بلند آمین کہنے کے بجائے آہستہ کہے تو مقتدی کو معلوم نہیں ہوسکے گا کہ امام نے آمین کہی ہے یا نہیں اور یہ محال ہے کہ کسی سے کہا جائے کہ جب فلاں آدمی یہ کہے تو تم بھی اسی طرح کہو جبکہ وہ اس کی بات نہ سن رہا ہو۔کوئی عالم بھی اس محال کا تصور نہیں کرسکتا کہ رسول اللہ ﷺ مقتدی کو آمین اس وقت کہنے کا حکم دیں۔ جب امام آمین کہے اور مقتدی امام کی آمین نہ سن رہا ہو۔ (صحیح ابن خزیمة:286/1) کئی قرائن امام ابن خزیمہ کے مذکورہ بیان کی تائید کرتے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭حضرت نعیم مجمر سے روایت ہے، وہ حضرت ابو ہریرہ ؓ کے پیچھے نماز پڑھنے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب وہ ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾) پر پہنچے تو انھوں نے آمین کہی اور لوگوں نے بھی آمین کہی، پھر انھوں نے فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے!میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کی نماز میں مشابہ ہوں۔ (سنن النسائي، الصلاة، حدیث:906)٭حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:جب رسول اللہ ﷺ سورۂ فاتحہ کی قراءت سے فارغ ہوتے تو اپنی آواز بلند کرتے ہوئے آمین کہتے۔ (صحیح ابن حبان:147/3)
(2) دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی مرویات سے بھی بآواز بلند آمین کہنے کا پتہ چلتا ہے، مثلا:٭حضرت وائل بن حجر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا: آپ نے﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾) پڑھا تو آمین کہی اور اپنی آواز کو خوب کھینچا۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:248) ٭حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا: آپ نے جب ﴿وَلَا الضَّالِّينَ﴾ کہا تو آمین کہی۔ (سنن ابن ماجة، الصلاة، حدیث:854)
(3) متعدد محدثین نے اس حدیث پر بآواز بلند آمین کہنے پر عنوان قائم کیے ہیں، مثلا: ٭امام بخاری ؒ جیسا کہ یہاں موجود ہے۔٭ امام نسائی ؒ نے (باب جهر الإمام بآمين) ٭امام ابن خزیمہ ؒ نے(باب الجهر بآمين) ٭امام ابن ماجہ ؒ نے (باب الجهر بآمين) کے عنوان قائم کیے ہیں۔
(4) صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ جب امام ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾) کہے تو تم آمین کہو۔ (حدیث:782) یہ حدیث بظاہر مذکورہ حدیث کے متعارض ہے کیونکہ اس میں امام کے آمین کہنے پر آمین کا حکم ہے، لیکن اس حدیث میں ﴿وَلَا الضَّالِّينَ﴾ کہنے پر ہی یہ حکم دیا گیا ہے۔ جمہور علماء نے ان احادیث میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ امام کے آمین کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ آمین کہنے کا ارداہ کرے اور اس کا آمین کہنے کا ارداہ ﴿وَلَا الضَّالِّينَ﴾ کہنے کے بعد ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک حدیث میں صراحت ہے کہ جب امام ﴿وَلَا الضَّالِّينَ﴾ کہے تم تو آمین کہو۔ بلاشبہ فرشتے بھی آمین کہتے ہیں اور امام بھی آمین کہتا ہے۔ یہ روایت ابو داود اور نسائی میں ہے اور اس میں امام کے آمین کہنے کی صراحت ہے۔ (فتح الباري:342/2)
(5) بعض حضرات امام کے آمین کہنے کے قائل نہیں وہ مذکورہ حدیث کی تاویلیں کرتے ہیں، مثلا: أمن کا معنی آمین کہنا نہیں بلکہ مجازی معنی دعا کرنا ہے۔دعا کرنے والے کو آمین کہنے والا کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں حضرت ہارون ؑ کو آمین کہنے والے تھے انھیں داعی، یعنی دعا کرنے والا کہا گیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ أُجِيبَت دَّعْوَتُكُمَا﴾ (یونس89:10) ’’ تم دونوں کی دعا قبول ہوئی۔‘‘ حالانکہ دعا کرنے والے صرف موسیٰ ؑ تھے اور حضرت ہارون تو آمین کہتے تھے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب دیا ہے کہ آمیں کہنے والے کو داعی کہنے سے داعی کو آمین کہنے والا ثابت نہیں ہوتا،پھر یہ بات بھی محل نظرہے کہ صرف موسیٰ علیہ السلام دعا کرنے والے تھے حضرت ہارون علیہ السلام دعا کرنے والوں میں شامل نہیں تھے۔(فتح الباری:2/341) ٭(أمن) سے مراد آمین کہنا نہیں بلکہ آمین کے مقام پ پہنچنا ہے جیسا کہ عرب أنجدکا لفظ بول کر وہ شخص مراد لیتے ہیں جو نجد کے قریب پہنچ چکا ہو لیکن ابھی داخل نہ ہوا ہو۔ابن دقیق العید اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ معنی مجازی ہے اور مجاز پر اس وقت عمل ہوتا ہے جب حقیقی معنی متعذر یا محال ہو، ورنہ اصل یہی ہے کہ حقیقی معنی پر محمول کیا جائے۔ (فتح الباري:342/2)
(6) مذکورہ حدیث میں ابن شہاب کے حوالے سے وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ خود بھی آمین کہا کرتے تھے۔علامہ کرمانى ؒ اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ إذا أمن الإمام کی تفسیر ہے اور اس میں ان لوگوں کا رد ہے جو اس سے مراد ﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾) کے الفاظ سے دعا کرنا کہتے ہیں۔ (شرح الکرماني:145/5) اس معنی کی تائید سنن نسائی کی روایت سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب امام ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾) کہے تو تم آمین کہو، کیونکہ فرشتے بھی اس وقت آمین کہتے ہیں اور امام بھی آمین کہتا ہے،جس شخص کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہوگئی اس کے گزشتہ گناہ معاف ہوجائیں گے۔‘‘ (سنن النسائي، الصلاة، حدیث:927) گویا راوئ حدیث حضرت ابن شہاب کو اندیشہ تھا کہ لوگ إذا أمن الإمام کی غلط تاویل کریں گے، اس لیے انھوں نے واضح کردیا کہ اس سے مراد حقیقی معنی، یعنی آمین کہنا ہی ہے۔
(7) علامہ ابن منیر ؒ فرماتے ہیں: ایک ساتھ آمین کہنے کی ترغیب میں یہ حکمت ہے کہ اس سے مقتدی چوکس اور بیدار رہیں گے تاکہ بروقت کام ادا کریں اور کسی صورت میں غفلت کا شکار نہ ہوں جس طرح فرشتے غفلت سے کام نہیں لیتے۔ اور جو فرشتوں کی موافقت کرے گا وہ ہوشیار اور بیدار قرار پائے گا۔ (فتح الباري:343/2)