Sahi-Bukhari
10. Call to Prayers (Adhaan)
107. Chapter: To recite two Surah in one Rak'a and to recite the last verses of some Surah, or to elite the Surah in their reverse order, or to recite the beginning of a Surah
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: To recite two Surah in one Rak'a and to recite the last verses of some Surah, or to elite the Surah in their reverse order, or to recite the beginning of a Surah)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور سورت کے آخری حصوں کا پڑھنا اور ترتیب کے خلاف سورتیں پڑھنا یا کسی سورت کو ( جیسا کہ قرآن شریف کی ترتیب ہے ) اس سے پہلے کی سورت سے پہلے پڑھنا اور کسی سورت کے اول حصہ کا پڑھنا یہ سب درست ہے۔ اور عبداللہ بن سائب سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے صبح کی نماز میں سورہ مومنون تلاوت فرمائی، جب آپ حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارون ؑ کے ذکر پر پہنچے یا حضرت عیسیٰ ؑ کے ذکر پر تو آپ کو کھانسی آنے لگی، اس لیے رکوع فرما دیا اور حضرت عمر ؓ نے پہلی رکعت میں سورہ بقرہ کی ایک سو بیس آیتیں پڑھیں اور دوسری رکعت میں مثانی ( جس میں تقریباً سو آیتیں ہوتی ہیں ) میں سے کوئی سورت تلاوت کی اور حضرت احنف ؓ نے پہلی رکعت میں سورہ کہف اور دوسری میں سورہ یوسف یا سورہ یونس پڑھی اور کہا کہ حضرت عمر ؓ نے صبح کی نماز میں یہ دونوں سورتیں پڑھی تھیں۔ ابن مسعود ؓ نے سورہ انفال کی چالیس آتیں ( پہلی رکعت میں ) پڑھیں اور دوسری رکعت میں مفصل کی کوئی سورہ پڑھی اور قتادہ ؓ نے ایک شخص کے متعلق جو ایک سورہ دو رکعات میں تقسیم کر کے پڑھے یا ایک سورہ دو رکعتوں میں بار بار پڑھے فرمایا کہ ساری ہی کتاب اللہ میں سے ہیں۔ ( لہٰذا کوئی حرج نہیں
787.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: میں نے آج رات مفصل کی تمام سورتیں ایک ہی رکعت میں پڑھ دیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: تو نے اس قدر تیزی سے پڑھیں جیسے اشعار پڑھے جاتے ہیں۔ بےشک میں ان جوڑا جوڑا سورتوں کو جانتا ہوں جنہیں رسول اللہ ﷺ ملا کر پڑھا کرتے تھے، پھر آپ نے مفصل کی بیس سورتیں بیان کیں، یعنی ہر رکعت میں پڑھی جانے والی دو دو سورتیں۔
تشریح:
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے جن جوڑا جوڑا سورتوں کی نشاندہی کی ہے ان میں سے بعض موجودہ ترتیب مصحف سے مختلف ہیں جن کی تفصیل بایں طور بیان ہوئی ہے: ٭ سورۂ رحمٰن اور سورۂ نجم۔٭سورۂ قمر اور سورۂ حاقہ۔٭سورۂ زاریات اور سورۂ طور۔٭ سورۂ واقعہ اور سورۂ نون۔٭سورۂ معارج اور سورۂ نازعات۔٭ سورۂ مطففین اور سورۂ عبس۔٭سورۂ دھر اور سورۂ قیامہ۔٭ سورۂ مزمل اور سورۂ مدثر۔٭سورۂ نبااور سورۂ مرسلات۔٭ سورۂ تکویر اور سورۂ دخان۔ انھیں مفصل کی سورتیں اکثریت کی بنا پر کہا جاتا ہے کیونکہ سورۂ دخان مفصل میں سے نہیں۔ (فتح الباري:336/2) اس حدیث سے ایک رکعت میں دو سورتیں پڑھنے اور موجودہ ترتیب کے خلاف پڑھنے کا جواز معلوم ہوتا ہے۔ والله أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
766
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
775
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
775
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
775
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان میں نماز میں قراءت سے متعلق مختلف فروعات اور جزئیات کو جمع کردیا ہے۔یہاں چار مسائل بنیادی اور دو مسائل ضمنی طور پر بیان کیے ہیں،پھر انھیں ثابت کرتے وقت مسائل کی بیان کردہ ترتیب کو ملحوظ نہیں رکھا۔مسائل کی تفصیل یہ ہے:٭دوسورتوں کو ایک رکعت میں پڑھنا، مثلا: سورۂ الکافرون اور سورۂ اخلاص۔٭کسی سورت کی آخری آیات ایک رکعت میں تلاوت کرنا، مثلا: سورۂ جمعہ کا آخری رکوع پڑھنا۔٭ایک سورت سے قبل دوسری سورت پڑھنا،مثلا: پہلی رکعت میں سورۂ اخلاص اور دوسری میں سورۂ نصر پڑھنا۔٭ایک رکعت میں سورت کی ابتدائی آیات پڑھنا، مثلا: سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیات تلاوت کرنا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے، چوتھے مسئلے کوبیان کیا ہے کہ ایک رکعت میں کسی سورت کا ابتدئی حصہ پڑھا جائے۔صرف امام مالک رحمہ اللہ نے اسے مکروہ خیال کیا ہے۔جمہور کے نزدیک بلاکراہت ایسا کرنا جائز ہے۔(عمدۃالقاری:4/487) اس معلق روایت کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں ابن جریج کے واسطے سے موصولا بیان کیا ہے۔(صحیح مسلم،الصلاۃ،حدیث:1022(455))اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں کسی سورت کا کچھ حصہ پڑھنا جائز ہے۔اس موقع پر یہ اعتراض صحیح نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہنگامی ضرورت کے پیش نظر ایسا کیا تھا کہ آپ کو کھانسی آگئی تھی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عام حالات میں بھی ایسا کرنا ثابت ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مغرب میں سورۂ اعراف کو دوحصوں میں تقسیم کرکے پڑھا تھا۔(سنن النسائی،الصلاۃ،حدیث:992)اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے متعلق حدیث میں ہے کہ انھوں نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز صبح پڑھائی اور سورۂ بقرہ کو دونوں رکعات میں تلاوت کیا۔(فتح الباری:2/332) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے متعلق ہے کہ انھوں نے نماز میں فاتحہ کے ساتھ سورۂ بقرہ کی ایک ایک آیت ہر رکعت میں تلاوت کی ۔(فتح الباری:2/332) اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل بھی پیش کیا ہے کہ انھوں نے پہلی رکعت میں سورۂ بقرہ کی ایک سو بیس آیات تلاوت کی تھیں۔اس میں یہ وضاحت نہیں کہ یہ آیات شروع سورت سے پڑھیں یا سورت کے آخر سے تلاوت کیں،بہر حال دونوں احتمال ہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مذکورہ اثر کو مصنف ابن ابی شیبہ (2/273)میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔(فتح الباری:2/332)حضرت احنف بن قیس کے اثر کو جعفر الفریابی نے کتاب الصلاۃ میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔اس میں شک کے بجائے جزم سے بیان کیا ہے کہ دوسری رکعت میں انھوں نے سورۂ یونس تلاوت کی تھی۔(فتح الباری:2/333)اس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے تیسرے مسئلے کو ثابت کیا ہےکہ ایک سورت سے قبل دوسری سورت پڑھی جاسکتی ہے کیونکہ انھوں نے پہلی رکعت میں سورۂ کہف اور دوسری میں سورۂ یونس تلاوت کی تھی،حالانکہ ترتیبِ مصحف اس کے خلاف ہے۔اس میں سورۂ یونس پہلے اور کہف بعد میں ہے ۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اثر کو مصنف عبدالرزاق (2/103)میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔اس کے الفاظ یہ ہیں کہ انھوں نے شروع انفال سے قراءت کا آغاز کیا اور (نِعْمَ الْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ النَّصِيرُ ﴿٤٠﴾) تک چالیس آیات پہلی رکعت میں تلاوت کیں۔اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے سورۂ انفال کی شروع سے چالیس آیات پڑھیں تھیں۔(فتح الباری:2/333) حضرت قتادہ کے قول کو مصنف عبدالرزاق میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ کا استدلال مذکورہ اثر میں ان الفاظ سے ہے:" تمام قرآن اللہ کی کتاب ہے۔" آپ نے عنوان میں جن مسائل کو ذکر کیا ہے ان تمام پر دلیل یہی الفاظ ہیں۔(فتح الباری:2/333)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ زین بن المنیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ امام مالک ہر رکعت میں ایک سورت پڑھنے کے قائل تھے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہے: ہر سورت کے لیے رکوع وسجود میں حصہ مقرر ہے،یعنی ہر رکوع وسجود یا رکعت کو ایک مکمل سورت ملنی چاہیے اور ایک سورت کو دورکعتوں پر تقسیم نہ کیا جائے اور کسی سورت کے کسی حصے پر اکتفا نہ کیا جائے اور نہ کسی سورت کو پڑھ کر پھر اس سے قبل سورت کو پڑھا جائے کیونکہ یہ ترتیب مصحف کو خلاف ہے۔اگر ایسا کرے گا تو نماز فاسدنہ ہوگی مگر خلاف اولی ضرور ہے۔ پھر علامہ ابن المنیر نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جو استدلال کیے ہیں وہ امام مالک رحمہ اللہ کے خلاف نہیں کیونکہ وہ بیان جواز پر محمول ہیں۔(فتح الباری:2/333) امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز میں سورتوں کا آخری حصہ پڑھنے کی کوئی دلیل پیش نہیں کی۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ آغاز سورت سے پڑھنا آخری حصے سے پڑھنے کی دلیل بن سکتا ہے کیونکہ دونوں سورتوں میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ ابتدا اور آخر سے پڑھنا پوری سورت کا کچھ حصہ ہے۔ممکن ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل اس کی دلیل ہوکہ انھوں نے سورۂ بقرہ کی سو آیات کو پڑھا اور حضرت قتادہ کے قول سے اس کی تائید ہوتی ہوکہ سب اللہ کی کتاب ہے۔(فتح الباری:2/331)
اور سورت کے آخری حصوں کا پڑھنا اور ترتیب کے خلاف سورتیں پڑھنا یا کسی سورت کو ( جیسا کہ قرآن شریف کی ترتیب ہے ) اس سے پہلے کی سورت سے پہلے پڑھنا اور کسی سورت کے اول حصہ کا پڑھنا یہ سب درست ہے۔ اور عبداللہ بن سائب سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے صبح کی نماز میں سورہ مومنون تلاوت فرمائی، جب آپ حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارون ؑ کے ذکر پر پہنچے یا حضرت عیسیٰ ؑ کے ذکر پر تو آپ کو کھانسی آنے لگی، اس لیے رکوع فرما دیا اور حضرت عمر ؓ نے پہلی رکعت میں سورہ بقرہ کی ایک سو بیس آیتیں پڑھیں اور دوسری رکعت میں مثانی ( جس میں تقریباً سو آیتیں ہوتی ہیں ) میں سے کوئی سورت تلاوت کی اور حضرت احنف ؓ نے پہلی رکعت میں سورہ کہف اور دوسری میں سورہ یوسف یا سورہ یونس پڑھی اور کہا کہ حضرت عمر ؓ نے صبح کی نماز میں یہ دونوں سورتیں پڑھی تھیں۔ ابن مسعود ؓ نے سورہ انفال کی چالیس آتیں ( پہلی رکعت میں ) پڑھیں اور دوسری رکعت میں مفصل کی کوئی سورہ پڑھی اور قتادہ ؓ نے ایک شخص کے متعلق جو ایک سورہ دو رکعات میں تقسیم کر کے پڑھے یا ایک سورہ دو رکعتوں میں بار بار پڑھے فرمایا کہ ساری ہی کتاب اللہ میں سے ہیں۔ ( لہٰذا کوئی حرج نہیں
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: میں نے آج رات مفصل کی تمام سورتیں ایک ہی رکعت میں پڑھ دیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: تو نے اس قدر تیزی سے پڑھیں جیسے اشعار پڑھے جاتے ہیں۔ بےشک میں ان جوڑا جوڑا سورتوں کو جانتا ہوں جنہیں رسول اللہ ﷺ ملا کر پڑھا کرتے تھے، پھر آپ نے مفصل کی بیس سورتیں بیان کیں، یعنی ہر رکعت میں پڑھی جانے والی دو دو سورتیں۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے جن جوڑا جوڑا سورتوں کی نشاندہی کی ہے ان میں سے بعض موجودہ ترتیب مصحف سے مختلف ہیں جن کی تفصیل بایں طور بیان ہوئی ہے: ٭ سورۂ رحمٰن اور سورۂ نجم۔٭سورۂ قمر اور سورۂ حاقہ۔٭سورۂ زاریات اور سورۂ طور۔٭ سورۂ واقعہ اور سورۂ نون۔٭سورۂ معارج اور سورۂ نازعات۔٭ سورۂ مطففین اور سورۂ عبس۔٭سورۂ دھر اور سورۂ قیامہ۔٭ سورۂ مزمل اور سورۂ مدثر۔٭سورۂ نبااور سورۂ مرسلات۔٭ سورۂ تکویر اور سورۂ دخان۔ انھیں مفصل کی سورتیں اکثریت کی بنا پر کہا جاتا ہے کیونکہ سورۂ دخان مفصل میں سے نہیں۔ (فتح الباري:336/2) اس حدیث سے ایک رکعت میں دو سورتیں پڑھنے اور موجودہ ترتیب کے خلاف پڑھنے کا جواز معلوم ہوتا ہے۔ والله أعلم
ترجمۃ الباب:
حضرت عبداللہ بن سائب ؓ سے منقول ہے کہ نبی ﷺنے صبح کی نماز میں سورہ مومنون پڑھنا شروع کی، جب حضرت موسیٰ اور ہارون یا حضرت عیسیٰ کا ذکر آیا تو آپ کو کھانسی آ گئی، آپ اسی وقت رکوع میں چلے گئے۔ حضرت عمر ؓ نے پہلی رکعت میں سورہ بقرہ کی ایک سو بیس آیات پڑھیں اور دوسری رکعت میں مثالی کی ایک سورت تلاوت کی۔ حضرت احنف بن قیس نے پہلی رکعت میں سورہ کہف اور دوسری میں سورہ یوسف یا یونس پڑھی اور بیان کیا کہ حضرت عمر ؓ نے انہی دو سورتوں کو نماز صبح میں پڑھا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے (پہلی رکعت میں) سورہ انفال کی چالیس آیات اور دوسری رکعت میں مفصلات سے ایک سورت پڑھی۔ حضرت قتادہ نے اس شخص کے متعلق جو ایک سورت کو دو رکعتوں میں (اس کے دو حصے کر کے) یا ایک ہی سورت کو دو رکعات میں دہراتا ہے، فرمایا کہ سب کتاب اللہ ہے۔ (ہر طرح سے پڑھنا جائز ہے۔)
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابووائل شقیق بن مسلم سے سنا کہ ایک شخص عبداللہ بن مسعود ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میں نے رات ایک رکعت میں مفصل کی سورہ پڑھی۔ آپ نے فرمایا کہ کیا اسی طرح (جلدی جلدی) پڑھی جیسے شعر پڑھے جاتے ہیں۔ میں ان ہم معنی سورتوں کو جانتا ہوں جنہیں نبی کریم ﷺ ایک ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔ آپ نے مفصل کی بیس سورتوں کا ذکر کیا۔ ہر رکعت کے لیے دو دو سورتیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Wa'il (RA): A man came to Ibn Mas'ud (RA) and said, "I recited the Mufassal (Suras) at night in one Rak'a." Ibn Mas'ud (RA) said, "This recitation is (too quick) like the recitation of poetry. I know the identical Suras which the Prophet (ﷺ) used to recite in pairs." Ibn Mas'ud (RA) then mentioned 2O Mufassal Suras including two Suras from the family of (i.e. those verses which begin with) AL, HA, MIM (which the Prophet (ﷺ) used to recite) in each Rak'a.