تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ عنوان بالا کو بایں طور پر ثابت کرتے ہیں کہ جس طرح زمین کی سب سے بہترین قسم وہ ہے جو خود بھی نفع اندوز ہو اور دوسروں کو بھی نفع پہنچائے، اسی طرح وہ عالم سب سے افضل ہے جو خود بھی علم کے ثمرات سے فائدہ اٹھائے اور دوسروں کو بھی نفع اٹھانے کے مواقع فراہم کرے۔ (شرح الکرماني: 59/2)
2۔ اس حدیث میں زمین کی تین قسمیں بیان کی گئی ہیں: ایک وہ جو پانی جذب کرے اور روئیدگی لائے۔ دوسری وہ جو پانی جذب کرنے کی بجائے اسے محفوظ کرے جس سے جانور اور انسان فائدہ اٹھاتے ہیں تیسری وہ جو نہ پانی جذب کرے اور نہ اسے اپنے اندر محفوظ ہی رکھے۔ اسی طرح اہل علم کی بھی تین اقسام ہیں: بعض وہ حضرات ہیں جنھوں نے احادیث کو سنا اور ان سے مسائل کا استنباط کیا، جیسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ۔ دوسرے وہ جنھوں نے احادیث کو سننے کے بعد ان کو محفوظ کیا لیکن ان سے استنباط نہیں کیا، جیسے ناقلین حدیث۔ تیسرے وہ جنھوں نے احادیث کو نہ محفوظ کیا اور نہ اس پر عمل ہی کیا، جیسے امراء اور جہلا وغیرہ۔ اس طرح مثالیں بھی تین اور اس کے مصداق بھی تین، یعنی ان میں پوری مطابقت ہے۔
3۔ اس تشبیہ میں وجہ شبہ احیاء ہے، یعنی جس طرح عالم اسباب میں زمین کی زندگی اور موت کا تعلق پانی سے ہے کہ بارش ہوگئی تو زمین کو نئی زندگی مل گئی سرسبزی اور شادابی چھا گئی، اسی طرح جب علوم کا فیضان دلوں پر ہوتا ہے تو انھیں بھی نئی زندگی مل جاتی ہے۔ (فتح الباري: 232/1)
4۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر افادہ اور استفادہ تھا، اس لیے آخر میں پہلی دو قسموں کو یعنی جس نے پانی جذب کیا اور جس نے جذب کرنے کے بجائے اسے محفوظ کر لیا۔ ایک ہی شمار کیا گیا ہے کیونکہ یہ دونوں افادے میں برابر ہیں، اگرچہ پہلی قسم میں افادہ اور استفادہ دونوں ہیں، کیونکہ علمی بارش سے دونوں سیراب ہوتے ہیں لیکن نفع کی نوعیت مختلف ہے۔ اور تیسری قسم میں نہ افادہ ہے اور نہ استفادہ، اس لیے آخرمیں اسے مستقل طور پر بیان فرمایا اور اس سے مراد کافر اور جاہل لوگ ہیں۔