باب: (جہری نمازوں میں)امام کا بلندآواز سےآمین کہنا
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: Saying of Amin aloud by the Imam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
جہری نمازوں میں ) امام کا بلند آواز سے آمین کہنا مسنون ہے اور عطاء بن ابی رباح نے کہا کہ آمین ایک دعا ہے اور عبداللہ بن زبیر ؓاور ان لوگوں نے جو آپ کے پیچھے ( نماز پڑھ رہے ) تھے۔ اس زور سے آمین کہی کہ مسجد گونج اٹھی اور حضرت ابوہریرہ ؓ امام سے کہہ دیا کرتے تھا کہ آمین سے ہمیں محروم نہ رکھنا اور نافع نے کہا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما آمین کبھی نہیں چھوڑتے اور لوگوں کو اس کی ترغیب بھی دیا کرتے تھے۔ میں نے آپ سے اس کے متعلق ایک حدیث بھی سنی تھی۔
792.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہو گئی، اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔‘‘ ابن شہاب کا کہنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ خود بھی آمین کہا کرتے تھے۔
تشریح:
(1) امام ابن خزیمہ اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے ’’جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو‘‘ فرماتے ہیں اس فرمان نبوی سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ امام کو بآواز بلند آمین کہنی چاہیے کیونکہ رسول اللہ ﷺ امام کی آمین کے وقت آمین کہنے کا حکم اسی سورت میں دے سکتے ہیں۔ جب مقتدی کو امام کی آمین کا پتہ چل ہو۔ اگر امام بآواز بلند آمین کہنے کے بجائے آہستہ کہے تو مقتدی کو معلوم نہیں ہوسکے گا کہ امام نے آمین کہی ہے یا نہیں اور یہ محال ہے کہ کسی سے کہا جائے کہ جب فلاں آدمی یہ کہے تو تم بھی اسی طرح کہو جبکہ وہ اس کی بات نہ سن رہا ہو۔کوئی عالم بھی اس محال کا تصور نہیں کرسکتا کہ رسول اللہ ﷺ مقتدی کو آمین اس وقت کہنے کا حکم دیں۔ جب امام آمین کہے اور مقتدی امام کی آمین نہ سن رہا ہو۔ (صحیح ابن خزیمة:286/1) کئی قرائن امام ابن خزیمہ کے مذکورہ بیان کی تائید کرتے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭حضرت نعیم مجمر سے روایت ہے، وہ حضرت ابو ہریرہ ؓ کے پیچھے نماز پڑھنے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب وہ ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾) پر پہنچے تو انھوں نے آمین کہی اور لوگوں نے بھی آمین کہی، پھر انھوں نے فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے!میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کی نماز میں مشابہ ہوں۔ (سنن النسائي، الصلاة، حدیث:906)٭حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:جب رسول اللہ ﷺ سورۂ فاتحہ کی قراءت سے فارغ ہوتے تو اپنی آواز بلند کرتے ہوئے آمین کہتے۔ (صحیح ابن حبان:147/3) (2) دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی مرویات سے بھی بآواز بلند آمین کہنے کا پتہ چلتا ہے، مثلا:٭حضرت وائل بن حجر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا: آپ نے﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾) پڑھا تو آمین کہی اور اپنی آواز کو خوب کھینچا۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:248) ٭حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا: آپ نے جب ﴿وَلَا الضَّالِّينَ﴾ کہا تو آمین کہی۔ (سنن ابن ماجة، الصلاة، حدیث:854) (3) متعدد محدثین نے اس حدیث پر بآواز بلند آمین کہنے پر عنوان قائم کیے ہیں، مثلا: ٭امام بخاری ؒ جیسا کہ یہاں موجود ہے۔٭ امام نسائی ؒ نے (باب جهر الإمام بآمين) ٭امام ابن خزیمہ ؒ نے(باب الجهر بآمين) ٭امام ابن ماجہ ؒ نے (باب الجهر بآمين) کے عنوان قائم کیے ہیں۔ (4) صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ جب امام ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾) کہے تو تم آمین کہو۔ (حدیث:782) یہ حدیث بظاہر مذکورہ حدیث کے متعارض ہے کیونکہ اس میں امام کے آمین کہنے پر آمین کا حکم ہے، لیکن اس حدیث میں ﴿وَلَا الضَّالِّينَ﴾ کہنے پر ہی یہ حکم دیا گیا ہے۔ جمہور علماء نے ان احادیث میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ امام کے آمین کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ آمین کہنے کا ارداہ کرے اور اس کا آمین کہنے کا ارداہ ﴿وَلَا الضَّالِّينَ﴾ کہنے کے بعد ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک حدیث میں صراحت ہے کہ جب امام ﴿وَلَا الضَّالِّينَ﴾ کہے تم تو آمین کہو۔ بلاشبہ فرشتے بھی آمین کہتے ہیں اور امام بھی آمین کہتا ہے۔ یہ روایت ابو داود اور نسائی میں ہے اور اس میں امام کے آمین کہنے کی صراحت ہے۔ (فتح الباري:342/2) (5) بعض حضرات امام کے آمین کہنے کے قائل نہیں وہ مذکورہ حدیث کی تاویلیں کرتے ہیں، مثلا: أمن کا معنی آمین کہنا نہیں بلکہ مجازی معنی دعا کرنا ہے۔دعا کرنے والے کو آمین کہنے والا کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں حضرت ہارون ؑ کو آمین کہنے والے تھے انھیں داعی، یعنی دعا کرنے والا کہا گیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ أُجِيبَت دَّعْوَتُكُمَا﴾ (یونس89:10) ’’ تم دونوں کی دعا قبول ہوئی۔‘‘ حالانکہ دعا کرنے والے صرف موسیٰ ؑ تھے اور حضرت ہارون تو آمین کہتے تھے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب دیا ہے کہ آمیں کہنے والے کو داعی کہنے سے داعی کو آمین کہنے والا ثابت نہیں ہوتا،پھر یہ بات بھی محل نظرہے کہ صرف موسیٰ علیہ السلام دعا کرنے والے تھے حضرت ہارون علیہ السلام دعا کرنے والوں میں شامل نہیں تھے۔(فتح الباری:2/341) ٭(أمن) سے مراد آمین کہنا نہیں بلکہ آمین کے مقام پ پہنچنا ہے جیسا کہ عرب أنجدکا لفظ بول کر وہ شخص مراد لیتے ہیں جو نجد کے قریب پہنچ چکا ہو لیکن ابھی داخل نہ ہوا ہو۔ابن دقیق العید اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ معنی مجازی ہے اور مجاز پر اس وقت عمل ہوتا ہے جب حقیقی معنی متعذر یا محال ہو، ورنہ اصل یہی ہے کہ حقیقی معنی پر محمول کیا جائے۔ (فتح الباري:342/2) (6) مذکورہ حدیث میں ابن شہاب کے حوالے سے وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ خود بھی آمین کہا کرتے تھے۔علامہ کرمانى ؒ اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ إذا أمن الإمام کی تفسیر ہے اور اس میں ان لوگوں کا رد ہے جو اس سے مراد ﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾) کے الفاظ سے دعا کرنا کہتے ہیں۔ (شرح الکرماني:145/5) اس معنی کی تائید سنن نسائی کی روایت سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب امام ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾) کہے تو تم آمین کہو، کیونکہ فرشتے بھی اس وقت آمین کہتے ہیں اور امام بھی آمین کہتا ہے،جس شخص کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہوگئی اس کے گزشتہ گناہ معاف ہوجائیں گے۔‘‘ (سنن النسائي، الصلاة، حدیث:927) گویا راوئ حدیث حضرت ابن شہاب کو اندیشہ تھا کہ لوگ إذا أمن الإمام کی غلط تاویل کریں گے، اس لیے انھوں نے واضح کردیا کہ اس سے مراد حقیقی معنی، یعنی آمین کہنا ہی ہے۔ (7) علامہ ابن منیر ؒ فرماتے ہیں: ایک ساتھ آمین کہنے کی ترغیب میں یہ حکمت ہے کہ اس سے مقتدی چوکس اور بیدار رہیں گے تاکہ بروقت کام ادا کریں اور کسی صورت میں غفلت کا شکار نہ ہوں جس طرح فرشتے غفلت سے کام نہیں لیتے۔ اور جو فرشتوں کی موافقت کرے گا وہ ہوشیار اور بیدار قرار پائے گا۔ (فتح الباري:343/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
771
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
780
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
780
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
780
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
آمین اسمائے افعال میں سے ہے جس کے معنی ہیں:اے اللہ! ہماری دعا قبول فرما۔امام بخاری رحمہ اللہ اس عنوان میں امام کےلیے جہری نمازوں میں بآواز بلند آمین کہنی ثابت کرنا چاہتے ہیں،اس سلسلے میں انھوں نے مذکورہ آثار پیش کیے ہیں۔پہلے تین آثار بایں الفاظ مصنف عبدالرزاق میں بیان ہوئے ہیں:ابن جریج نے حضرت عطاء سے سوال کیا:آیا حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سورۂ فاتحہ پڑھنے کے بعد آمین کہا کرتے تھے؟انھوں نے فرمایا: ہاں اور آپ مقتدی بھی آمین کہا کرتے تھے حتی کہ مسجد میں گونج پیدا ہوجاتی۔پھر فرمایا کہ آمین تو ایک دعا ہے۔مزید فرمایا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جب مسجد میں داخل ہوتے اور امام جماعت کےلیے کھڑا ہوچکا ہوتا تو اسے آواز دے کر فرماتے:مجھے آمین سے محروم نہ کرنا۔(المصنف لعبدالرزاق:2/97،96)دراصل حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ امام کے ساتھ آمین کہنا چاہتے تھے اور یہ تبھی ممکن ہے کہ امام بآواز بلند آمین کہے۔اس سے مذکورہ اثر کی عنوان سے مطابقت ثابت ہوتی ہے۔بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ صفوں کو سیدھا کرنے میں مصروف ہوتے کہ امام جلدی سے جماعت شروع کردیتا،ایسے حالات میں امام سے کہتے کہ میرے صف میں داخل ہونے سے پہلے وَلَا الضَّالِّينَ نہ کہا کرو۔(فتح الباری:2/340) حضرت نافع سے مروی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا اثر بھی مصنف عبدالرزاق (2/96)میں متصل سند سے بیان ہوا ہے۔اس کی عنوان سے مطابقت واضح ہے کہ آپ ہمیشہ سورۂ فاتحہ کے بعد آمین کہا کرتے تھے، خواہ آپ امام ہوتے یا مقتدی۔حضرت عطاء کا قول ان لوگوں کی تردید کےلیے پیش کیا ہے جن کا موقف ہے کہ آمین تو جواب دعا ہے،لہٰذاامام کو آمین نہیں کہنا چاہیے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لفظ آمین تفصیل کے بعد تلخیص کے قائم مقام ہے ۔دعا کرنے والا (اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾) سے آخر سورت تک تفصیل سے دعا کرتا ہے۔اس کے بعد آمین کہتا ہے جو کہ پوری دعا کو شامل ہے گویا وہ دو مرتبہ دعا مانگتا ہے۔ایک مرتبہ تفصیل سے اور ایک مرتبہ اختصار کے ساتھ اپنی معروضات پیش کرتا ہے۔(فتح الباری:2/341)مزید یہ کہ امام دعا کرنے میں منفرد نہیں بلکہ مقتدی بھی دعا کرنے میں اس کے ساتھ شریک ہیں کیونکہ ان کے لیے بھی سورۂ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔جس طرح مقتدی حضرات دعا کرتے ہیں اور آمین بھی کہتے ہیں اسی طرح امام کے لیے بھی دونوں چیزوں کو اکٹھا کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں۔
جہری نمازوں میں ) امام کا بلند آواز سے آمین کہنا مسنون ہے اور عطاء بن ابی رباح نے کہا کہ آمین ایک دعا ہے اور عبداللہ بن زبیر ؓاور ان لوگوں نے جو آپ کے پیچھے ( نماز پڑھ رہے ) تھے۔ اس زور سے آمین کہی کہ مسجد گونج اٹھی اور حضرت ابوہریرہ ؓ امام سے کہہ دیا کرتے تھا کہ آمین سے ہمیں محروم نہ رکھنا اور نافع نے کہا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما آمین کبھی نہیں چھوڑتے اور لوگوں کو اس کی ترغیب بھی دیا کرتے تھے۔ میں نے آپ سے اس کے متعلق ایک حدیث بھی سنی تھی۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہو گئی، اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔‘‘ ابن شہاب کا کہنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ خود بھی آمین کہا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام ابن خزیمہ اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے ’’جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو‘‘ فرماتے ہیں اس فرمان نبوی سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ امام کو بآواز بلند آمین کہنی چاہیے کیونکہ رسول اللہ ﷺ امام کی آمین کے وقت آمین کہنے کا حکم اسی سورت میں دے سکتے ہیں۔ جب مقتدی کو امام کی آمین کا پتہ چل ہو۔ اگر امام بآواز بلند آمین کہنے کے بجائے آہستہ کہے تو مقتدی کو معلوم نہیں ہوسکے گا کہ امام نے آمین کہی ہے یا نہیں اور یہ محال ہے کہ کسی سے کہا جائے کہ جب فلاں آدمی یہ کہے تو تم بھی اسی طرح کہو جبکہ وہ اس کی بات نہ سن رہا ہو۔کوئی عالم بھی اس محال کا تصور نہیں کرسکتا کہ رسول اللہ ﷺ مقتدی کو آمین اس وقت کہنے کا حکم دیں۔ جب امام آمین کہے اور مقتدی امام کی آمین نہ سن رہا ہو۔ (صحیح ابن خزیمة:286/1) کئی قرائن امام ابن خزیمہ کے مذکورہ بیان کی تائید کرتے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭حضرت نعیم مجمر سے روایت ہے، وہ حضرت ابو ہریرہ ؓ کے پیچھے نماز پڑھنے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب وہ ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾) پر پہنچے تو انھوں نے آمین کہی اور لوگوں نے بھی آمین کہی، پھر انھوں نے فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے!میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کی نماز میں مشابہ ہوں۔ (سنن النسائي، الصلاة، حدیث:906)٭حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:جب رسول اللہ ﷺ سورۂ فاتحہ کی قراءت سے فارغ ہوتے تو اپنی آواز بلند کرتے ہوئے آمین کہتے۔ (صحیح ابن حبان:147/3) (2) دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی مرویات سے بھی بآواز بلند آمین کہنے کا پتہ چلتا ہے، مثلا:٭حضرت وائل بن حجر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا: آپ نے﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾) پڑھا تو آمین کہی اور اپنی آواز کو خوب کھینچا۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:248) ٭حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا: آپ نے جب ﴿وَلَا الضَّالِّينَ﴾ کہا تو آمین کہی۔ (سنن ابن ماجة، الصلاة، حدیث:854) (3) متعدد محدثین نے اس حدیث پر بآواز بلند آمین کہنے پر عنوان قائم کیے ہیں، مثلا: ٭امام بخاری ؒ جیسا کہ یہاں موجود ہے۔٭ امام نسائی ؒ نے (باب جهر الإمام بآمين) ٭امام ابن خزیمہ ؒ نے(باب الجهر بآمين) ٭امام ابن ماجہ ؒ نے (باب الجهر بآمين) کے عنوان قائم کیے ہیں۔ (4) صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ جب امام ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾) کہے تو تم آمین کہو۔ (حدیث:782) یہ حدیث بظاہر مذکورہ حدیث کے متعارض ہے کیونکہ اس میں امام کے آمین کہنے پر آمین کا حکم ہے، لیکن اس حدیث میں ﴿وَلَا الضَّالِّينَ﴾ کہنے پر ہی یہ حکم دیا گیا ہے۔ جمہور علماء نے ان احادیث میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ امام کے آمین کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ آمین کہنے کا ارداہ کرے اور اس کا آمین کہنے کا ارداہ ﴿وَلَا الضَّالِّينَ﴾ کہنے کے بعد ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک حدیث میں صراحت ہے کہ جب امام ﴿وَلَا الضَّالِّينَ﴾ کہے تم تو آمین کہو۔ بلاشبہ فرشتے بھی آمین کہتے ہیں اور امام بھی آمین کہتا ہے۔ یہ روایت ابو داود اور نسائی میں ہے اور اس میں امام کے آمین کہنے کی صراحت ہے۔ (فتح الباري:342/2) (5) بعض حضرات امام کے آمین کہنے کے قائل نہیں وہ مذکورہ حدیث کی تاویلیں کرتے ہیں، مثلا: أمن کا معنی آمین کہنا نہیں بلکہ مجازی معنی دعا کرنا ہے۔دعا کرنے والے کو آمین کہنے والا کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں حضرت ہارون ؑ کو آمین کہنے والے تھے انھیں داعی، یعنی دعا کرنے والا کہا گیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ أُجِيبَت دَّعْوَتُكُمَا﴾ (یونس89:10) ’’ تم دونوں کی دعا قبول ہوئی۔‘‘ حالانکہ دعا کرنے والے صرف موسیٰ ؑ تھے اور حضرت ہارون تو آمین کہتے تھے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب دیا ہے کہ آمیں کہنے والے کو داعی کہنے سے داعی کو آمین کہنے والا ثابت نہیں ہوتا،پھر یہ بات بھی محل نظرہے کہ صرف موسیٰ علیہ السلام دعا کرنے والے تھے حضرت ہارون علیہ السلام دعا کرنے والوں میں شامل نہیں تھے۔(فتح الباری:2/341) ٭(أمن) سے مراد آمین کہنا نہیں بلکہ آمین کے مقام پ پہنچنا ہے جیسا کہ عرب أنجدکا لفظ بول کر وہ شخص مراد لیتے ہیں جو نجد کے قریب پہنچ چکا ہو لیکن ابھی داخل نہ ہوا ہو۔ابن دقیق العید اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ معنی مجازی ہے اور مجاز پر اس وقت عمل ہوتا ہے جب حقیقی معنی متعذر یا محال ہو، ورنہ اصل یہی ہے کہ حقیقی معنی پر محمول کیا جائے۔ (فتح الباري:342/2) (6) مذکورہ حدیث میں ابن شہاب کے حوالے سے وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ خود بھی آمین کہا کرتے تھے۔علامہ کرمانى ؒ اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ إذا أمن الإمام کی تفسیر ہے اور اس میں ان لوگوں کا رد ہے جو اس سے مراد ﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾) کے الفاظ سے دعا کرنا کہتے ہیں۔ (شرح الکرماني:145/5) اس معنی کی تائید سنن نسائی کی روایت سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب امام ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾) کہے تو تم آمین کہو، کیونکہ فرشتے بھی اس وقت آمین کہتے ہیں اور امام بھی آمین کہتا ہے،جس شخص کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہوگئی اس کے گزشتہ گناہ معاف ہوجائیں گے۔‘‘ (سنن النسائي، الصلاة، حدیث:927) گویا راوئ حدیث حضرت ابن شہاب کو اندیشہ تھا کہ لوگ إذا أمن الإمام کی غلط تاویل کریں گے، اس لیے انھوں نے واضح کردیا کہ اس سے مراد حقیقی معنی، یعنی آمین کہنا ہی ہے۔ (7) علامہ ابن منیر ؒ فرماتے ہیں: ایک ساتھ آمین کہنے کی ترغیب میں یہ حکمت ہے کہ اس سے مقتدی چوکس اور بیدار رہیں گے تاکہ بروقت کام ادا کریں اور کسی صورت میں غفلت کا شکار نہ ہوں جس طرح فرشتے غفلت سے کام نہیں لیتے۔ اور جو فرشتوں کی موافقت کرے گا وہ ہوشیار اور بیدار قرار پائے گا۔ (فتح الباري:343/2)
ترجمۃ الباب:
حضرت عطاء بیان کرتے ہیں کہ آمین ایک دعا ہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ اور ان کے مقتدیوں نے اتنی زور سے آمین کہی کہ مسجد گونج اٹھی۔ حضرت ابوہریرہ ؓ اپنے امام کو کہا کرتے تھے کہ مجھے آمین سے محروم نہ کرنا۔ حضرت نافع کا کہنا ہے کہ عبداللہ بن عمر ؓ آمین کہنے کو کسی صورت میں نہیں چھوڑتے تھے بلکہ دوسروں کو بھی اس کے متعلق ترغیب دیا کرتے تھے اور میں نے آمین کے متعلق ان سے اچھے کلمات سنے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے سعید بن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمن کے واسطے سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔ کیوں کہ جس کی آمین ملائکہ کے آمین کے ساتھ ہو گئی اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ آمین کہتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Say Amin" when the Imam says it and if the Amin of any one of you coincides with that of the angels then all his past sins will be forgiven." Ibn Shihab (RA) said, "Allah's Apostle (ﷺ) used to Say "Amin."