تشریح:
(1) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ لکھتے ہیں کہ امام شافعی ؒ کے نزدیک اعتدالِ ارکان کی تین اقسام ہیں: ٭ قیام اور تشہد میں ٹھہرنا۔ یہ مناسب حد تک طویل ہونا چاہیے کہ نمازی کو دیکھ کر کہا جا سکے کہ وہ کسی خاص چیز میں مصروف ہے۔ ٭ رکوع و سجود میں ٹھہرنا۔ یہ پہلی قسم سے کم ہونا چاہیے، البتہ حالت انتقال سے زیادہ توقف معلوم ہو۔ ٭ قومہ اور دو سجدوں کے درمیان ٹھہرنا۔ یہ ہلکا ہونا چاہیے ایسا معلوم ہو کہ حالت انتقال میں ہے۔
(2) شاہ صاحب کی مذکورہ تفصیل احادیث میں ذکر کردہ تفصیل کے خلاف ہے۔ قومہ اور دو سجدوں کے درمیان ٹھہرنے کے متعلق حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو قیام فرماتے، اتنی دیر کھڑے رہتے کہ کہنے والا کہتا کہ شاید آپ بھول گئے ہیں۔ اور دونوں سجدوں کے درمیان اتنی دیر بیٹھتے کہ کہنے والا کہتا کہ شاید آپ بھول گئے ہیں۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:821) اسی طرح رکوع و سجود کی طوالت کا ذکر بھی احادیث میں آیا ہے، البتہ قیام میں تنوع ہوتا تھا۔ بعض اوقات دوران سفر میں آپ نے صبح کی نماز میں معوذتین بھی پڑھی ہیں۔ اور بعض اوقات طویل قراءت شروع فرمائی لیکن کسی بچے کے روزے کی آواز سنائی دی تو رکوع کر دیا۔ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا قیام و قعود اور مذکورہ چاروں چیزیں برابر ہوتی تھیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ رواۃ حدیث کا تصرف ہے کیونکہ تسویہ صرف چار ہی میں ہے۔ واللہ أعلم۔
(3) اس مقام پر ایک اعتراض ہے کہ مذکورہ روایت سے عنوان ثابت نہیں ہوتا کیونکہ عنوان اتمام رکوع کی حد بیان کرنا ہے جبکہ حدیث میں ایک دوسرے کی مساوات کا ذکر ہے، اس مساوات سے اعتدال ثابت نہیں ہوتا؟ اس کا جواب علامہ سندھی نے یہ دیا ہے کہ بعض امور کا حکم خارج سے معلوم ہوتا ہے۔ اس مقام پر بھی اعتدال کی مقدار خارج سے معلوم ہو گی کیونکہ دیگر روایات میں رکوع اور سجود کی تسبیحات کا ذکر ہے جن سے اعتدال کی مقدار کا پتہ چلتا ہے، پھر ان امور کا ایک دوسرے کے مساوی ہونا بھی ایک حد ہے۔
(4) حافظ ابن حجر ؒ عنوان سے حدیث کی مطابقت ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ اس حدیث سے رکوع، سجدہ، قومہ اور دو سجدوں کے درمیان بیٹھنے کی مساوات ثابت ہوتی ہے اور صحیح مسلم کی کچھ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قومہ طویل ہوتا تھا تو اس سے تمام ارکان کا طویل ہونا ثابت ہو گیا کیونکہ ان میں مساوات کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ (فتح الباري:357/2)