Sahi-Bukhari
10. Call to Prayers (Adhaan)
115. Chapter: If someone bowed behind the rows, [on entering the mosque and before joining the rows of Salat (prayer)]
باب: جب صف تک پہنچنے سے پہلے ہی کسی نے رکوع کر لیا (تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟)۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: If someone bowed behind the rows, [on entering the mosque and before joining the rows of Salat (prayer)])
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
795.
حضرت ابوبکرہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی ﷺ کے قریب اس وقت پہنچے جب آپ رکوع میں تھے۔ صف میں شمولیت سے پہلے ہی انہوں نے رکوع کر لیا۔ پھر جب نبی ﷺ سے یہ ماجرا بیان کیا تو آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ تمہارے شوق کو مزید ترقی دے آئندہ ایسا مت کرنا۔‘‘
تشریح:
(1) شمولیت صف سے پہلے رکوع کرنے والے کے متعلق امام بخاری ؒ نے جزم کے ساتھ کوئی حکم نہیں لگایا کہ اس کی یہ رکعت درست ہوگی یا نہیں؟ کیونکہ اس کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے۔ جن فقہاء کے نزدیک یہ رکعت صحیح ہے ان کا موقف ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تیز دوڑنے اور قبل از شمولیتِ صف رکوع کرنے سے ضرور منع فرمایا ہے لیکن ایسا کرنا حرام نہیں، اگر نہی تحریمی ہوتی تو آپ ابو بکرہ ؓ کو مذکورہ رکعت دوبارہ پڑھنے کا حکم دیتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ معلوم ہوا کہ ان کی وہ رکعت درست تھی۔ اور جن حضرات کے نزدیک ایسی رکعت صحیح نہیں ان کا موقف ہے کہ پہلے ایسا کرنا جائز تھا اور رکعت بھی درست تھی لیکن اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے لا تَعُد کے الفاظ سے نہی فرمادی، اس لیے وہ کام کرنا جس سے آپ نے منع کر دیا ہے کسی صورت میں درست نہیں۔ صحابئ مذکورہ کا فعل چونکہ نہی سے پہلے سرزد ہوچکا تھا، اس لیے آپ نے اسے اعادے کا حکم نہیں دیا۔ یہ آخری موقف زیادہ راجح اور احوط معلوم ہوتا ہے اور امام بخاری کا میلان بھی اسی طرف ہے کیونکہ امام بخاری کے نزدیک جس رکعت میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ رکعت درست نہیں۔ حالت مذکورہ میں ادا کی گئی رکعت بھی سورۂ فاتحہ کے بغیر ہے، لہٰذا وہ بھی درست نہ ہوگی، اس کے علاوہ مندرجہ ذیل حدیث سے بھی اس موقف کی تائید ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ صف کے پیچھے کھڑا پڑھ رہا تھا، آپ نے اسے دوبارہ پڑھنے کا حکم دیا۔ امام بخاری اور ابن خزیمہ ؒ نے اس روایت کو درست قرار دیا ہے اور صحیح ابن خزیمہ میں مندرجہ ذیل الفاظ کا اضافہ ہے: صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنے والے کی کوئی نماز نہیں ہوتی۔ (فتح الباري:347/2) ان روایات میں صف کے پیچھے منفرد کی نماز کو غیر درست قرار دیا گیا ہے، لہٰذا قبل از شمولیت صف رکوع کرنے والے نے رکعت کا جو حصہ صف کے پیچھے اکیلے ادا کیا وہ درست نہ ہوگا جس سے رکعت ادھوری رہ جائے گی، اس بنا پر غیر درست قرار پائے گا۔ والله أعلم۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دیر سے جماعت میں شامل ہونے والے کو چاہیے کہ وہ جس حالت میں امام کوپائے اسی حالت کو اختیار کرکے امام کے ساتھ شامل ہو جائے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:’’نماز کے لیے آرام اور سکون کے ساتھ آؤ،جتنا حصہ مل جائے پڑھ لو اور جو رہ جائے وہ بعد میں پورا کرلو۔‘‘(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:572) (3) امام بخاری ؒ نے اپنے رسالے ''جزء القراءة'' میں اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو کی ہے کہ صرف رکوع پالینے سے رکعت نہیں ہوتی کیونکہ ایسا کرنے سے وہ رکن فوت ہوجاتے ہیں، یعنی قیام اور فاتحہ، یہ دونوں کتاب وسنت کے مطابق فرض ہیں۔ اس موقف پر مندرجہ ذیل احادیث کی روشنی میں اعتراض کیا گیا ہے:٭حضرت ابوبکرہ ؓ کی روایت کے آخر میں لا تَعُد کے الفاظ ہیں۔ ان سے استدلال کیا جاتا ہے کہ تو اپنی نماز کو نہ لوٹا، کیونکہ اس نے امام کے ساتھ رکوع پالیا تھا۔٭حدیث میں ہے کہ جس نے رکوع پالیا اس نے نماز کو پالیا۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مدرک رکوع، مدرک رکعت ہے۔ ٭جب تم نماز کے لیے آؤ اور ہم بحالت سجدہ میں ہوں تو تم بھی سجدہ کرو اور اسے کچھ بھی شمار نہ کرو اور جس نے رکعت کو پا لیا اس نے نماز کو پا لیا۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:89/2) اس روایت میں رکعت سے مراد رکوع ہے۔٭جب تم نماز کو آؤ اور امام رکوع کررہا ہوتو تم بھی رکوع کرو اور اگر سجدے کی حالت میں ہوتو تم بھی سجدہ کرو۔ اور تم سجدے کو شمار نہ کرنہ کرو جب اس کے ساتھ رکوع نہ ہو۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:89/2) ٭جس نے امام کو اپنی کمر سیدھا کرنے سے پہلے رکوع کی حالت میں پالیا اس نے نماز کو پا لیا۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:89/2) ان روایات کا تقاضا ہے کہ رکوع پا لینے سے رکعت ہوجاتی ہے۔٭عمل صحابہ بھی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ امام کے ساتھ رکوع پالینا رکعت کوپا لینا ہے، مثلاً: حضرت عبداللہ بن مسعود۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:90/2) حضرت عبداللہ بن عمر۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:90/2) حضرت زید بن ثابت۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:90/2) حضرت ابو بکر صدیق ؓ (السنن الکبرٰی للبیھقي:90/2) اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم۔ (إرواءالغلیل:264/2) یہ تمام آثار اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ رکوع پالینے والے سے قراءت فاتحہ ساقط ہوجائے گی اور اس کی رکعت بھی صحیح ہوگی۔ جیسا کہ علامہ البانی ؒ نے لکھا ہے ۔ (ارواءالغلیل:264/2) ان روایات وآثار کا جواب حسب ذیل ہے:٭حضرت ابوبکرہ کی روایت سے مدرک رکوع کی رکعت کا ہونا اور نہ ہونا دونوں ہی ثابت نہیں ہوتے۔ روایت کے اعتبار سے اس حدیث کے جو الفاظ ثابت ہیں وہ لَا تَعُد ہی ہیں جن کے معنی ہیں کہ دوبارہ ایسا نہ کرنا جس کی وضاحت ہم پہلے کر چکے ہیں اور جو الفاظ اعتراض میں بیان ہوتے ہیں کہ اعادہ نہ کر، نماز نہ لوٹا، تو روایت کے اعتبار سے یہ الفاظ ثابت نہیں، اس بنا پر جس حدیث میں ہے کہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی وہ محکم ہے اور مذکورہ ابوبکرہ کی روایت سے متعارض نہیں، کیونکہ محکم اور محتمل میں تعارض نہیں ہوتا، اس لیے رکوع میں شامل ہونے والے کی رکعت کو کیونکر شمار کیا جائے۔٭جس نے رکوع پا لیا، اس نے نماز کو پا لیا، اس مفہوم پر مشتمل جتنی بھی روایات ہیں وہ محل نظر ہیں کیونکہ محدثین کے قائم کردہ معیار صحت پر پوری نہیں اترتیں۔ علامہ البانی نے ایک روایت بایں الفاظ نقل فرمائی ہے کہ جس نے رکوع پا لیا اس نے رکعت کو پا لیا۔ (ارواءالغلیل:2/260) لیکن یہ الفاظ بالکل بے اصل ہیں جیسا کہ علامہ البانی نے خود وضاحت کردی ہے۔٭اس تیسری روایت میں ہے کہ جس نے رکعت کو پا لیا اس نے نماز کو پا لیا۔ یہ روایت بھی ضعیف ہے۔ جیسا کہ خود امام بیہقی ؒ نے اس کی طرف اشارہ فرمایا ہےکیونکہ اس کی سند میں یحییٰ بن ابی سلیمان المدینی راوی"منکر الحدیث" ہے۔ جیسا کہ امام بخاری ؒ نے اس کے متعلق تبصرہ کیا ہے۔ (ارواءالغلیل:262/2) اس کے علاوہ اس میں رکعت سے مراد رکوع نہیں کیونکہ رکعت بمعنی رکوع مجاز ہے اور مجازی معنی اس وقت معتبر ہوتا ہے۔ جب حقیقی معنی دشوار اور مشکل ہو۔ پھر اس روایت کے راوی حضرت ابو ہریرہ ؓ ہیں، خود ان کا فتویٰ یہ ہے کہ مدرک رکوع مدرک رکعت نہیں، کیونکہ وہ فرماتے ہیں کہ تیری رکعت اس وقت تک جائز نہیں ہوگی جب تک تو امام کو حالت قیام میں نہ پا لے۔ (جزءالقراءة، حدیث:131)٭چوتھی روایت میں بھی لفظ ’’رجل“آیا ہے اور یہ آدمی مجہول ہے۔ ابھی تک اس کا صحابی ہونا ثابت نہیں ہوسکا۔اگر وہ تابعی ہے تو اس کے حالات کا علم نہیں۔ اگر صحیح بھی مان لیا جائے تو زیادہ سے زیادہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سجدہ کے قابل اعتبار ہونے کے لیے رکوع ضروری ہے، اس کے بغیر سجود کی کوئی حیثیت نہیں۔ ٭پانچویں روایت کے معنی یہ نہیں کہ جس نے امام کو اپنی کمر سیدھی کرنے سے پہلے رکوع کی حالت میں پا لیا، اس نے نماز کو پا لیا کیونکہ روایت کے الفاظ میں رکعت ہے رکوع نہیں، پھر کمر سیدھا کرنے کے الفاظ بھی روایت کا حصہ نہیں بلکہ مدرج ہیں۔ شاید یہ امام زہری کے الفاظ ہیں جنھیں یحییٰ بن حمید نے حدیث کا حصہ بنایا ہے اور اس کی وضاحت نہیں کی۔ (ارواءالغلیل:2/262) امام بیہقی نے بھی اس کی وضاحت کی ہے۔ ٭جن روایات سے صحابۂ کرام کے عمل کو پیش کیا گیا ہے وہ ان کا عمل ہونے کی حیثیت سے شریعت کو ثابت نہیں کرتا اور خاص طور پر اس وقت جب ان کا عمل رسول اللہ ﷺ کی حدیث سے معارض ہو۔ اجتہاد کی بنا پر ایسا ہونا ممکن ہے۔ ہمارے لیے سب سے پہلے رسول اکرم ﷺ کے حکم پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اور اس مقام پر معارضت موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔‘‘ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے قیام کو طویل کردیتے تھے تاکہ وہ رکعت پا لیں لیکن آپ نے کبھی رکوع کو طویل نہیں کیا تاکہ وہ اس میں شامل ہوکر اسے رکعت شمار کرلیں۔ والله أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
774
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
783
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
783
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
783
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
مناسب تھا کہ یہ عنوان" ابواب امامت"کے ساتھ لایا جاتا جہاں عورت کو مردوں کی صفوں کے پیچھے الگ تنہا کھڑے ہونے کا حکم مستقل باب قائم کرکے بیان کیا تھا۔(فتح الباری:2/346)چونکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کسی کتاب کے ذیلی عنوانات میں باہم مناسبت نامہ کی رعایت نہیں کی،اس لیے ہر عنوان کو سابق عنوان سے یک گونہ مناسبت کافی ہے۔یہاں بھی قراءت فاتحہ کے بعد آمین کا باب لائے،اس کے بعد رکوع کو لے آئے،اتنی مناسبت کافی ہے۔(عمدۃالقاری:4/505)
حضرت ابوبکرہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی ﷺ کے قریب اس وقت پہنچے جب آپ رکوع میں تھے۔ صف میں شمولیت سے پہلے ہی انہوں نے رکوع کر لیا۔ پھر جب نبی ﷺ سے یہ ماجرا بیان کیا تو آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ تمہارے شوق کو مزید ترقی دے آئندہ ایسا مت کرنا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) شمولیت صف سے پہلے رکوع کرنے والے کے متعلق امام بخاری ؒ نے جزم کے ساتھ کوئی حکم نہیں لگایا کہ اس کی یہ رکعت درست ہوگی یا نہیں؟ کیونکہ اس کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے۔ جن فقہاء کے نزدیک یہ رکعت صحیح ہے ان کا موقف ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تیز دوڑنے اور قبل از شمولیتِ صف رکوع کرنے سے ضرور منع فرمایا ہے لیکن ایسا کرنا حرام نہیں، اگر نہی تحریمی ہوتی تو آپ ابو بکرہ ؓ کو مذکورہ رکعت دوبارہ پڑھنے کا حکم دیتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ معلوم ہوا کہ ان کی وہ رکعت درست تھی۔ اور جن حضرات کے نزدیک ایسی رکعت صحیح نہیں ان کا موقف ہے کہ پہلے ایسا کرنا جائز تھا اور رکعت بھی درست تھی لیکن اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے لا تَعُد کے الفاظ سے نہی فرمادی، اس لیے وہ کام کرنا جس سے آپ نے منع کر دیا ہے کسی صورت میں درست نہیں۔ صحابئ مذکورہ کا فعل چونکہ نہی سے پہلے سرزد ہوچکا تھا، اس لیے آپ نے اسے اعادے کا حکم نہیں دیا۔ یہ آخری موقف زیادہ راجح اور احوط معلوم ہوتا ہے اور امام بخاری کا میلان بھی اسی طرف ہے کیونکہ امام بخاری کے نزدیک جس رکعت میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ رکعت درست نہیں۔ حالت مذکورہ میں ادا کی گئی رکعت بھی سورۂ فاتحہ کے بغیر ہے، لہٰذا وہ بھی درست نہ ہوگی، اس کے علاوہ مندرجہ ذیل حدیث سے بھی اس موقف کی تائید ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ صف کے پیچھے کھڑا پڑھ رہا تھا، آپ نے اسے دوبارہ پڑھنے کا حکم دیا۔ امام بخاری اور ابن خزیمہ ؒ نے اس روایت کو درست قرار دیا ہے اور صحیح ابن خزیمہ میں مندرجہ ذیل الفاظ کا اضافہ ہے: صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنے والے کی کوئی نماز نہیں ہوتی۔ (فتح الباري:347/2) ان روایات میں صف کے پیچھے منفرد کی نماز کو غیر درست قرار دیا گیا ہے، لہٰذا قبل از شمولیت صف رکوع کرنے والے نے رکعت کا جو حصہ صف کے پیچھے اکیلے ادا کیا وہ درست نہ ہوگا جس سے رکعت ادھوری رہ جائے گی، اس بنا پر غیر درست قرار پائے گا۔ والله أعلم۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دیر سے جماعت میں شامل ہونے والے کو چاہیے کہ وہ جس حالت میں امام کوپائے اسی حالت کو اختیار کرکے امام کے ساتھ شامل ہو جائے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:’’نماز کے لیے آرام اور سکون کے ساتھ آؤ،جتنا حصہ مل جائے پڑھ لو اور جو رہ جائے وہ بعد میں پورا کرلو۔‘‘(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:572) (3) امام بخاری ؒ نے اپنے رسالے ''جزء القراءة'' میں اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو کی ہے کہ صرف رکوع پالینے سے رکعت نہیں ہوتی کیونکہ ایسا کرنے سے وہ رکن فوت ہوجاتے ہیں، یعنی قیام اور فاتحہ، یہ دونوں کتاب وسنت کے مطابق فرض ہیں۔ اس موقف پر مندرجہ ذیل احادیث کی روشنی میں اعتراض کیا گیا ہے:٭حضرت ابوبکرہ ؓ کی روایت کے آخر میں لا تَعُد کے الفاظ ہیں۔ ان سے استدلال کیا جاتا ہے کہ تو اپنی نماز کو نہ لوٹا، کیونکہ اس نے امام کے ساتھ رکوع پالیا تھا۔٭حدیث میں ہے کہ جس نے رکوع پالیا اس نے نماز کو پالیا۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مدرک رکوع، مدرک رکعت ہے۔ ٭جب تم نماز کے لیے آؤ اور ہم بحالت سجدہ میں ہوں تو تم بھی سجدہ کرو اور اسے کچھ بھی شمار نہ کرو اور جس نے رکعت کو پا لیا اس نے نماز کو پا لیا۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:89/2) اس روایت میں رکعت سے مراد رکوع ہے۔٭جب تم نماز کو آؤ اور امام رکوع کررہا ہوتو تم بھی رکوع کرو اور اگر سجدے کی حالت میں ہوتو تم بھی سجدہ کرو۔ اور تم سجدے کو شمار نہ کرنہ کرو جب اس کے ساتھ رکوع نہ ہو۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:89/2) ٭جس نے امام کو اپنی کمر سیدھا کرنے سے پہلے رکوع کی حالت میں پالیا اس نے نماز کو پا لیا۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:89/2) ان روایات کا تقاضا ہے کہ رکوع پا لینے سے رکعت ہوجاتی ہے۔٭عمل صحابہ بھی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ امام کے ساتھ رکوع پالینا رکعت کوپا لینا ہے، مثلاً: حضرت عبداللہ بن مسعود۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:90/2) حضرت عبداللہ بن عمر۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:90/2) حضرت زید بن ثابت۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:90/2) حضرت ابو بکر صدیق ؓ (السنن الکبرٰی للبیھقي:90/2) اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم۔ (إرواءالغلیل:264/2) یہ تمام آثار اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ رکوع پالینے والے سے قراءت فاتحہ ساقط ہوجائے گی اور اس کی رکعت بھی صحیح ہوگی۔ جیسا کہ علامہ البانی ؒ نے لکھا ہے ۔ (ارواءالغلیل:264/2) ان روایات وآثار کا جواب حسب ذیل ہے:٭حضرت ابوبکرہ کی روایت سے مدرک رکوع کی رکعت کا ہونا اور نہ ہونا دونوں ہی ثابت نہیں ہوتے۔ روایت کے اعتبار سے اس حدیث کے جو الفاظ ثابت ہیں وہ لَا تَعُد ہی ہیں جن کے معنی ہیں کہ دوبارہ ایسا نہ کرنا جس کی وضاحت ہم پہلے کر چکے ہیں اور جو الفاظ اعتراض میں بیان ہوتے ہیں کہ اعادہ نہ کر، نماز نہ لوٹا، تو روایت کے اعتبار سے یہ الفاظ ثابت نہیں، اس بنا پر جس حدیث میں ہے کہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی وہ محکم ہے اور مذکورہ ابوبکرہ کی روایت سے متعارض نہیں، کیونکہ محکم اور محتمل میں تعارض نہیں ہوتا، اس لیے رکوع میں شامل ہونے والے کی رکعت کو کیونکر شمار کیا جائے۔٭جس نے رکوع پا لیا، اس نے نماز کو پا لیا، اس مفہوم پر مشتمل جتنی بھی روایات ہیں وہ محل نظر ہیں کیونکہ محدثین کے قائم کردہ معیار صحت پر پوری نہیں اترتیں۔ علامہ البانی نے ایک روایت بایں الفاظ نقل فرمائی ہے کہ جس نے رکوع پا لیا اس نے رکعت کو پا لیا۔ (ارواءالغلیل:2/260) لیکن یہ الفاظ بالکل بے اصل ہیں جیسا کہ علامہ البانی نے خود وضاحت کردی ہے۔٭اس تیسری روایت میں ہے کہ جس نے رکعت کو پا لیا اس نے نماز کو پا لیا۔ یہ روایت بھی ضعیف ہے۔ جیسا کہ خود امام بیہقی ؒ نے اس کی طرف اشارہ فرمایا ہےکیونکہ اس کی سند میں یحییٰ بن ابی سلیمان المدینی راوی"منکر الحدیث" ہے۔ جیسا کہ امام بخاری ؒ نے اس کے متعلق تبصرہ کیا ہے۔ (ارواءالغلیل:262/2) اس کے علاوہ اس میں رکعت سے مراد رکوع نہیں کیونکہ رکعت بمعنی رکوع مجاز ہے اور مجازی معنی اس وقت معتبر ہوتا ہے۔ جب حقیقی معنی دشوار اور مشکل ہو۔ پھر اس روایت کے راوی حضرت ابو ہریرہ ؓ ہیں، خود ان کا فتویٰ یہ ہے کہ مدرک رکوع مدرک رکعت نہیں، کیونکہ وہ فرماتے ہیں کہ تیری رکعت اس وقت تک جائز نہیں ہوگی جب تک تو امام کو حالت قیام میں نہ پا لے۔ (جزءالقراءة، حدیث:131)٭چوتھی روایت میں بھی لفظ ’’رجل“آیا ہے اور یہ آدمی مجہول ہے۔ ابھی تک اس کا صحابی ہونا ثابت نہیں ہوسکا۔اگر وہ تابعی ہے تو اس کے حالات کا علم نہیں۔ اگر صحیح بھی مان لیا جائے تو زیادہ سے زیادہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سجدہ کے قابل اعتبار ہونے کے لیے رکوع ضروری ہے، اس کے بغیر سجود کی کوئی حیثیت نہیں۔ ٭پانچویں روایت کے معنی یہ نہیں کہ جس نے امام کو اپنی کمر سیدھی کرنے سے پہلے رکوع کی حالت میں پا لیا، اس نے نماز کو پا لیا کیونکہ روایت کے الفاظ میں رکعت ہے رکوع نہیں، پھر کمر سیدھا کرنے کے الفاظ بھی روایت کا حصہ نہیں بلکہ مدرج ہیں۔ شاید یہ امام زہری کے الفاظ ہیں جنھیں یحییٰ بن حمید نے حدیث کا حصہ بنایا ہے اور اس کی وضاحت نہیں کی۔ (ارواءالغلیل:2/262) امام بیہقی نے بھی اس کی وضاحت کی ہے۔ ٭جن روایات سے صحابۂ کرام کے عمل کو پیش کیا گیا ہے وہ ان کا عمل ہونے کی حیثیت سے شریعت کو ثابت نہیں کرتا اور خاص طور پر اس وقت جب ان کا عمل رسول اللہ ﷺ کی حدیث سے معارض ہو۔ اجتہاد کی بنا پر ایسا ہونا ممکن ہے۔ ہمارے لیے سب سے پہلے رسول اکرم ﷺ کے حکم پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اور اس مقام پر معارضت موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔‘‘ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے قیام کو طویل کردیتے تھے تاکہ وہ رکعت پا لیں لیکن آپ نے کبھی رکوع کو طویل نہیں کیا تاکہ وہ اس میں شامل ہوکر اسے رکعت شمار کرلیں۔ والله أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسمعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمام بن یحییٰ نے زیادہ بن حسان اعلم سے بیان کیا، انہوں نے حضرت حسن ؓ سے، انہوں نے حضرت ابوبکرہ ؓ سے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف (نماز پڑھنے کے لیے) گئے۔ آپ اس وقت رکوع میں تھے۔ اس لیے صف تک پہنچنے سے پہلے ہی انہوں نے رکوع کر لیا، پھر اس کا ذکر نبی کریم ﷺ سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تمہارا شوق اور زیادہ کرے لیکن دوبارہ ایسا نہ کرنا۔
حدیث حاشیہ:
طبرانی کی روایت میں یوں ہے کہ ابوبکرہ اس وقت مسجد میں پہنچے کہ نماز کی تکبیر ہو چکی تھی، یہ دوڑے اور طحاوی کی روایت میں ہے کہ دوڑتے ہوئے ہانپنے لگے، انہوں نے مارے جلدی کے صف میں شریک ہونے سے پہلے ہی رکو ع کر دیا۔ نماز کے بعد جب آنحضرت ﷺ کو یہ حال معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ آئندہ ایسا نہ کرنا۔ بعض اہل علم نے اس سے رکوع میں آنے والوں کے لیے رکعت کے ہو جانے پر دلیل پکڑی ہے۔ عون المعبود شرح ابوداؤد میں، ص332، میں ہے۔ قَالَ الشَّوْكَانِيُّ فِي النَّيْلِ لَيْسَ فِيهِ مَا يَدُلُّ عَلَى مَا ذَهَبُوا إِلَيْهِ لِأَنَّهُ كَمَا لَمْ يَأْمُرْهُ بِالْإِعَادَةِ لَمْ يُنْقَلْ إِلَيْنَا أَنَّهُ اعْتَدَّ بِهَا وَالدُّعَاءُ لَهُ بِالْحِرْصِ لَا يَسْتَلْزِمُ الِاعْتِدَادَ بِهَا لِأَنَّ الْكَوْنَ مَعَ الْإِمَامِ مَأْمُورٌ بِهِ سَوَاءٌ كَانَ الشَّيْءُ الَّذِي يُدْرِكُهُ الْمُؤْتَمُّ مُعْتَدًّا بِهِ أَمْ لَا كَمَا فِي الْحَدِيثِ إِذَا جِئْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ وَنَحْنُ سجود فاسجدوا ولا تعددوها شيئا على أن النبي قد نهى أبا بكرة عَنِ الْعَوْدِ إِلَى ذَلِكَ وَالِاحْتِجَاجُ بِشَيْءٍ قَدْ نهي عنه لا يصح وقد أجاب بن حَزْمٍ فِي الْمُحَلَّى عَنْ حَدِيثِ أَبِي بَكْرٍ فَقَالَ إِنَّهُ لَا حُجَّةَ لَهُمْ فِيهِ لِأَنَّهُ ليس فيه اجتراء بِتِلْكَ الرَّكْعَةِ الخ۔خلاصہ یہ ہے کہ بقول علامہ شوکانی اس حدیث سے یہ استدلال صحیح نہیں ہے کیوں کہ اگر حدیث میں یہ صراحت نہیں ہے کہ آپ نے اسے رکعت کے لوٹانے کا حکم نہیں فرمایا تو ساتھ ہی منقول یہ بھی نہیں ہے کہ اس رکعت کو کافی سمجھا۔ آپ نے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کو اس کی حرص پر دعائے خیر ضرور دی مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس رکعت کو بھی کافی سمجھا اور جب آنحضرت ﷺ نے ابوبکرہ ؓ کو اس فعل سے مطلقاً منع فرما دیا تو ایسی ممنوعہ چیز سے استدلال پکڑنا صحیح نہیں۔ علامہ ابن حزم نے بھی محلی میں ایسا ہی لکھا ہے۔ حضرت صاحب عون المعبود ؒ فرماتے ہیں: فَهَذَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْبُخَارِيُّ أَحَدُ الْمُجْتَهِدِينَ وَوَاحِدٌ مِنْ أَرْكَانِ الدِّينِ قَدْ ذَهَبَ إِلَى أَنَّ مُدْرِكًا لِلرُّكُوعِ لَا يَكُونُ مُدْرِكًا لِلرَّكْعَةِ حَتَّى يَقْرَأَ فَاتِحَةَ الْكِتَابِ فَمَنْ دَخَلَ مَعَ الْإِمَامِ فِي الرُّكُوعِ فَلَهُ أَنْ يَقْضِيَ تِلْكَ الرَّكْعَةَ بَعْدَ سَلَامِ الْإِمَامِ بَلْ حَكَى الْبُخَارِيُّ هَذَا الْمَذْهَبَ عَنْ كُلِّ مَنْ ذَهَبَ إِلَى وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ الخ۔(عون المعبود، ص: 334)یعنی حضرت امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ جو مجتہدین میں سے ایک زبردست مجتہد بلکہ ملت اسلام کے اہم ترین رکن ہیں، انہوں نے رکوع پانے والے کی رکعت کو تسلیم نہیں کیا۔ بلکہ ان کا فتوی یہ ہے کہ ایسے شخص کو امام کے سلام کے بعد یہ رکعت پڑھنی چاہئے بلکہ حضر ت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ ہر اس شخص کا مذہب نقل فرمایا ہے جس کے نزدیک امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنی واجب ہے اور ہمارے شیخ العرب و العجم حضرت مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی ؒ کا بھی یہی فتوی ہے۔ ( حوالہ مذکور ) اس تفصیل کے بعد یہ امر بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ جو حضرات بلا تعصب محض اپنی تحقیق کی بنا پر رکوع کی رکعت کے قائل ہیں وہ اپنے فعل کے خود ذمہ دار ہیں۔ ان کو بھی چاہئے کہ رکوع کی رکعت نہ ماننے والوں کے خلاف زبان کو تعریض سے روکیں اور ایسے مختلف فیہ فروعی مسائل میں وسعت سے کام لے کر اتفاق باہمی کو ضرب نہ لگائیں کہ سلف صالحین کا یہی طریقہ یہی طرز عمل رہا ہے۔ ایسے امور میں قائلین و منکرین میں سے حدیث الاعمال بالنیات کے تحت ہر شخص اپنی نیت کے مطابق بدلہ پائے گا، اسی لیے المجتہد قد یخطی و یصیب کا اصول وضع کیا گیا ہے۔ واللہ أعلم بالصواب و إلیه المرجع و المآب۔ دلائل کی رو سے صحیح یہی ہے کہ رکوع میں ملنے سے اس رکعت کا لوٹانا ضروری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Bakra (RA): I reached the Prophet (ﷺ) in the mosque while he was bowing in prayer and I too bowed before joining the row mentioned it to the Prophet (ﷺ) and he said to me, "May Allah increases your love for the good. But do not repeat it again (bowing in that way)."