تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کامقصد تعلیم وتبلیغ کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ اس لیے علماء کو چاہیے کہ وہ تعلیم وتبلیغ کا فریضہ سرانجام دیتے رہیں۔ اگر کوئی علم رکھنے کے باوجود اسے آگے نہیں پھیلاتا تو وہ علم پر بھی ظلم کرتا ہے، کیونکہ اس کے انتقال کے بعد بیش بہا ذخیرہ تلف ہوجائے گا۔ حضرت ربیعہ رائے کا مطلب بھی یہی ہے کہ وہ ایسے اسباب اختیار نہ کرے جس سے اس کا علم محدود ہوکررہ جائے۔
2۔ علامات قیامت کا انسداد بقدر طاقت ہر عالم کا فرض ہے، اس لیے رفع علم اور ظہور جہل کے انسداد کی یہی صورت ہے کہ اشاعت علم کے لیے تبلیغ وتعلیم کا سلسلہ جاری رہے۔ ظہور جہل کی یہ صورت ہوگی کہ اہل علم ختم ہوجائیں گے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاں علم کی بے قدری ہووہاں سے ہجرت کرجانی چاہیے۔ علماء کو رہنے کے لیے ایسی جگہ کا انتخاب کرنا چاہیے جہاں ان کے علوم سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔
3۔ ہمیں قیامت کا وقت نہیں بتایا گیا، البتہ رفع علم اور ظہور جہل کو اس کی آمد کا پیش خیمہ ضرور قراردیا گیا ہے۔ اس لیے علماء کا فرض ہے کہ ہم علم کو فروغ دیں اور جہل کو ختم کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔
4۔ ہمارافرض ہے کہ ہم زنا روکیں، شراب پینے اور پلانے کا ماحول پیدا نہ ہونے دیں، کوشش کے باوجود اگر زنا پھیلتا ہے یا شراب نوشی کا دور چلتا ہے تواس پر ہم سے باز پرس نہ ہوگی۔ اسی طرح ظہور جہل اورعلم کے اٹھ جانے کو روکنا ہمارا فریضہ ہے جو تعلیم وتبلیغ سے ادا ہوسکتا ہے۔