Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: Saying the Takbir on raising from the prostration)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
801.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے، جب رکوع کرتے تو بھی تکبیر کہتے۔ پھر جب رکوع سے اپنی پیٹھ اٹھاتے تو سمع الله لمن حمده کہتے۔ اس کے بعد بحالت قومہ ربنا لك الحمد کہتے ۔۔۔ راوی حدیث عبداللہ بن صالح نے اپنے استاد لیث سے، ربنا ولك الحمد کے الفاظ نقل کیے ہیں ۔۔ پھر جب (سجدے کے لیے) جھکتے تو تکبیر کہتے۔ اس کے بعد جب (سجدے سے) سر اٹھاتے تو بھی تکبیر کہتے۔ پھر دوسرے سجدے کے لیے اللہ اکبر کہتے اور آخر میں جب دوسرے سجدے سے سر اٹھاتے تو بھی تکبیر کہتے۔ پھر اپنی تمام نماز میں ایسا ہی کرتے تاآنکہ اسے پورا کر لیتے۔ علاوہ ازیں جب تشہد بیٹھنے کے بعد دو رکعات سے فراغت کے بعد اٹھتے تو بھی تکبیر کہتے۔
تشریح:
(1) اس حدیث میں تکبیرات انتقال کی تفصیل بیان ہوئی ہے کہ ہر رکعت میں تکبیر تحریمہ اور دو رکعت سے فراغت کے بعد اٹھنے کے علاوہ پانچ تکبیرات ہیں، اسی طرح چار رکعات میں کل بائیس تکبیرات ہیں، جن کا ذکر حدیثِ سابق میں تھا۔ اس سے پہلے حدیث ابو ہریرہ ؓ (رقم: 785) میں ہر جھکنے اور اٹھنے میں تکبیر کہنے کا ذکر ہے۔ یہ عموم غیر مقصود ہے کیونکہ اس حدیث میں امام بخاری ؒ کا مقصد جھکتے وقت تکبیر ترک کر دینے کی تردید تھا جیسا کہ بنو امیہ کی عادت تھی، نیز وہاں تسمیع اور تحمید کی نفی مقصود نہ تھی۔ (2) واضح رہے کہ حضرت عمر ؓ کی شہادت کے بعد حضرت عثمان ؓ نے مسجد میں ایک مقصورہ بنا رکھا تھا جس میں کھڑے ہو کر نماز پڑھاتے تھے، پھر بڑھاپے کی وجہ سے آواز میں بھی کچھ ضعف آ چکا تھا، آپ کی تکبیرات کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے مکبرین تعینات تھے۔ بنو امیہ نے خیال کیا کہ شاید حضرت عثمان ؓ نے تکبیرات کو ترک کر دیا ہے، اس لیے انہوں نے بھی تکبیرات کا اہتمام چھوڑ دیا۔ اس موقف کی تردید کے لیے محدثین کرام نے تکبیرات انتقال کے متعلق عنوانات قائم کیے اور احادیث پیش کی ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
780
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
789
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
789
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
789
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے، جب رکوع کرتے تو بھی تکبیر کہتے۔ پھر جب رکوع سے اپنی پیٹھ اٹھاتے تو سمع الله لمن حمده کہتے۔ اس کے بعد بحالت قومہ ربنا لك الحمد کہتے ۔۔۔ راوی حدیث عبداللہ بن صالح نے اپنے استاد لیث سے، ربنا ولك الحمد کے الفاظ نقل کیے ہیں ۔۔ پھر جب (سجدے کے لیے) جھکتے تو تکبیر کہتے۔ اس کے بعد جب (سجدے سے) سر اٹھاتے تو بھی تکبیر کہتے۔ پھر دوسرے سجدے کے لیے اللہ اکبر کہتے اور آخر میں جب دوسرے سجدے سے سر اٹھاتے تو بھی تکبیر کہتے۔ پھر اپنی تمام نماز میں ایسا ہی کرتے تاآنکہ اسے پورا کر لیتے۔ علاوہ ازیں جب تشہد بیٹھنے کے بعد دو رکعات سے فراغت کے بعد اٹھتے تو بھی تکبیر کہتے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں تکبیرات انتقال کی تفصیل بیان ہوئی ہے کہ ہر رکعت میں تکبیر تحریمہ اور دو رکعت سے فراغت کے بعد اٹھنے کے علاوہ پانچ تکبیرات ہیں، اسی طرح چار رکعات میں کل بائیس تکبیرات ہیں، جن کا ذکر حدیثِ سابق میں تھا۔ اس سے پہلے حدیث ابو ہریرہ ؓ (رقم: 785) میں ہر جھکنے اور اٹھنے میں تکبیر کہنے کا ذکر ہے۔ یہ عموم غیر مقصود ہے کیونکہ اس حدیث میں امام بخاری ؒ کا مقصد جھکتے وقت تکبیر ترک کر دینے کی تردید تھا جیسا کہ بنو امیہ کی عادت تھی، نیز وہاں تسمیع اور تحمید کی نفی مقصود نہ تھی۔ (2) واضح رہے کہ حضرت عمر ؓ کی شہادت کے بعد حضرت عثمان ؓ نے مسجد میں ایک مقصورہ بنا رکھا تھا جس میں کھڑے ہو کر نماز پڑھاتے تھے، پھر بڑھاپے کی وجہ سے آواز میں بھی کچھ ضعف آ چکا تھا، آپ کی تکبیرات کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے مکبرین تعینات تھے۔ بنو امیہ نے خیال کیا کہ شاید حضرت عثمان ؓ نے تکبیرات کو ترک کر دیا ہے، اس لیے انہوں نے بھی تکبیرات کا اہتمام چھوڑ دیا۔ اس موقف کی تردید کے لیے محدثین کرام نے تکبیرات انتقال کے متعلق عنوانات قائم کیے اور احادیث پیش کی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے عقیل بن خالد کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے کہا کہ مجھے ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث نے خبری دی کہ انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے سنا، انہوں نے بتلایا کہ آنحضرت ﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے۔ پھر جب رکوع کرتے تب بھی تکبیر کہتے تھے۔ پھر جب سر اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور کھڑے ہی کھڑے ربنا لك الحمد کہتے۔ پھر جب (دوسرے) سجدہ کے لیے جھکتے تب تکبیر کہتے اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تب بھی تکبیر کہتے۔ اسی طرح آپ تمام نماز پوری کر لیتے تھے۔ قعدہ اولیٰ سے اٹھنے پر بھی تکبیر کہتے تھے۔ (اس حدیث میں) عبداللہ بن صالح بن لیث کے واسطے سے (بجائے ربنا لك الحمد کے) ربنا و لك الحمد نقل کیا ہے۔ (ربنا لك الحمد کہے یا ربنا و لك الحمد واؤ کے ساتھ ہر دو طریقہ درست ہے۔)
حدیث حاشیہ:
چار رکعت نماز میں کل بائیس تکبیریں ہوتی ہیں ہر رکعت میں پانچ تکبیریں، ایک تکبیر تحریمہ دوسری پہلے تشہد کے بعد اٹھتے وقت سب بائیس ہوئی۔ اور تین رکعت نماز میں سترہ اور دو رکعت میں گیارہ ہوتی ہیں اور پانچوں نمازوں میں چورانوے تکبیریں ہوتی ہیں۔ موسیٰ بن اسماعیل کی سند کے بیان سے حضرت امام کی غرض یہ ہے کہ قتادہ سے دو شخصوں نے اس کو روایت کیا ہے۔ ہمام اور ابان نے اور ہمام کی روایت اصول میں امام بخاری ؒ کی شرط پر ہے اور ابان کی روایت متابعات میں۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ قتادہ کا سماع عکرمہ سے معلوم ہو جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Whenever Allah's Apostle (ﷺ) stood for the prayer, he said Takbir on starting the prayer and then on bowing. On rising from bowing he said, "Sami' a-l-lahu liman hamida," and then while standing straight he used to say, "Rabbana laka-l hamd" (Al-Laith said, "(The Prophet (ﷺ) said), 'Walaka-l-hamd'." He used to say Takbir on prostrating and on raising his head from prostration; again he would Say Takbir on prostrating and raising his head. He would then do the same in the whole of the prayer till it was completed. On rising from the second Rak'a (after sitting for At-Tahiyyat), he used to say Takbir.