تشریح:
(1) یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ رکوع کے بعد کھڑا ہونا، یعنی قومہ ایک طویل رکن ہے اور حضرت انس ؓ کی حدیث زیادہ صراحت کے ساتھ ہے بلکہ وہ تو اس کے متعلق نص صریح کی حیثیت رکھتی ہے، اس لیے کسی کمزور دلیل کے سہارے اس سے روگردانی درست نہیں، مثلاً: یہ کہا جائے کہ قومہ میں رکوع و سجود کی طرح تسبیحات کا دہرانا مسنون نہیں، اس لیے اسے مختصر ہونا چاہیے کیونکہ یہ تو نص صریح کے مقابلے میں قیاس کرنا ہے جو کسی صورت میں صحیح نہیں، علاوہ ازیں قومے میں جو ذکر مسنون ہے وہ رکوع کے ذکر سے زیادہ طویل ہے کیونکہ سبحان ربي العظيم تین مرتبہ کہنا (اللهم ربنا لك الحمد حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه) کے برابر ہے جبکہ قومے میں اس سے بھی طویل دعا منقول ہے، چنانچہ صحیح مسلم کی روایت میں حمدا كثيرا طيبا کے بعد مزید یہ الفاظ ہیں: (ملء السموت و ملء الأرض وملء ما شئت من شيئ بعد) اس کے علاوہ بھی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے متعدد اذکار مسنونہ نقل کیے ہیں جنہیں قومے میں پڑھنا مشروع ہے۔ (فتح الباري:2/374،373) (2) حدیث براء کے ایک معنی یہ بھی بیان کیے گئے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی نماز اعتدال پر مبنی ہوتی تھی، وہ اس طرح کہ جب قیام میں قراءت لمبی ہوتی تو باقی ارکان، یعنی رکوع، سجود وغیرہ بھی طویل ہوتے اور جب قراءت ہلکی ہوتی تو باقی ارکان میں بھی اختصار ہوتا، مثلاً: ایک روایت میں ہے کہ آپ نے صبح کی نماز میں سورۂ صافات پڑھی، چنانچہ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ہم نے سجدے میں تسبیحات کا شمار کیا تو وہ دس کے قریب تھیں۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جب آپ سورۂ صافات سے چھوٹی سورت پڑھتے تو سجدے میں دس سے کم تسبیحات کہتے تھے حتی کہ کم از کم سجدے کی تسبیحات کی تعداد تین تک مروی ہے۔ (فتح الباري:374/2)