باب: امام اور مقتدی رکوع سے سر اٹھانے پر کیا کہیں؟
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: What the Imam and the followers say on raising their heads from bowing)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
807.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب سمع الله لمن حمده کہتے تھے تو اس کے بعد اللهم ربنا ولك الحمد بھی کہتے۔ جب رکوع کرتے اور رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے، نیز جب دونوں سجدوں سے فارغ ہو کر کھڑے ہوتے تو اللہ أکبر کہتے تھے۔
تشریح:
(1) محدثین کی اصطلاح میں سمع الله لمن حمده کو تسميع اور ربنا ولك الحمد کو تحميد کہا جاتا ہے۔ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ تسمیع رکوع سے اٹھنے اور تحمید رکوع کے بعد قیام کا وظیفہ ہے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ امام کو دونوں وظیفے ادا کرنے چاہئیں کیونکہ حضرت ابو ہریرہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی جس نماز کے متعلق یہ تفصیل بیان کر رہے ہیں اسے امامت ہی پر محمول کیا جائے گا، اس لیے کہ اکثر و بیشتر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے جو آپ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور اسے بیان کیا ہے وہ حالت امامت ہی میں ہے، لہذا امام تسمیع اور تحمید دونوں کہے گا۔ (فتح الباري:353/2) (2) امام، مقتدی اور منفرد سب رکوع سے اٹھتے وقت تسمیع، اور سیدھے کھڑے ہونے کے بعد تحمید کہیں گے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے، اس کے علاوہ امام بھی تو اس لیے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، البتہ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب امام سمع الله لمن حمده کہے تو تم ربنا ولك الحمد کہو۔‘‘ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:732) اس حدیث سے یہ استنباط کرنا کہ مقتدی کو سمع الله لمن حمده نہیں کہنا چاہیے اور امام کو ربنا ولك الحمد نہیں کہنا چاہیے، کسی صورت میں درست نہیں کیونکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دونوں کلمات کہتے تھے اور اسی طرح نماز پڑھنے کا حکم دیتے تھے، تاہم واضح رہے کہ اس حدیث انس ؓ کا مقصد یہ بتانا نہیں کہ امام اور مقتدی اس موقع پر کیا کہیں بلکہ محض یہ بتانا ہے کہ مقتدی کی تحمید امام کی تسمیع کے بعد ہونی چاہیے جیسا کہ علامہ البانی نے اس کی وضاحت کی ہے۔ (صفة صلاة النبي صلی اللہ علیه وسلم ص:135) اس مقام پر یہ اشکال ہے کہ پیش کردہ حدیث سے امام کا وظیفہ تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ تسمیع اور تحمید دونوں کہے گا لیکن اس عنوان کا دوسرا جز کہ مقتدی کیا کہے وہ ثابت نہیں ہوتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مقتدی امام کی پیروی کرنے کا پابند ہے، اس لیے وہ بھی امام کی پیروی کرتے ہوئے تسمیع اور تحمید دونوں کو بجا لائے گا۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ اس حدیث کا بھی تقاضا ہے کہ مقتدی تسمیع و تحمید کو جمع کرے گا۔ اس سلسلے میں ایک حدیث بھی پیش کی جاتی ہے جسے امام دارقطنی نے بیان کیا ہے، حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے اور آپ سمع الله لمن حمده کہتے تو آپ کے پیچھے نماز پڑھنے والے بھی سمع الله لمن حمده کہتے، لیکن امام دارقطنی نے خود وضاحت کی ہے کہ یہ الفاظ صحیح نہیں بلکہ محفوظ روایت یہ ہے کہ آپ کے پیچھے مقتدی حضرات ربنا ولك الحمد کہتے۔ (فتح الباري:365/2) واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
786
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
795
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
795
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
795
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب سمع الله لمن حمده کہتے تھے تو اس کے بعد اللهم ربنا ولك الحمد بھی کہتے۔ جب رکوع کرتے اور رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے، نیز جب دونوں سجدوں سے فارغ ہو کر کھڑے ہوتے تو اللہ أکبر کہتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) محدثین کی اصطلاح میں سمع الله لمن حمده کو تسميع اور ربنا ولك الحمد کو تحميد کہا جاتا ہے۔ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ تسمیع رکوع سے اٹھنے اور تحمید رکوع کے بعد قیام کا وظیفہ ہے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ امام کو دونوں وظیفے ادا کرنے چاہئیں کیونکہ حضرت ابو ہریرہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی جس نماز کے متعلق یہ تفصیل بیان کر رہے ہیں اسے امامت ہی پر محمول کیا جائے گا، اس لیے کہ اکثر و بیشتر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے جو آپ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور اسے بیان کیا ہے وہ حالت امامت ہی میں ہے، لہذا امام تسمیع اور تحمید دونوں کہے گا۔ (فتح الباري:353/2) (2) امام، مقتدی اور منفرد سب رکوع سے اٹھتے وقت تسمیع، اور سیدھے کھڑے ہونے کے بعد تحمید کہیں گے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے، اس کے علاوہ امام بھی تو اس لیے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، البتہ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب امام سمع الله لمن حمده کہے تو تم ربنا ولك الحمد کہو۔‘‘ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:732) اس حدیث سے یہ استنباط کرنا کہ مقتدی کو سمع الله لمن حمده نہیں کہنا چاہیے اور امام کو ربنا ولك الحمد نہیں کہنا چاہیے، کسی صورت میں درست نہیں کیونکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دونوں کلمات کہتے تھے اور اسی طرح نماز پڑھنے کا حکم دیتے تھے، تاہم واضح رہے کہ اس حدیث انس ؓ کا مقصد یہ بتانا نہیں کہ امام اور مقتدی اس موقع پر کیا کہیں بلکہ محض یہ بتانا ہے کہ مقتدی کی تحمید امام کی تسمیع کے بعد ہونی چاہیے جیسا کہ علامہ البانی نے اس کی وضاحت کی ہے۔ (صفة صلاة النبي صلی اللہ علیه وسلم ص:135) اس مقام پر یہ اشکال ہے کہ پیش کردہ حدیث سے امام کا وظیفہ تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ تسمیع اور تحمید دونوں کہے گا لیکن اس عنوان کا دوسرا جز کہ مقتدی کیا کہے وہ ثابت نہیں ہوتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مقتدی امام کی پیروی کرنے کا پابند ہے، اس لیے وہ بھی امام کی پیروی کرتے ہوئے تسمیع اور تحمید دونوں کو بجا لائے گا۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ اس حدیث کا بھی تقاضا ہے کہ مقتدی تسمیع و تحمید کو جمع کرے گا۔ اس سلسلے میں ایک حدیث بھی پیش کی جاتی ہے جسے امام دارقطنی نے بیان کیا ہے، حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے اور آپ سمع الله لمن حمده کہتے تو آپ کے پیچھے نماز پڑھنے والے بھی سمع الله لمن حمده کہتے، لیکن امام دارقطنی نے خود وضاحت کی ہے کہ یہ الفاظ صحیح نہیں بلکہ محفوظ روایت یہ ہے کہ آپ کے پیچھے مقتدی حضرات ربنا ولك الحمد کہتے۔ (فتح الباري:365/2) واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، انہوں نے سعید مقبری سے بیان کیا، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ نبی کریم ﷺ جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو اس کے بعد اللهم ربنا ولك الحمد بھی کہتے۔ اسی طرح جب آپ رکوع کرتے اور سراٹھاتے تو تکبیر کہتے۔ دونوں سجدوں سے کھڑے ہوتے وقت بھی آپ اللہ أکبر کہا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
حدیث سے امام کا کہنا تو ثابت ہوا لیکن مقتدی کا یہ کہنا ا س طرح ثابت ہوگا کہ مقتدی پر امام کی پیروی ضروری ہے۔ جیسا کہ دوسری روایت میں مذکور ہے۔ اسی حدیث کے دوسرے طرق میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو پیچھے والے بھی امام کے ساتھ ربنا و لک الحمد الخ بھی کہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): When the Prophet (ﷺ) said, "Sami' a-l-lahu Liman hamida," (Allah heard those who sent praises to Him), he would say, "Rabbana wa-laka-l-hamd." On bowing and raising his head from it the Prophet (ﷺ) used to say Takbir. He also used to say Takbir on rising after the two prostrations. (See Hadith No. 656).