تشریح:
(1) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ درندے کی طرح اپنے ہاتھ مت بچھاؤ، اپنی ہتھیلیوں کو زمین پر رکھو، اپنے بازوؤں کو کشادہ کرو، جب تم نے ایسا کیا تو گویا تمہارے تمام عضو نے سجدہ کیا۔ اسی طرح حضرت براء بن عازب ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ سجدے کے وقت اپنے ہاتھوں کو زمین پر رکھو اور اپنی کہنیوں کو اونچا کرو۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1104 (494)) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس طرح کی دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بازو کشادہ کر کے سجدہ کرنا ضروری ہے لیکن ابوداود کی ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا کرنا مستحب ہے، ضروری نہیں۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے دوران سجدہ میں بازوؤں کی کشادگی کی وجہ سے مشقتِ سجدہ کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا کہ گھٹنوں سے مدد لو، یعنی ان پر اپنی کہنیاں ٹیک کر سکون اور آرام حاصل کر لو۔ امام ابوداود نے اس پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: کشادگی چھوڑ دینے کی رخصت، (سنن أبي داود، الصلاة،حدیث:902 وفتح الباري:381/2) حالانکہ رخصت کی صورت ایک عذر کی بنا پر ہے کہ طوالت سجدہ کے وقت تھکاوٹ دور کرنے کے لیے گھٹنوں سے مدد لی جا سکتی ہے لیکن عام حالات میں بازوؤں کو دوران سجدہ میں اپنے پہلو سے الگ رکھا جائے۔ امام ترمذی ؒ نے گھٹنوں سے مدد لینے کا حکم سجدے سے فراغت کے بعد قیام کے لیے اٹھنے کے وقت مراد لیا ہے۔ امام طحاوی ؒ نے قومے کے بعد سجدے کو جاتے ہوئے گھٹنوں کی مدد لینا مراد لیا ہے۔ الغرض یہ چار صورتیں الگ الگ ہیں جن کی تفصیل یہ ہے: ٭ امام بخاری ؒ نے سجدے کی صحیح صورت عام حالات کے لیے بیان کی ہے۔ ٭ امام ابوداود ؒ نے عذر کے وقت رانوں پر کہنیاں ٹیکنے کی اجازت کا ذکر کیا ہے۔ ٭ امام ترمذی ؒ نے سجدے سے فراغت کے بعد اٹھتے وقت گھٹنوں کی مدد لینا بیان کیا ہے۔ ٭ امام طحاوی نے قومے سے سجدے کو جاتے ہوئے گھٹنوں کی مدد لینا ذکر کیا ہے۔
(2) امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں بیان کیا ہے کہ لیث نے بھی اسی طرح جعفر بن ربیعہ سے بیان کیا ہے، یعنی یہ حدیث بیان کرنے میں بکر بن مضر متفرد نہیں۔ حضرت لیث کی حدیث کو امام مسلم نے بایں الفاظ موصول بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو اپنی بغلوں سے ہاتھوں کو دور رکھتے یہاں تک کہ میں آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھ لیتا۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1106 (495))