تشریح:
ان احادیث کا حاصل یہ ہے کہ ساتوں اعضائے سجدہ بھی نمازی ہیں، یہ نہیں کہ سجدہ تو نماز پڑھنے والا کرتا ہے اور مذکورہ اعضاء اس کے سجدے کے لیے صرف معاون اور ذریعہ ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ نمازی کے بال بھی سجدہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دوران نماز میں کپڑوں اور بالوں کو سمیٹنے سے منع فرمایا گیا ہے لیکن کپڑے سمیٹنے کی ممانعت کو عام اور مطلق نہ سمجھا جائے کیونکہ اگر ستر کھلنے کا اندیشہ ہو تو کپڑوں کو سمیٹا جا سکتا ہے۔ دراصل پیشانی کا زمین پر رکھنا ہی سجدہ ہے اور ناک بھی پیشانی میں داخل ہے، لہٰذا ناک اور پیشانی دونوں کا زمین پر رکھنا ضروری ہے، چنانچہ بعض روایات میں پیشانی کی صراحت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ نے ناک کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:812) اس سے معلوم ہوا کہ پیشانی اور ناک بمنزلہ وضو واحد ہیں۔ اگر انہیں الگ الگ شمار کیا گیا تو اعضائے سجدہ کی تعداد سات نہ رہے گی بلکہ آٹھ ہو جائے گی۔ تجربہ بھی اس بات کا شاہد ہے کہ جب پوری پیشانی زمین پر رکھی جائے تو ناک بھی اس کے ساتھ زمین پر ٹکے گی۔ اگر ناک زمین پر نہ رکھی جائے تو پیشانی کا کچھ حصہ زمین پر ٹکنے سے رہ جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے ناک کی طرف اشارہ کر کے یہ بتایا ہے کہ پیشانی پر سجدے کی تکمیل اسی وقت ممکن ہے جب ناک بھی اس کے ساتھ زمین پر رکھی جائے۔