Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: One should say Takbir while going in prostration)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نافع نے بیان کیا کہ ابن عمر ؓ ( سجدہ کرتے وقت ) پہلے ہاتھ زمین پر ٹیکتے، پھر گھٹنے ٹیکتے۔اس تعلیق کو ابن خزیمہ اور طحاوی نے موصولاً ذکر کیا ہے۔ امام مالک کا یہی قول ہے۔ لیکن باقی تینوں اماموں نے یہ کہاہے کہ پہلے گھٹنے ٹیکے پھر ہاتھ زمین پر رکھے۔ نووی نے کہا دلیل کی رو سے دونوں مذہب برابر ہیں اور اسی لیے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے ایک روایت یہ ہے کہ نمازی کو اختیار ہے، چاہے گھٹنے پہلے رکھے چاہے ہاتھ۔ اور ابن قیم نے وائل بن حجر کی حدیث کو ترجیح دی ہے، جس میں مذکور ہے کہ جب آنحضرت ﷺ سجدہ کرنے لگتے تو پہلے گھٹنے زمین پر رکھتے پھر ہاتھ ( مولانا وحید الزماں مرحوم )درست یہ ہے کہ حدیث ابوہریرہ راجح اور اصح ہے جو مسلم میں موجود ہے اور اس میں ہاتھ پہلے اور گھٹنے بعد میں ٹیکنے کا مسئلہ بیان ہے۔
817.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ گھوڑے سے گر پڑے تو آپ کی دائیں جانب زخمی ہو گئی۔ ہم لوگ آپ کی خدمت میں تیمارداری کے لیے حاضر ہوئے، اتنے میں نماز کا وقت آ گیا تو آپ نے ہمیں بیٹھ کر نماز پڑھائی اور ہم بھی بیٹھ گئے ۔۔ سفیان راوی نے ایک مرتبہ یہ الفاظ بیان کیے کہ ہم نے بیٹھ کر نماز پڑھی ۔۔ جب آپ نماز ادا کر چکے تو فرمایا: ’’امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہٰذا جب وہ اللہ أکبر کہے تو تم بھی اللہ أکبر کہو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ سمع الله لمن حمده کہے تو تم ربنا ولك الحمد کہو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو۔‘‘ حضرت سفیان نے کہا: کیا معمر نے اس طرح بیان کیا؟ میں نے کہا: ہاں۔ سفیان نے کہا: اس نے خوب یاد رکھا۔ زہری فرماتے ہیں کہ مجھے ولك الحمد اور شقه الأيمن کے الفاظ یاد ہیں۔ جب امام زہری ؒ کے پاس سے واپس آئے تو ابن جریج نے کہا کہ میں زہری کے پاس تھا تو انہوں نے یہ الفاظ بیان کیے: آپ کی دائیں پنڈلی زخمی ہو گئی۔
تشریح:
(1) اس روایت کا تقاضا ہے کہ امام کے سجدے کے وقت ہی مقتدی کا سجدہ ہونا چاہیے۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ کا سجدہ جھکتے وقت اللہ أکبر کہتے ہوئے ہوتا تھا۔ حدیث کی مطابقت بھی بایں طور پر ہی ہے جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ سجدے کے لیے جھکنے کی دونوں صفات ہیں: صفت فعلی اور صفت قولی۔ اس اعتبار سے مذکورہ حدیث سجدے کے لیے جھکنے کی دو صفات پر دلالت کرتی ہے۔ (عمدة القاري:543/4)واللہ أعلم۔ یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ ﷺ کی اقتدا میں رہتے ہوئے اس وقت سجدے کے لیے جھکتے تھے جب آپ اپنا سر مبارک زمین پر رکھ دیتے تھے جیسا کہ صراحت کے ساتھ حدیث میں اس کا ذکر ہے، اس لیے مقتدی کو سجدہ کرتے وقت جھکنے کے ساتھ ساتھ اللہ أکبر کہتے ہوئے اس بات کا بطورِ خاص خیال رکھنا ہو گا۔ (2) امام بخاری ؒ نے متن حدیث ختم ہونے کے بعد كذا جاء به معمر سے تین ایسی باتوں کا ذکر کیا ہے جن کا تعلق سند حدیث یا بیان روایت سے ہے۔ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ یہ حضرت سفیان بن عیینہ کا مقولہ ہے۔ انہوں نے اپنے شاگرد علی بن عبداللہ المدینی سے دریافت کیا کہ جیسے میں نے حدیث بیان کی ہے حضرت معمر بن راشد نے بھی اسی طرح بیان کی تھی؟ علی بن مدینی کہتے ہیں کہ میں نے جواب میں ہاں کہا۔ حضرت سفیان نے علی بن مدینی سے یہ اس لیے پوچھا کہ جس طرح وہ سفیان کے شاگرد ہیں اسی طرح معمر کے بھی شاگرد ہیں۔ اس کے بعد حضرت سفیان نے حضرت معمر کی توثیق کرتے ہوئے فرمایا کہ اس نے خواب یاد رکھا ہے۔ ٭ امام زہری کے بعض شاگرد، مثلاً: لیث وغیرہ ربنا لك الحمد یا اللهم ربنا لك الحمد ذکر کرتے تھے، یعنی "واؤ" کا ذکر نہیں کرتے جیسا کہ حدیث: 733 میں گزرا ہے۔ یہ بات حضرت سفیان بن عیینہ نے بطور تنبیہ فرمائی ہے۔ ٭ سفیان فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شیخ امام زہری سے شقه الأيمن، کے بجائے ساقه الأيمن نقل کرنے لگا، جبکہ میں خود اپنے شیخ کے پاس تھا تو انہوں نے مذکورہ الفاظ کب اور کیسے سنے ہیں؟ یہ اس صورت میں ہے جب عنده میں ضمیر کا مرجع امام زہری ہوں۔ اگر اس کا مرجع ابن جریج ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں تو ابن جریج کے ساتھ رہا ہوں اور ان سے جدا نہیں ہوا تو انہوں نے کب سنے ہیں؟ اس طرح کہنے سے یہ احتمال ختم ہو گیا کہ شاید انہوں نے بعد میں امام زہری سے پوچھ لیا ہو، تاہم پہلی توجیہ زیادہ قرین قیاس ہے۔ (عمدة القاري:544/4)واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
796
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
805
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
805
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
805
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
اس عنوان میں امام بخاری رحمہ اللہ نے سجدے کو جاتے ہوئے قولی اور عملی کیفیت بیان کی ہے۔ قولی کیفیت یہ ہے کہ اللہ اکبر کہتا ہوا سجدے کے لیے نیچے جھکے جیسا کہ آئندہ مرفوع حدیث سے ثابت ہو گا اور عملی کیفیت یہ ہے کہ سجدہ کرتے وقت اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے زمین پر رکھے جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے عمل سے معلوم ہو رہا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ عمل صحیح ابن خزیمہ میں متصل سند سے بیان ہوا ہے اور اس کے آگے یہ الفاظ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ (صحیح ابن خزیمۃ:1/319) اگرچہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے ان اضافی الفاظ کو وہم قرار دیا ہے لیکن ان کا موقف مرجوح ہے۔ (فتح الباری:2/376) پھر اس عمل کی تائید حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے جب کوئی سجدہ کرے تو اونٹ کی طرح نہ بیٹھے اور اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے زمین پر رکھے۔ (سنن ابی داود،الصلاۃ،حدیث:840) اگرچہ اس کے معارض حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے جس کے الفاظ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں جاتے وقت اپنے گھٹنے زمین پر ہاتھوں سے پہلے رکھتے تھے۔ (سنن ابن ماجہ،الصلاۃ،حدیث:882) لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حدیث ابی ہریرہ کو حضرت وائل بن حجر کی روایت سے قوی قرار دیا ہے۔ (بلوغ المرام،حدیث:245) کیونکہ حدیث وائل کو بیان کرنے میں شریک راوی تنہا ہے اور جب کسی روایت کو یہ تنہا بیان کرے تو محدثین کے نزدیک اس قسم کی روایت محل نظر ہوتی ہے، نیز اونٹ جب نیچے بیٹھتا ہے تو پہلے اپنے گھٹنے زمین پر ٹیکتا ہے پھر بیٹھتا ہے اور بحالت سجدہ اسی کیفیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔
اور نافع نے بیان کیا کہ ابن عمر ؓ ( سجدہ کرتے وقت ) پہلے ہاتھ زمین پر ٹیکتے، پھر گھٹنے ٹیکتے۔اس تعلیق کو ابن خزیمہ اور طحاوی نے موصولاً ذکر کیا ہے۔ امام مالک کا یہی قول ہے۔ لیکن باقی تینوں اماموں نے یہ کہاہے کہ پہلے گھٹنے ٹیکے پھر ہاتھ زمین پر رکھے۔ نووی نے کہا دلیل کی رو سے دونوں مذہب برابر ہیں اور اسی لیے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے ایک روایت یہ ہے کہ نمازی کو اختیار ہے، چاہے گھٹنے پہلے رکھے چاہے ہاتھ۔ اور ابن قیم نے وائل بن حجر کی حدیث کو ترجیح دی ہے، جس میں مذکور ہے کہ جب آنحضرت ﷺ سجدہ کرنے لگتے تو پہلے گھٹنے زمین پر رکھتے پھر ہاتھ ( مولانا وحید الزماں مرحوم )درست یہ ہے کہ حدیث ابوہریرہ راجح اور اصح ہے جو مسلم میں موجود ہے اور اس میں ہاتھ پہلے اور گھٹنے بعد میں ٹیکنے کا مسئلہ بیان ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ گھوڑے سے گر پڑے تو آپ کی دائیں جانب زخمی ہو گئی۔ ہم لوگ آپ کی خدمت میں تیمارداری کے لیے حاضر ہوئے، اتنے میں نماز کا وقت آ گیا تو آپ نے ہمیں بیٹھ کر نماز پڑھائی اور ہم بھی بیٹھ گئے ۔۔ سفیان راوی نے ایک مرتبہ یہ الفاظ بیان کیے کہ ہم نے بیٹھ کر نماز پڑھی ۔۔ جب آپ نماز ادا کر چکے تو فرمایا: ’’امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہٰذا جب وہ اللہ أکبر کہے تو تم بھی اللہ أکبر کہو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ سمع الله لمن حمده کہے تو تم ربنا ولك الحمد کہو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو۔‘‘ حضرت سفیان نے کہا: کیا معمر نے اس طرح بیان کیا؟ میں نے کہا: ہاں۔ سفیان نے کہا: اس نے خوب یاد رکھا۔ زہری فرماتے ہیں کہ مجھے ولك الحمد اور شقه الأيمن کے الفاظ یاد ہیں۔ جب امام زہری ؒ کے پاس سے واپس آئے تو ابن جریج نے کہا کہ میں زہری کے پاس تھا تو انہوں نے یہ الفاظ بیان کیے: آپ کی دائیں پنڈلی زخمی ہو گئی۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس روایت کا تقاضا ہے کہ امام کے سجدے کے وقت ہی مقتدی کا سجدہ ہونا چاہیے۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ کا سجدہ جھکتے وقت اللہ أکبر کہتے ہوئے ہوتا تھا۔ حدیث کی مطابقت بھی بایں طور پر ہی ہے جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ سجدے کے لیے جھکنے کی دونوں صفات ہیں: صفت فعلی اور صفت قولی۔ اس اعتبار سے مذکورہ حدیث سجدے کے لیے جھکنے کی دو صفات پر دلالت کرتی ہے۔ (عمدة القاري:543/4)واللہ أعلم۔ یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ ﷺ کی اقتدا میں رہتے ہوئے اس وقت سجدے کے لیے جھکتے تھے جب آپ اپنا سر مبارک زمین پر رکھ دیتے تھے جیسا کہ صراحت کے ساتھ حدیث میں اس کا ذکر ہے، اس لیے مقتدی کو سجدہ کرتے وقت جھکنے کے ساتھ ساتھ اللہ أکبر کہتے ہوئے اس بات کا بطورِ خاص خیال رکھنا ہو گا۔ (2) امام بخاری ؒ نے متن حدیث ختم ہونے کے بعد كذا جاء به معمر سے تین ایسی باتوں کا ذکر کیا ہے جن کا تعلق سند حدیث یا بیان روایت سے ہے۔ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ یہ حضرت سفیان بن عیینہ کا مقولہ ہے۔ انہوں نے اپنے شاگرد علی بن عبداللہ المدینی سے دریافت کیا کہ جیسے میں نے حدیث بیان کی ہے حضرت معمر بن راشد نے بھی اسی طرح بیان کی تھی؟ علی بن مدینی کہتے ہیں کہ میں نے جواب میں ہاں کہا۔ حضرت سفیان نے علی بن مدینی سے یہ اس لیے پوچھا کہ جس طرح وہ سفیان کے شاگرد ہیں اسی طرح معمر کے بھی شاگرد ہیں۔ اس کے بعد حضرت سفیان نے حضرت معمر کی توثیق کرتے ہوئے فرمایا کہ اس نے خواب یاد رکھا ہے۔ ٭ امام زہری کے بعض شاگرد، مثلاً: لیث وغیرہ ربنا لك الحمد یا اللهم ربنا لك الحمد ذکر کرتے تھے، یعنی "واؤ" کا ذکر نہیں کرتے جیسا کہ حدیث: 733 میں گزرا ہے۔ یہ بات حضرت سفیان بن عیینہ نے بطور تنبیہ فرمائی ہے۔ ٭ سفیان فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شیخ امام زہری سے شقه الأيمن، کے بجائے ساقه الأيمن نقل کرنے لگا، جبکہ میں خود اپنے شیخ کے پاس تھا تو انہوں نے مذکورہ الفاظ کب اور کیسے سنے ہیں؟ یہ اس صورت میں ہے جب عنده میں ضمیر کا مرجع امام زہری ہوں۔ اگر اس کا مرجع ابن جریج ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں تو ابن جریج کے ساتھ رہا ہوں اور ان سے جدا نہیں ہوا تو انہوں نے کب سنے ہیں؟ اس طرح کہنے سے یہ احتمال ختم ہو گیا کہ شاید انہوں نے بعد میں امام زہری سے پوچھ لیا ہو، تاہم پہلی توجیہ زیادہ قرین قیاس ہے۔ (عمدة القاري:544/4)واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حضرت نافع کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر ؓ (سجدہ کرتے وقت) گھٹنوں سے پہلے اپنے ہاتھ (زمین پر) رکھتے تھے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بار بار زہری سے یہ بیان کیا کہ انہوں نے کہاکہ میں نے انس بن مالک ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ گھوڑے سے زمین پر گر گئے۔ سفیان نے اکثر (بجائے عن فرس کے) من فرس کہا۔ اس گرنے سے آپ کادایاں پہلو زخمی ہو گیا تو ہم آپ کی خدمت میں عیادت کی غرض سے حاضر ہوئے۔ اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا اور آپ نے ہمیں بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ ہم بھی بیٹھ گئے۔ سفیان نے ایک مرتبہ کہا کہ ہم نے بھی بیٹھ کر نماز پڑھی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہو گئے توفرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔ اس لیے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو۔ جب رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو۔ جب سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ر بنا ولك الحمد کہو اور جب سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو۔ (سفیان نے اپنے شاگرد علی بن مدینی سے پوچھا کہ) کیا معمر نے بھی اسی طرح حدیث بیان کی تھی۔ (علی کہتے ہیں کہ) میں نے کہا جی ہاں۔ اس پر سفیان بولے کہ معمر کو حدیث یاد تھی۔ زہری نے یوں کہا ولك الحمد۔ سفیان نے یہ بھی کہا کہ مجھے یاد ہے کہ زہری نے یوں کہا آپ کا دایاں بازو چھل گیا تھا۔ جب ہم زہری کے پا س سے نکلے ابن جریج نے کہا میں زہری کے پاس موجود تھا تو انہوں نے یوں کہا کہ آپ کی داہنی پنڈلی چھل گئی۔
حدیث حاشیہ:
زہری نے کبھی تو پہلو کہا، کبھی پنڈلی، بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے سفیان نے کہا جب ہم زہری کے پاس سے نکلے تو ابن جریج نے اس حدیث کو بیان کیا۔ میں ان کے پاس تھا ابن جریج نے پہلو کے بدلے پنڈلی کہا۔ حافظ ؒ نے اس ترجمہ کو ترجیح دی ہے۔ اس حدیث میں یہ مذکور ہے کہ جب امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور ظاہر ہے کہ مقتدی امام کے بعد سجدہ میں جاتا ہے تو اس کی تکبیر بھی امام کے بعد ہی ہوگی۔ اور جب دونوں فعل اس کے امام کے بعد ہوئے تو تکبیر اسی وقت پر آن کر پڑے گی جب مقتدی سجدہ کے لیے جھکے گا اور یہی ترجمہ باب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): Allah's Apostle (ﷺ) fell from a horse and the right side of his body was injured. We went to enquire about his health meanwhile it was time for the prayer and he led the prayer sitting and we also prayed while sitting. On completion of the prayer he said, "The Imam is to be followed; say Takbir when he says it; bow when he bows; rise when he rises and when he says "Sami'a-l-lahu Liman hamida," say, "Rabbana walaka-lhamd", and prostrate if he prostrates." Sufyan narrated the same from Ma'mar. Ibn Juraij said that his (the Prophet's) right leg had been injured.