تشریح:
(1) یہ روایت مختلف طرق سے کہیں مجمل اور کہیں مفصل بیان ہوئی ہے۔ مذکورہ روایت کے مطابق پہلے تشہد میں افتراش اور دوسرے میں تورک کا ذکر ہے۔ اس کے تین طریقے احادیث میں بیان ہوئے ہیں: ٭ دایاں پاؤں کھڑا کر کے بائیں پاؤں کو دائیں ران کے نیچے سے آگے بڑھا دیا جائے پھر سرین پر بیٹھا جائے جیسا کہ حدیث بالا میں مذکور ہے۔ ٭ حضرت ابو حمید ساعدی ؓ کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ چوتھی رکعت میں ہوتے تو بائیں سرین کے ساتھ زمین پر بیٹھ جاتے اور اپنے دونوں قدموں کو ایک جانب سے نکال لیتے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:731) ٭ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز میں بیٹھتے تو بائیں پاؤں کو ران اور پنڈلی کے درمیان میں کر لیتے اور دایاں پاؤں بچھا لیتے۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1307(579)) ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے تورک ثابت ہے اور آپ کبھی ایک طریقہ استعمال کرتے اور کبھی دوسرا، اور تورک اس تشہد میں ہوتا جس میں سلام پھیرا جاتا ہے۔ اس کی وجہ اور علت میں اختلاف ہے۔ امام احمد کے نزدیک اس کی علت "تفریق" ہے، یعنی پہلے اور دوسرے تشہد میں فرق کرنے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز فجر اور نماز جمعہ میں تورک نہیں ہے۔ امام شافعی ؒ کے نزدیک اس کی علت تخفیف ہے، یعنی تشہد اول چھوٹا ہوتا ہے اس میں تورک کی ضرورت نہیں اور تشہد ثانی طویل ہوتا ہے، اس لیے اس میں تخفیف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ طویل قعود کے پیش نظر ہر نماز کے آخری تشہد میں تورک ہو گا۔ نماز فجر اور نماز جمعہ میں بھی تورک کیا جائے۔ بہرحال ہمیں اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں کیونکہ روایات میں صراحت ہے کہ جس تشہد میں سلام پھیرنا ہوتا اس میں تورک کیا جاتا۔ ابن حبان کی روایت میں نماز کے خاتمے کے الفاظ ہیں۔
(2) ایک روایت ہے کہ اس مجلس میں موجود تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت ابو حمید ساعدی ؓ کے بیان کی تصدیق کی اور بیک زبان فرمایا کہ واقعی رسول اللہ ﷺ اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:730) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس مجلس میں بیٹھنے والے دس صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں حضرت سہل بن سعد، ابو اسید ساعدی، محمد بن مسلمہ، حضرت ابو ہریرہ اور ابو قتادہ رضی اللہ عنہم نے نماز کا طریقہ عملی طور پر اور بعض روایات کے مطابق زبان سے بیان فرمایا ہے۔ واللہ أعلم۔ (فتح الباري:397/2)
(3) اس روایت کے آخر میں امام بخاری رحمہ اللہ نے کچھ استنادی مباحث بھی ذکر کیے ہیں جن کی تفصیل یہ ہے: ٭ اس حدیث کی سند میں تصریح سماع نہ تھی، امام بخاری نے دوسرے طریق بیان کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ سند کے تمام راویوں نے اپنے شیوخ سے اس حدیث کو سنا ہے۔ ٭ حضرت عبداللہ بن مبارک کی روایت کو جعفر فریابی، علامہ جوزقی اور ابراہیم الحربی نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:400/2) واضح رہے کہ مذکورہ حدیث طریقۂ نماز کے متعلق ایک اصولی اور تفصیلی بیان کی حیثیت رکھتی ہے۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ صحابئ جلیل نے اس حدیث کا آغاز طریقۂ وضو اور استقبال قبلہ کے ذکر سے کیا تھا۔