تشریح:
(1) یہ مختصر روایت ہے، مفصل روایت کے الفاظ یہ ہیں: ہم نماز میں کہا کرتے تھے کہ اللہ کے بندوں کی طرف سے اس پر سلامتی ہو، ان الفاظ پر رسول اللہ ﷺ نے تنبیہ فرمائی۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:835) اس روایت میں تشہد پڑھنے کے محل کی تعیین نہیں ہے دوسری روایت میں اس کی وضاحت ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم دو رکعت میں بیٹھو تو اس طرح کہو۔‘‘ (سنن النسائي، التطبیق، حدیث:1164) ابن خزیمہ کی روایت میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز کے وسط اور آخر کے لیے تشہد کی تعلیم دی۔ (صحیح ابن خزیمة:350/1،حدیث:708) صحیح بخاری میں ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے تشہد کے کلمات سکھائے جبکہ میرا ہاتھ آپ کے دونوں ہاتھوں کے درمیان تھا آپ نے مجھے یہ کلمات اس طرح سکھائے جیسے قرآن کی کوئی سورت سکھائی جاتی ہے۔ (صحیح البخاري، الاستئذان، حدیث:6265) روایات میں مروی صیغۂ امر سے معلوم ہوتا ہے کہ تشہد کا پڑھنا ضروری ہے بلکہ دارقطنی کی روایت میں وضاحت ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ تشہد فرض ہونے سے پہلے ہمیں معلوم نہیں تھا کہ اس میں کیا پڑھا جاتا ہے۔ (سنن الدارقطني:350/1) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ تشہد پڑھنا فرض ہے۔ (فتح الباري:404/2)
(2) مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے تشہد کے مختلف الفاظ مروی ہیں، ان میں سے جو بھی یاد ہو پڑھ لیا جائے، تاہم حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی تشہد پڑھنا زیادہ بہتر ہے کیونکہ یہ صحیحین کی روایات سے ثابت ہے۔ تشہد کے الفاظ کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی تشہد (التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلیٰ عباد الله الصالحين، أشهد أن لا إله إلا الله و أشهد أن محمدًا عبده ورسوله) (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:831) ٭ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی تشہد (التحيات المباركات الصلوات الطيبات لله، السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلیٰ عباد الله الصالحين، أشهد أن لا إله إلا الله و أشهد أن محمدًا رسول الله) (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:902 (403)) ٭ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی تشہد (التحيات لله، الزاكيات لله، الطيبات لله، السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلیٰ عباد الله الصالحين، أشهد أن لا إله إلا الله و أشهد أن محمدًا عبده ورسوله) (عمدة القاري:266/1)
(3) تشہد پڑھتے وقت گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے کی دو صورتیں ہیں: ٭ دائیں ہاتھ کو دائیں اور بائیں ہاتھ کو بائیں گھٹنے پر رکھیں۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1307 (579)) ٭ دایاں ہاتھ اپنی دائیں اور بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھیں۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1308(579)) اس سے معلوم ہوا کہ نمازی کو اختیار ہے کہ وہ دوران تشہد ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھے یا رانوں پر رکھے۔
(4) آخری قعدہ میں تشہد کے بعد رسول اللہ ﷺ پر درود پڑھنا بھی نماز کا حصہ ہے، امام شافعی ؒ کے نزدیک تو فرض ہے۔ لیکن امام بخاری ؒ نے تشہد کے بعد دعاؤں کے ابواب شروع کیے ہیں، درود کے متعلق کوئی عنوان قائم نہیں کیا، حالانکہ اس سلسلے میں ان کے ہاں صحیح حدیث موجود ہے جسے انہوں نے کتاب الدعوات میں بیان کیا ہے، وہاں اس حدیث پر الصلاة علی النبي صلى الله عليه وسلم کا عنوان قائم کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الدعوات، حدیث:6357) اسی طرح امام ترمذی ؒ نے تشہد کے ابواب کے بعد رسول اللہ ﷺ پر درود کے متعلق کوئی عنوان قائم نہیں کیا۔ اس کے متعلق کوئی معقول توجیہ ہماری سمجھ میں نہیں آئی، شارحین بخاری نے بھی اس کے متعلق کچھ نہیں لکھا جبکہ امام مسلم، امام ابوداود، امام نسائی اور امام ابن ماجہ رحمہم اللہ نے اس کے متعلق تشہد کے بعد مستقل عنوانات قائم کیے ہیں، تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ صحيح مسلم، الصلاة، باب الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم بعد التشهد، باب: 17 ٭ سنن أبي داود، الصلاة، باب الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم بعد التشهد، باب: 178، 179 ٭ سنن النسائي، السهو، باب الأمر بالصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم، باب: 49 ٭ سنن ابن ماجه، إقامة الصلوات، باب الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم، باب: 25۔
(5) حضرت ابو مسعود انصاری سے مروی ایک حدیث ہے جس میں رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ جب ہم نماز کے اندر درود پڑھا کریں تو کس طرح پڑھیں تو رسول اللہ ﷺ نے درود ابراہیمی پڑھنے کی تلقین فرمائی۔ اس روایت کو امام احمد، امام بیہقی، امام حاکم، امام ابن خزیمہ اور دارقطنی نے بیان کیا ہے۔ ان سب نے اس روایت کی تصحیح بھی کی ہے۔ اس روایت سے نماز میں درود پڑھنے کا محل بھی متعین ہو جاتا ہے۔ ملاحظہ ہو: مسند احمد: 4؍ 119، و السنن الکبریٰ للبیہقی: 2؍ 147۔