تشریح:
(1) ان احادیث کی عنوان سے مطابقت دو طرح سے ہے: ٭ قرینہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مذکورہ استعاذہ تشہد کے بعد پڑھنا چاہیے جیسا کہ علامہ کرمانی ؒ لکھتے ہیں: نماز کے ہر مقام کے لیے ذکر و دعا مخصوص ہے تو مذکورہ استعاذہ تمام ارکان سے فراغت کے بعد ہو گا کیونکہ نماز کے چار مقام زیادہ اہم ہیں: قیام، رکوع، سجدہ اور تشہد۔ قیام میں قراءت ہوتی ہے، رکوع اور سجدہ کے لیے تسبیحات اور دعائیں مخصوص ہیں، تشہد کے لیے یہ استعاذہ ہے جو سلام سے قبل پڑھا جاتا ہے۔ ٭ احادیث ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں، چنانچہ حضرت عبداللہ بن طاؤس اپنے باپ طاؤس سے بیان کرتے ہیں کہ وہ تشہد کے بعد استعاذہ پڑھا کرتے تھے۔ پھر وہ حضرت عائشہ ؓ سے مرفوعاً بیان کرتے تھے۔ اس کے علاوہ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں کوئی آخری تشہد سے فارغ ہو جائے تو چار چیزوں سے پناہ مانگے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1324 (588))
(2) حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جب رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ نے تشہد کے بعد پسندیدہ دعا پڑھنے کا اختیار دیا ہے تو ممکن ہے کہ انہوں نے اسی وقت آپ سے سوال کیا ہو اور آپ نے مذکورہ دعا پڑھنے کی تلقین فرمائی ہو۔ (فتح الباري:414/2) ان ادعیہ کے علاوہ بھی دعائیں پڑھی جا سکتی ہیں جیسا کہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ تشہد کے بعد سلام پھیرنے سے قبل یہ دعا پڑھتے تھے: (اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَسْرَفْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ) ’’اے اللہ! تو میرے اگلے، پچھلے، پوشیدہ اور ظاہر تمام گناہ معاف کر دے اور جو میں نے زیادتی کی اور وہ گناہ جنہیں تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے وہ بھی معاف فرما۔ تو ہی آگے کرنے والا اور تو ہی پیچھے کرنے والا ہے، تیرے سوا کوئی بھی معبود برحق نہیں ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1821 (771))