تشریح:
(1) پہلے باب کی احادیث میں تشہد کے بعد دعا کرنے کا ذکر تھا، مذکورہ حدیث میں بھی دعا کرنے کا حکم ہے، اس سے وجوب دعا کا شبہ ہوتا ہے۔ امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان قائم کر کے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ دعا کرنا واجب نہیں، البتہ استعاذے کے متعلق بہت تاکید ہے کیونکہ بعض احادیث میں استعاذے کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا امر وارد ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی آخری تشہد سے فارغ ہو تو چار چیزوں سے اللہ کی پناہ طلب کرے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1324(588)) اہل ظاہر نے اسے واجب قرار دیا ہے۔ حضرت طاؤس نے اپنے بیٹے کو دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیا تھا کیونکہ اس نے تشہد کے بعد استعاذہ نہیں پڑھا تھا۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1330(590) ومسند أحمد:237/2) جمہور نے اسے مستحب قرار دیا ہے۔ امام بخاری نے اہل ظاہر کے موقف کی تردید کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ امام ابن منذر فرماتے ہیں کہ اگر حدیث میں یہ الفاظ ’’اس کے بعد جو دعا اسے پسند ہو پڑھے‘‘ نہ ہوتے تو میں بھی اس کے وجوب کے متعلق کہتا۔ (فتح الباري:414/2) ہمارے نزدیک دلائل کی رو سے دوسرے تشہد میں استعاذہ ضروری ہے اور امام ابن منذر ؒ کے مذکورہ بالا اشکال کا جواب یہ ہے کہ اختیار دعا تعوذ پڑھنے کے بعد ہے جیسا کہ بعض طرق میں اس کی صراحت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (أصل صفة صلاة النبي صلی اللہ علیه وسلم: 998/3) (2) علماء نے اس مسئلے میں بھی اختلاف کیا ہے کہ حسب منشا صرف ادعیہ ماثورہ ہی پڑھ سکتا ہے یا دنیا و آخرت کی جو بھی دعا چاہے پڑھ سکتا ہے؟ بعض حضرات کا موقف ہے کہ قرآن و سنت میں موجود ماثور و مسنون دعائیں ہی پڑھ سکتا ہے۔ ہمارے نزدیک بھی بہتر یہی ہے کہ پسندیدہ دعا کا انتخاب ادعیہ ماثورہ میں سے کرے کیونکہ بےشمار مسنون دعائیں ایسی موجود ہیں جو ہمارے جملہ مقاصد و مطالب پر مشتمل ہیں، ان کا پڑھنا باعث صد خیروبرکت ہو گا۔ جملہ مقاصد پر مشتمل درج ذیل جامع دعا ہی کافی ہے جو حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے منقول ہے۔ وہ اپنے شاگردوں کو بطور خاص اس کی تعلیم دیتے تھے اور اسے بہت جامع قرار دیتے تھے۔ وہ دعا یہ ہے: (اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُك مِنْ الْخَيْر كُلّه مَا عَلِمْت مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَم وَأَعُوذ بِك مِنْ الشَّرّ كُلّه مَا عَلِمْت مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَم اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُك مِنْ خَيْر مَا سَأَلَك مِنْهُ عِبَادك الصَّالِحُونَ وَأَعُوذ بِك مِنْ شَرّ مَا اِسْتَعَاذَك مِنْهُ عِبَادُك الصَّالِحُونَ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ، رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدتَّنَا عَلَىٰ رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ) (المصنف لعبد الرزاق:207/2 والمصنف لابن أبي شیبة:264/1)