صحیح بخاری
10. کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
143. باب: اس شخص کے بارے میں جو شخص نماز کی طاق رکعت (پہلی اور تیسری) میں تھوڑی دیر بیٹھے اور پھر اٹھ جائے۔
باب: اس شخص کے بارے میں جو شخص نماز کی طاق رکعت (پہلی اور تیسری) میں تھوڑی دیر بیٹھے اور پھر اٹھ جائے۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: Sitting Straight in a Witr payer (i.e., an odd Rak'a) and then getting up)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
835.
حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کو نماز پڑھتے دیکھا جب آپ طاق رکعت میں ہوتے تو اس وقت تک نہ اٹھتے جب تک سیدھے ہو کر اچھی طرح بیٹھ نہ لیتے۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے جلسۂ استراحت کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے جس کی صورت ایک طریق میں ان الفاظ کے ساتھ بیان ہوئی ہے: رسول اللہ ﷺ اللہ أکبر کہتے ہوئے (دوسرے سجدے سے) اٹھتے اور اپنا بایاں پاؤں موڑتے ہوئے اس پر بیٹھتے پھر (دوسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوتے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:730) (2) جلسۂ استراحت سے اٹھتے وقت دونوں ہاتھ زمین پر ٹیک کر اٹھنا چاہیے جیسا کہ اگلی حدیث میں وضاحت ہے۔ (3) بعض حضرات جلسۂ استراحت کو واجب کہتے ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے مسیئ الصلاة کو اس کا حکم دیا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ (صحیح البخاري، الاستئذان، حدیث:6251) مذکورہ حدیث کے راوی حضرت مالک بن حویرث ؓ کو اعمال صلاۃ بتانے کے بعد آپ ﷺ نے آخر میں فرمایا تھا: ’’نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:631) (4) امام ترمذی ؒ نے دوسرے سجدے سے فراغت کے بعد اٹھنے کا طریقہ بتانے کے لیے ایک مستقل عنوان قائم کیا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے حضرت مالک بن حویرث ؓ سے مروی مذکورہ حدیث صحیح بخاری ذکر کی، پھر فرمایا کہ اسی پر بعض اہل علم، امام اسحاق بن راہویہ اور ہمارے اصحاب کا عمل ہے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:287) پھر امام ترمذی ؒ نے ایک دوسرا باب قائم کیا ہے اور حدیث ابو ہریرہ ؓ بیان کی ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ دوسرے سجدے سے فراغت کے بعد جلسۂ استراحت کیے بغیر اپنے پاؤں کے پنجوں پر کھڑے ہوتے تھے اور اس پر لکھا ہے کہ اس پر بھی بعض اہل علم کا عمل ہے لیکن اس حدیث کے متعلق فرمایا کہ اس میں ایک راوی خالد بن ایاس ہے جو محدثین کے ہاں ضعیف ہے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:288) علامہ البانی ؒ نے بھی اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ (إرواءالغلیل، حدیث:362) (5) بعض حضرات جلسۂ استراحت کی بابت اختلاف کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر رسول اللہ ﷺ کی عادت ہمیشہ جلسۂ استراحت کرنے کی ہوتی تو ہر شخص اسے بیان کرتا جو طریقۂ نماز بیان کرتا ہے۔ اس کا جواب حافظ ابن حجر ؒ نے بایں الفاظ دیا ہے کہ متفق علیہ سنتوں کو ہر ایک نے مکمل طور پر بیان نہیں کیا بلکہ ان کے مجموعے کو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے لیا گیا ہے، اس لیے اس اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ (فتح الباري:391/2) عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ نماز میں سجدۂ تلاوت سے اٹھ کر امام اور مقتدی جلسۂ استراحت کے لیے نہیں بیٹھتے بلکہ سجدے سے سیدھے قیام کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں، حالانکہ اس مسئلے کے متعلق وارد احادیث کے عموم کا یہی تقاضا ہے کہ سجدۂ تلاوت کرنے کے بعد بھی جلسۂ استراحت کیا جائے۔ واللہ أعلم۔ (6) مخالفینِ جلسۂ استراحت صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے کچھ آثار بھی پیش کرتے ہیں لیکن مرفوع احادیث کے مقابلے میں ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ واللہ أعلم۔ (7) اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کمزوری یا بیماری کی وجہ سے جلسۂ استراحت کیا تھا۔ اسی طرح یہ قیاس بھی درست نہیں کہ نماز کا موضوع استراحت نہیں۔ یہ قیاس نص کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
813
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
823
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
823
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
823
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
طاق رکعات سے مراد پہلی اور تیسری رکعات ہیں۔ ان میں آخری سجدے سے فراغت کے بعد اچھی طرح سیدھے ہو کر بیٹھنے کے بعد کھڑے ہونے کو جلسہ استراحت کہتے ہیں۔ یہ مسنون ہے جیسا کہ آئندہ احادیث میں صراحت سے بیان ہو گا۔
حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کو نماز پڑھتے دیکھا جب آپ طاق رکعت میں ہوتے تو اس وقت تک نہ اٹھتے جب تک سیدھے ہو کر اچھی طرح بیٹھ نہ لیتے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے جلسۂ استراحت کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے جس کی صورت ایک طریق میں ان الفاظ کے ساتھ بیان ہوئی ہے: رسول اللہ ﷺ اللہ أکبر کہتے ہوئے (دوسرے سجدے سے) اٹھتے اور اپنا بایاں پاؤں موڑتے ہوئے اس پر بیٹھتے پھر (دوسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوتے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:730) (2) جلسۂ استراحت سے اٹھتے وقت دونوں ہاتھ زمین پر ٹیک کر اٹھنا چاہیے جیسا کہ اگلی حدیث میں وضاحت ہے۔ (3) بعض حضرات جلسۂ استراحت کو واجب کہتے ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے مسیئ الصلاة کو اس کا حکم دیا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ (صحیح البخاري، الاستئذان، حدیث:6251) مذکورہ حدیث کے راوی حضرت مالک بن حویرث ؓ کو اعمال صلاۃ بتانے کے بعد آپ ﷺ نے آخر میں فرمایا تھا: ’’نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:631) (4) امام ترمذی ؒ نے دوسرے سجدے سے فراغت کے بعد اٹھنے کا طریقہ بتانے کے لیے ایک مستقل عنوان قائم کیا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے حضرت مالک بن حویرث ؓ سے مروی مذکورہ حدیث صحیح بخاری ذکر کی، پھر فرمایا کہ اسی پر بعض اہل علم، امام اسحاق بن راہویہ اور ہمارے اصحاب کا عمل ہے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:287) پھر امام ترمذی ؒ نے ایک دوسرا باب قائم کیا ہے اور حدیث ابو ہریرہ ؓ بیان کی ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ دوسرے سجدے سے فراغت کے بعد جلسۂ استراحت کیے بغیر اپنے پاؤں کے پنجوں پر کھڑے ہوتے تھے اور اس پر لکھا ہے کہ اس پر بھی بعض اہل علم کا عمل ہے لیکن اس حدیث کے متعلق فرمایا کہ اس میں ایک راوی خالد بن ایاس ہے جو محدثین کے ہاں ضعیف ہے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:288) علامہ البانی ؒ نے بھی اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ (إرواءالغلیل، حدیث:362) (5) بعض حضرات جلسۂ استراحت کی بابت اختلاف کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر رسول اللہ ﷺ کی عادت ہمیشہ جلسۂ استراحت کرنے کی ہوتی تو ہر شخص اسے بیان کرتا جو طریقۂ نماز بیان کرتا ہے۔ اس کا جواب حافظ ابن حجر ؒ نے بایں الفاظ دیا ہے کہ متفق علیہ سنتوں کو ہر ایک نے مکمل طور پر بیان نہیں کیا بلکہ ان کے مجموعے کو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے لیا گیا ہے، اس لیے اس اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ (فتح الباري:391/2) عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ نماز میں سجدۂ تلاوت سے اٹھ کر امام اور مقتدی جلسۂ استراحت کے لیے نہیں بیٹھتے بلکہ سجدے سے سیدھے قیام کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں، حالانکہ اس مسئلے کے متعلق وارد احادیث کے عموم کا یہی تقاضا ہے کہ سجدۂ تلاوت کرنے کے بعد بھی جلسۂ استراحت کیا جائے۔ واللہ أعلم۔ (6) مخالفینِ جلسۂ استراحت صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے کچھ آثار بھی پیش کرتے ہیں لیکن مرفوع احادیث کے مقابلے میں ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ واللہ أعلم۔ (7) اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کمزوری یا بیماری کی وجہ سے جلسۂ استراحت کیا تھا۔ اسی طرح یہ قیاس بھی درست نہیں کہ نماز کا موضوع استراحت نہیں۔ یہ قیاس نص کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن صباح نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں ہشیم نے خبر دی، انہوں نے کہا ہمیں خالد حذاء نے خبر دی، ابوقلابہ سے، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے مالک بن حویرث لیثی ؓ نے خبر دی کہ آپ نے نبی کریم ﷺ کو نماز پڑھتے دیکھا۔ آپ ﷺ جب طاق رکعت میں ہوتے تواس وقت تک نہ اٹھتے جب تک تھوڑی دیر بیٹھ نہ لیتے۔
حدیث حاشیہ:
طاق رکعتوں کے بعد یعنی پہلی اور تیسری رکعت کے دوسرے سجدے سے جب اٹھے تو تھوڑی دیر بیٹھ کر پھر اٹھنا، اس کو جلسہ استراحت کہتے ہیں جو سنت صحیحہ سے ثابت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Malik bin Huwairith Al-Laithi (RA): I saw the Prophet (ﷺ) praying and in the odd Rakat, he used to sit for a moment before getting up.