تشریح:
(1) تعارض ادلہ اور قوتِ اختلاف کی بنا پر امام بخاری ؒ نے اختتام نماز کے موقع پر سلام کے متعلق فیصلہ نہیں کیا کہ یہ واجب ہے یا سنت۔ ممکن ہے کہ مذکورہ حدیث کے ان الفاظ سے وجوب ثابت کیا جائے کہ ’’جب آپ سلام پھیرتے تھے‘‘ کیونکہ اس سے رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ کا پتہ چلتا ہے۔ اور آپ نے فرمایا ہے: ’’اس طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘ اس کے علاوہ ایک اور حدیث ہے کہ نماز کو صرف سلام کے ساتھ ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري:417/2)
(2) ہمارے نزدیک نماز کے آخر میں سلام پھیرنا ایک رکن کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ حضرت علی ؓ سے مروی ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ نماز کو صرف سلام ہی سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:618) حدیث کے الفاظ تحليلها میں اضافت حصر کا فائدہ دیتی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ لا تحليل لها غيره، یعنی سلام کے علاوہ کسی چیز سے نماز کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسی پر مداومت اختیار فرمائی۔ حدیث میں ہے کہ آپ سلام کے ساتھ نماز ختم کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1110(498)) ان احادیث کے پیش نظر ان حضرات کا موقف محل نظر ہے جو کہتے ہیں کہ نمازی اپنے کسی بھی فعل کے ذریعے سے نماز سے نکل سکتا ہے۔ اس سلسلے میں یہ حضرات ایک حدیث پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب امام نماز مکمل کر کے بیٹھ جائے اور سلام پھیرنے سے قبل بے وضو ہو جائے تو اس کی نماز پوری ہو گی۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:617) اس کی سند میں عبدالرحمٰن بن زیاد افریقی ہے جس کے متعلق علامہ نووی ؒ فرماتے ہیں کہ حفاظ کے فیصلے کے مطابق یہ راوی ضعیف ہے۔ (المجموع للنووي:462/3)
(3) اس حدیث میں سلام کی تعداد کا بھی ذکر نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود اور سعد بن ابی وقاص ؓ سے مروی احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ سلام دو طرف، یعنی دائیں اور بائیں پھیرنا چاہیے۔ (فتح الباري:417/2) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی دائیں اور بائیں جانب اسی طرح سلام کہتے تھے: (السلام عليكم ورحمة الله، السلام عليكم ورحمة الله) (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:996) حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے بھی اس کے ہم معنی حدیث مروی ہے۔ (سنن الدارقطني:356/1) حضرت وائل بن حجر ؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی آپ دائیں طرف سلام پھیرتے تو کہتے "السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته" اور بائیں طرف پھیرتے تو کہتے "السلام علیکم ورحمة اللہ" یعنی صرف دائیں طرف والے سلام میں "وبرکاته" کا اضافہ کرتے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:997)
(4) تین سلام کے متعلق کوئی قابل اعتبار حدیث مروی نہیں ہے۔