Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: (Saying of the) Tashah-hud in the last Rak'a)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
843.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز میں یہ پڑھا کرتے تھے: ’’جبرائیل اور میکائیل پر سلام ہو۔ فلاں اور فلاں پر سلام ہو۔‘‘ تو رسول اللہ ﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ تو خود ہی سلام ہے، لہٰذا تم میں سے جب کوئی نماز پڑھے تو کہے: (التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ) ’’تمام قولی، بدنی اور مالی عبادات اللہ کے لیے خاص ہیں۔ اے نبی! آپ پر اللہ کی رحمت، سلامتی اور برکتیں ہوں، نیز ہم پر اور اللہ کے (دوسرے) نیک بندوں پر بھی سلامتی ہو۔۔‘‘ جب تم یہ دعائیہ کلمات کہو گے تو اللہ کے ہر نیک بندے کو پہنچ جائیں گے، خواہ وہ آسمان میں ہو یا زمین میں ۔۔ ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔‘‘
تشریح:
(1) یہ مختصر روایت ہے، مفصل روایت کے الفاظ یہ ہیں: ہم نماز میں کہا کرتے تھے کہ اللہ کے بندوں کی طرف سے اس پر سلامتی ہو، ان الفاظ پر رسول اللہ ﷺ نے تنبیہ فرمائی۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:835) اس روایت میں تشہد پڑھنے کے محل کی تعیین نہیں ہے دوسری روایت میں اس کی وضاحت ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم دو رکعت میں بیٹھو تو اس طرح کہو۔‘‘ (سنن النسائي، التطبیق، حدیث:1164) ابن خزیمہ کی روایت میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز کے وسط اور آخر کے لیے تشہد کی تعلیم دی۔ (صحیح ابن خزیمة:350/1،حدیث:708) صحیح بخاری میں ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے تشہد کے کلمات سکھائے جبکہ میرا ہاتھ آپ کے دونوں ہاتھوں کے درمیان تھا آپ نے مجھے یہ کلمات اس طرح سکھائے جیسے قرآن کی کوئی سورت سکھائی جاتی ہے۔ (صحیح البخاري، الاستئذان، حدیث:6265) روایات میں مروی صیغۂ امر سے معلوم ہوتا ہے کہ تشہد کا پڑھنا ضروری ہے بلکہ دارقطنی کی روایت میں وضاحت ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ تشہد فرض ہونے سے پہلے ہمیں معلوم نہیں تھا کہ اس میں کیا پڑھا جاتا ہے۔ (سنن الدارقطني:350/1) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ تشہد پڑھنا فرض ہے۔ (فتح الباري:404/2) (2) مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے تشہد کے مختلف الفاظ مروی ہیں، ان میں سے جو بھی یاد ہو پڑھ لیا جائے، تاہم حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی تشہد پڑھنا زیادہ بہتر ہے کیونکہ یہ صحیحین کی روایات سے ثابت ہے۔ تشہد کے الفاظ کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی تشہد (التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلیٰ عباد الله الصالحين، أشهد أن لا إله إلا الله و أشهد أن محمدًا عبده ورسوله)(صحیح البخاري، الأذان، حدیث:831) ٭ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی تشہد (التحيات المباركات الصلوات الطيبات لله، السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلیٰ عباد الله الصالحين، أشهد أن لا إله إلا الله و أشهد أن محمدًا رسول الله)(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:902 (403)) ٭ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی تشہد (التحيات لله، الزاكيات لله، الطيبات لله، السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلیٰ عباد الله الصالحين، أشهد أن لا إله إلا الله و أشهد أن محمدًا عبده ورسوله)(عمدة القاري:266/1) (3) تشہد پڑھتے وقت گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے کی دو صورتیں ہیں: ٭ دائیں ہاتھ کو دائیں اور بائیں ہاتھ کو بائیں گھٹنے پر رکھیں۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1307 (579)) ٭ دایاں ہاتھ اپنی دائیں اور بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھیں۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1308(579)) اس سے معلوم ہوا کہ نمازی کو اختیار ہے کہ وہ دوران تشہد ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھے یا رانوں پر رکھے۔ (4) آخری قعدہ میں تشہد کے بعد رسول اللہ ﷺ پر درود پڑھنا بھی نماز کا حصہ ہے، امام شافعی ؒ کے نزدیک تو فرض ہے۔ لیکن امام بخاری ؒ نے تشہد کے بعد دعاؤں کے ابواب شروع کیے ہیں، درود کے متعلق کوئی عنوان قائم نہیں کیا، حالانکہ اس سلسلے میں ان کے ہاں صحیح حدیث موجود ہے جسے انہوں نے کتاب الدعوات میں بیان کیا ہے، وہاں اس حدیث پر الصلاة علی النبي صلى الله عليه وسلم کا عنوان قائم کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الدعوات، حدیث:6357) اسی طرح امام ترمذی ؒ نے تشہد کے ابواب کے بعد رسول اللہ ﷺ پر درود کے متعلق کوئی عنوان قائم نہیں کیا۔ اس کے متعلق کوئی معقول توجیہ ہماری سمجھ میں نہیں آئی، شارحین بخاری نے بھی اس کے متعلق کچھ نہیں لکھا جبکہ امام مسلم، امام ابوداود، امام نسائی اور امام ابن ماجہ رحمہم اللہ نے اس کے متعلق تشہد کے بعد مستقل عنوانات قائم کیے ہیں، تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ صحيح مسلم، الصلاة، باب الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم بعد التشهد، باب: 17 ٭ سنن أبي داود، الصلاة، باب الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم بعد التشهد، باب: 178، 179 ٭ سنن النسائي، السهو، باب الأمر بالصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم، باب: 49 ٭ سنن ابن ماجه، إقامة الصلوات، باب الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم، باب: 25۔ (5) حضرت ابو مسعود انصاری سے مروی ایک حدیث ہے جس میں رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ جب ہم نماز کے اندر درود پڑھا کریں تو کس طرح پڑھیں تو رسول اللہ ﷺ نے درود ابراہیمی پڑھنے کی تلقین فرمائی۔ اس روایت کو امام احمد، امام بیہقی، امام حاکم، امام ابن خزیمہ اور دارقطنی نے بیان کیا ہے۔ ان سب نے اس روایت کی تصحیح بھی کی ہے۔ اس روایت سے نماز میں درود پڑھنے کا محل بھی متعین ہو جاتا ہے۔ ملاحظہ ہو: مسند احمد: 4؍ 119، و السنن الکبریٰ للبیہقی: 2؍ 147۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
821
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
831
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
831
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
831
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
اس سے پہلے درمیانی تشہد کا حکم بیان ہوا تھا۔ اب آخری تشہد کا بیان ہے جو پہلے سے زیادہ اہم اور ضروری ہے۔ اس طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے تینوں ابواب میں درجہ بدرجہ تشہد کے احکام بیان کیے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز میں یہ پڑھا کرتے تھے: ’’جبرائیل اور میکائیل پر سلام ہو۔ فلاں اور فلاں پر سلام ہو۔‘‘ تو رسول اللہ ﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ تو خود ہی سلام ہے، لہٰذا تم میں سے جب کوئی نماز پڑھے تو کہے: (التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ) ’’تمام قولی، بدنی اور مالی عبادات اللہ کے لیے خاص ہیں۔ اے نبی! آپ پر اللہ کی رحمت، سلامتی اور برکتیں ہوں، نیز ہم پر اور اللہ کے (دوسرے) نیک بندوں پر بھی سلامتی ہو۔۔‘‘ جب تم یہ دعائیہ کلمات کہو گے تو اللہ کے ہر نیک بندے کو پہنچ جائیں گے، خواہ وہ آسمان میں ہو یا زمین میں ۔۔ ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) یہ مختصر روایت ہے، مفصل روایت کے الفاظ یہ ہیں: ہم نماز میں کہا کرتے تھے کہ اللہ کے بندوں کی طرف سے اس پر سلامتی ہو، ان الفاظ پر رسول اللہ ﷺ نے تنبیہ فرمائی۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:835) اس روایت میں تشہد پڑھنے کے محل کی تعیین نہیں ہے دوسری روایت میں اس کی وضاحت ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم دو رکعت میں بیٹھو تو اس طرح کہو۔‘‘ (سنن النسائي، التطبیق، حدیث:1164) ابن خزیمہ کی روایت میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز کے وسط اور آخر کے لیے تشہد کی تعلیم دی۔ (صحیح ابن خزیمة:350/1،حدیث:708) صحیح بخاری میں ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے تشہد کے کلمات سکھائے جبکہ میرا ہاتھ آپ کے دونوں ہاتھوں کے درمیان تھا آپ نے مجھے یہ کلمات اس طرح سکھائے جیسے قرآن کی کوئی سورت سکھائی جاتی ہے۔ (صحیح البخاري، الاستئذان، حدیث:6265) روایات میں مروی صیغۂ امر سے معلوم ہوتا ہے کہ تشہد کا پڑھنا ضروری ہے بلکہ دارقطنی کی روایت میں وضاحت ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ تشہد فرض ہونے سے پہلے ہمیں معلوم نہیں تھا کہ اس میں کیا پڑھا جاتا ہے۔ (سنن الدارقطني:350/1) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ تشہد پڑھنا فرض ہے۔ (فتح الباري:404/2) (2) مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے تشہد کے مختلف الفاظ مروی ہیں، ان میں سے جو بھی یاد ہو پڑھ لیا جائے، تاہم حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی تشہد پڑھنا زیادہ بہتر ہے کیونکہ یہ صحیحین کی روایات سے ثابت ہے۔ تشہد کے الفاظ کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی تشہد (التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلیٰ عباد الله الصالحين، أشهد أن لا إله إلا الله و أشهد أن محمدًا عبده ورسوله)(صحیح البخاري، الأذان، حدیث:831) ٭ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی تشہد (التحيات المباركات الصلوات الطيبات لله، السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلیٰ عباد الله الصالحين، أشهد أن لا إله إلا الله و أشهد أن محمدًا رسول الله)(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:902 (403)) ٭ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی تشہد (التحيات لله، الزاكيات لله، الطيبات لله، السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلیٰ عباد الله الصالحين، أشهد أن لا إله إلا الله و أشهد أن محمدًا عبده ورسوله)(عمدة القاري:266/1) (3) تشہد پڑھتے وقت گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے کی دو صورتیں ہیں: ٭ دائیں ہاتھ کو دائیں اور بائیں ہاتھ کو بائیں گھٹنے پر رکھیں۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1307 (579)) ٭ دایاں ہاتھ اپنی دائیں اور بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھیں۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1308(579)) اس سے معلوم ہوا کہ نمازی کو اختیار ہے کہ وہ دوران تشہد ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھے یا رانوں پر رکھے۔ (4) آخری قعدہ میں تشہد کے بعد رسول اللہ ﷺ پر درود پڑھنا بھی نماز کا حصہ ہے، امام شافعی ؒ کے نزدیک تو فرض ہے۔ لیکن امام بخاری ؒ نے تشہد کے بعد دعاؤں کے ابواب شروع کیے ہیں، درود کے متعلق کوئی عنوان قائم نہیں کیا، حالانکہ اس سلسلے میں ان کے ہاں صحیح حدیث موجود ہے جسے انہوں نے کتاب الدعوات میں بیان کیا ہے، وہاں اس حدیث پر الصلاة علی النبي صلى الله عليه وسلم کا عنوان قائم کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الدعوات، حدیث:6357) اسی طرح امام ترمذی ؒ نے تشہد کے ابواب کے بعد رسول اللہ ﷺ پر درود کے متعلق کوئی عنوان قائم نہیں کیا۔ اس کے متعلق کوئی معقول توجیہ ہماری سمجھ میں نہیں آئی، شارحین بخاری نے بھی اس کے متعلق کچھ نہیں لکھا جبکہ امام مسلم، امام ابوداود، امام نسائی اور امام ابن ماجہ رحمہم اللہ نے اس کے متعلق تشہد کے بعد مستقل عنوانات قائم کیے ہیں، تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ صحيح مسلم، الصلاة، باب الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم بعد التشهد، باب: 17 ٭ سنن أبي داود، الصلاة، باب الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم بعد التشهد، باب: 178، 179 ٭ سنن النسائي، السهو، باب الأمر بالصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم، باب: 49 ٭ سنن ابن ماجه، إقامة الصلوات، باب الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم، باب: 25۔ (5) حضرت ابو مسعود انصاری سے مروی ایک حدیث ہے جس میں رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ جب ہم نماز کے اندر درود پڑھا کریں تو کس طرح پڑھیں تو رسول اللہ ﷺ نے درود ابراہیمی پڑھنے کی تلقین فرمائی۔ اس روایت کو امام احمد، امام بیہقی، امام حاکم، امام ابن خزیمہ اور دارقطنی نے بیان کیا ہے۔ ان سب نے اس روایت کی تصحیح بھی کی ہے۔ اس روایت سے نماز میں درود پڑھنے کا محل بھی متعین ہو جاتا ہے۔ ملاحظہ ہو: مسند احمد: 4؍ 119، و السنن الکبریٰ للبیہقی: 2؍ 147۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے شقیق بن سلمہ سے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ جب ہم نبی کریم ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے تو کہتے (ترجمہ) سلام ہو جبریل اور میکائیل پر سلام ہو فلاں اور فلاں پر (اللہ پر سلام) نبی کریم ﷺ ایک روز ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اللہ تو خود ’’سلام ‘‘ ہے۔ (تم اللہ کو کیا سلام کرتے ہو) اس لیے جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو یہ کہے (ترجمہ) تمام آداب بندگی، تمام عبادات اور تمام بہترین تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ آپ پر سلام ہو اے نبی اور اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں ہم پر سلام اور اللہ کے تمام صالح بن دوں پر سلام۔ جب تم یہ کہو گے تو تمہارا سلام آسمان وزمین میں جہاں کوئی اللہ کا نیک بن دہ ہے اس کو پہنچ جائے گا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔
حدیث حاشیہ:
یہ قعدہ کی دعا ہے جسے تشہد کہتے ہیں۔ بندہ پہلے کہتا ہے کہ تحیات۔ صلوات اور طیبات اللہ تعالی کے لیے ہیں۔ یہ تین الفاظ قول وفعل کے تمام محاسن کو شامل ہیں یعنی تمام خیر اور بھلائی خداوند قدوس کے لیے ثابت ہے اور اسی کی طرف سے ہے۔ پھر نبی کریم ﷺ پر سلام بھیجا گیا اور اس میں خطاب کی ضمیر اختیار کی گئی ہے کیوں کہ صحابہ کو یہ دعا سکھائی گئی تھی اور آپ اس وقت موجود تھے۔ اب جن الفاظ کے ساتھ ہمیں یہ دعا پہنچی ہے اسی طرح پڑھنی چاہیے۔ (تفہیم البخاری) سلام در حقیقت دعا ہے یعنی تم سلامت رہو اللہ پاک کو ایسی دعا دینے کی حاجت نہیں کیونکہ وہ ہرایک آفت اورتغیر سے پاک ہے وہ ازلی ابدی ہے اس میں کوئی عیب اور نقص نہیں وہ ساری کائنات کو خود سلامتی بخشنے والا اور سب کی پرورش کرنے والا ہے اسی لیے اس کا نام سلام ہوااسی دعا میں لفظ التحیات اور صلوات اور طیبات وارد ہوتے ہیں تحیات کے معنی سلامتی بقا عظمت ہر نقص سے پاکی ہر قسم کی تعظیم مرادہے یہ عبادات قولی پر صلوات عبادات فعلی پر اورطیبات عبادات مالی پربولاگیا ہے۔ (فتح الباری) پس یہ تینوںقسم کی عبادات ایک اللہ ہی کے لیے مخصوص ہیں جو لوگ ان عبادات میں کسی غیر اللہ کو شریک کرتے ہیں وہ فرشتے ہوں یا انسان یا اور کچھ، وہ خالق کا حق چھین کر جو مخلوق کو دیتے ہیں۔ یہی وہ ظلم عظیم ہے جسے قرآن مجید میں شرک کہا گیا ہے۔ جس کے متعلق اللہ کا ارشاد ہے:﴿ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ﴾یعنی شرک کرنے والوں پر جنت حرام ہے اور وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ عبادات قولی میں زبان سے اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے اس کا نام لینا، عبادات فعلی میں رکوع سجدہ قیام، عبادات مالی میں ہر قسم کا صدقہ خیرات نیاز نذر وغیرہ وغیرہ مراد ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Shaqlq bin Salama (RA): 'Abdullah said, "Whenever we prayed behind the Prophet (ﷺ) we used to recite (in sitting) 'Peace be on Gabriel (ؑ), Michael, peace be on so and so. Once Allah's Apostle (ﷺ) looked back at us and said, 'Allah Himself is As-Salam (Peace), and if anyone of you prays then he should say, At-Tahiyatu lil-lahi wassalawatu wat-taiyibatu. AsSalamu 'alalika aiyuha-n-Nabiyu wa rahmatu-l-lahi wa barakatuhu. As-Salam alaina wa ala ibadil-lah is-salihin. (All the compliments, prayers and good things are due to Allah: peace be on you, O Prophet (ﷺ) and Allah's mercy and blessings be on you. Peace be on us an on the true pious slaves of Allah). (If you say that, it will be for all the slaves in the heaven and the earth). Ash-hadu an la-ilaha illa-l-lahu wa ash-hadu anna Muhammadan 'abduhu wa Rasuluhu. (I testify that none has the right to be worshipped but Allah and I also testify that Muhammad is His slave and His Apostle) (ﷺ) ."