تشریح:
(1) مختلف روایات سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز سے فراغت کے بعد دائیں طرف، کبھی بائیں طرف اور کبھی بالکل مقتدیوں کی طرف منہ کر کے بیٹھتے، یعنی تینوں حالتیں رسول اللہ ﷺ کے بیٹھنے پر محمول ہیں۔ بعض حضرات کی رائے ہے کہ دائیں، بائیں طرف پھرنے کی روایات گھر جانے یا کوئی اور کام کرنے پر محمول ہیں اور لوگوں کی طرف منہ کرنے کی روایت بیٹھنے پر محمول ہے۔ اس اختلاف کی وجہ سے محدثین نے انصراف و استقبال وغیرہ کے متعلق مستقل عنوان قائم کیے ہیں لیکن ہمارے نزدیک یہ موقف صحیح نہیں ہے کیونکہ اگر دائیں بائیں جانب جانے کی بات ہے تو جدھر ضرورت ہو گی ادھر چلا جائے گا اس میں دائیں یا بائیں پھرنے کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ کا یہی مقصود معلوم ہوتا ہے کہ امام کا مقتدیوں کی طرف منہ کرنا، اس کے تین انداز ہیں: دائیں یا بائیں یا بالکل مقتدیوں کی طرف منہ کر کے بیٹھنا۔ اگر تو لوگوں کو تعلیم دینا یا وعظ کرنا مقصود ہوتا تو لوگوں کی طرف منہ کر کے خطاب کرتے، بصورت دیگر دائیں یا بائیں منہ کر کے اذکار وغیرہ میں مصروف رہتے۔ واللہ أعلم۔ (2) ستاروں کی تاثیر سعادت و نحوست کے اعتبار سے کچھ بھی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پر مصیبت کے وقت کہا جاتا ہے کہ میرا ستارہ گردش میں ہے۔ ایسا عقیدہ رکھنا کفر ہے۔ اسی طرح ان کی ذاتی تاثیر کا عقیدہ رکھنا بھی ایمان کے منافی ہے، البتہ تحت الاسباب ان کے طبعی اثرات ضرور ہیں، مثلا: موسموں میں تبدیلی، گرمی و سردی کا ہونا، سمندر میں اتار چڑھاؤ کا آنا، جسے جوار بھاٹا یا مدوجزر کہا جاتا ہے۔ بہرحال اشیاء میں طبعی آثار و خواص تو ہیں لیکن ان کی تاثیر اذنِ الٰہی پر موقوف ہے جیسا کہ آگ کی تاثیر جلانا ہے لیکن اللہ کا اذن نہ ہونے کی وجہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ نہ جلا سکی بلکہ ان کے لیے جنت و گلزار بن گئی، اس لیے کہنے والے کی نیت کو دیکھا جائے گا اگر وہ ستاروں کے متعلق ذاتی طور پر بارش برسانے کا عقیدہ رکھتا ہے تو بلاشبہ وہ دین اسلام سے خارج ہے اور اگر ان کی تاثیر بطور عادت اور اذن الٰہی پر موقوف مانتا ہے تو کافر نہیں ہو گا۔ واللہ أعلم۔