صحیح بخاری
10. کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
151. باب: تشہد کے بعد جو دعا اختیار کی جاتی ہے اس کا بیان اور یہ بیان کہ اس دعا کا پڑھنا کچھ واجب نہیں ہے۔
باب: تشہد کے بعد جو دعا اختیار کی جاتی ہے اس کا بیان اور یہ بیان کہ اس دعا کا پڑھنا کچھ واجب نہیں ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: What optional invocation may be selected after the Tashah-hud, and it is not obligatory)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
847.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب ہم نبی ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے تو یوں کہتے: اللہ کے بندوں کی طرف سے اس پر سلامتی ہو۔ فلاں اور فلاں پر بھی سلامتی ہو۔ تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ایسا نہ کہو کہ اللہ پر سلامتی ہو، اللہ تو خود سراپا سلامتی ہے، البتہ یوں کہا کرو: (التحيات لله والصلوات ۔۔۔ محمدا عبده ورسوله) ‘‘تمام قولی، بدنی اور مالی عبادات صرف اللہ کے لیے ہیں۔ سلامتی ہو آپ پر اے اللہ کے نبی! اس کی رحمت اور برکات کا نزول ہو۔ ہم پر بھی سلامتی ہو اور اللہ کے نیک بندوں پر بھی ۔۔ جب تم ایسا کہو گے تو یہ سلامتی اللہ کے ہر اس بندے کو پہنچ جائے گی جو آسمانوں میں ہے یا زمین و آسمان کے درمیان ہے ۔۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔’’ اس کے بعد جو دعا اسے پسند ہو پڑھے۔‘‘
تشریح:
(1) پہلے باب کی احادیث میں تشہد کے بعد دعا کرنے کا ذکر تھا، مذکورہ حدیث میں بھی دعا کرنے کا حکم ہے، اس سے وجوب دعا کا شبہ ہوتا ہے۔ امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان قائم کر کے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ دعا کرنا واجب نہیں، البتہ استعاذے کے متعلق بہت تاکید ہے کیونکہ بعض احادیث میں استعاذے کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا امر وارد ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی آخری تشہد سے فارغ ہو تو چار چیزوں سے اللہ کی پناہ طلب کرے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1324(588)) اہل ظاہر نے اسے واجب قرار دیا ہے۔ حضرت طاؤس نے اپنے بیٹے کو دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیا تھا کیونکہ اس نے تشہد کے بعد استعاذہ نہیں پڑھا تھا۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1330(590) ومسند أحمد:237/2) جمہور نے اسے مستحب قرار دیا ہے۔ امام بخاری نے اہل ظاہر کے موقف کی تردید کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ امام ابن منذر فرماتے ہیں کہ اگر حدیث میں یہ الفاظ ’’اس کے بعد جو دعا اسے پسند ہو پڑھے‘‘ نہ ہوتے تو میں بھی اس کے وجوب کے متعلق کہتا۔ (فتح الباري:414/2) ہمارے نزدیک دلائل کی رو سے دوسرے تشہد میں استعاذہ ضروری ہے اور امام ابن منذر ؒ کے مذکورہ بالا اشکال کا جواب یہ ہے کہ اختیار دعا تعوذ پڑھنے کے بعد ہے جیسا کہ بعض طرق میں اس کی صراحت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (أصل صفة صلاة النبي صلی اللہ علیه وسلم: 998/3) (2) علماء نے اس مسئلے میں بھی اختلاف کیا ہے کہ حسب منشا صرف ادعیہ ماثورہ ہی پڑھ سکتا ہے یا دنیا و آخرت کی جو بھی دعا چاہے پڑھ سکتا ہے؟ بعض حضرات کا موقف ہے کہ قرآن و سنت میں موجود ماثور و مسنون دعائیں ہی پڑھ سکتا ہے۔ ہمارے نزدیک بھی بہتر یہی ہے کہ پسندیدہ دعا کا انتخاب ادعیہ ماثورہ میں سے کرے کیونکہ بےشمار مسنون دعائیں ایسی موجود ہیں جو ہمارے جملہ مقاصد و مطالب پر مشتمل ہیں، ان کا پڑھنا باعث صد خیروبرکت ہو گا۔ جملہ مقاصد پر مشتمل درج ذیل جامع دعا ہی کافی ہے جو حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے منقول ہے۔ وہ اپنے شاگردوں کو بطور خاص اس کی تعلیم دیتے تھے اور اسے بہت جامع قرار دیتے تھے۔ وہ دعا یہ ہے: (اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُك مِنْ الْخَيْر كُلّه مَا عَلِمْت مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَم وَأَعُوذ بِك مِنْ الشَّرّ كُلّه مَا عَلِمْت مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَم اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُك مِنْ خَيْر مَا سَأَلَك مِنْهُ عِبَادك الصَّالِحُونَ وَأَعُوذ بِك مِنْ شَرّ مَا اِسْتَعَاذَك مِنْهُ عِبَادُك الصَّالِحُونَ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ، رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدتَّنَا عَلَىٰ رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ)(المصنف لعبد الرزاق:207/2 والمصنف لابن أبي شیبة:264/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
825
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
835
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
835
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
835
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب ہم نبی ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے تو یوں کہتے: اللہ کے بندوں کی طرف سے اس پر سلامتی ہو۔ فلاں اور فلاں پر بھی سلامتی ہو۔ تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ایسا نہ کہو کہ اللہ پر سلامتی ہو، اللہ تو خود سراپا سلامتی ہے، البتہ یوں کہا کرو: (التحيات لله والصلوات ۔۔۔ محمدا عبده ورسوله) ‘‘تمام قولی، بدنی اور مالی عبادات صرف اللہ کے لیے ہیں۔ سلامتی ہو آپ پر اے اللہ کے نبی! اس کی رحمت اور برکات کا نزول ہو۔ ہم پر بھی سلامتی ہو اور اللہ کے نیک بندوں پر بھی ۔۔ جب تم ایسا کہو گے تو یہ سلامتی اللہ کے ہر اس بندے کو پہنچ جائے گی جو آسمانوں میں ہے یا زمین و آسمان کے درمیان ہے ۔۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔’’ اس کے بعد جو دعا اسے پسند ہو پڑھے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) پہلے باب کی احادیث میں تشہد کے بعد دعا کرنے کا ذکر تھا، مذکورہ حدیث میں بھی دعا کرنے کا حکم ہے، اس سے وجوب دعا کا شبہ ہوتا ہے۔ امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان قائم کر کے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ دعا کرنا واجب نہیں، البتہ استعاذے کے متعلق بہت تاکید ہے کیونکہ بعض احادیث میں استعاذے کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا امر وارد ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی آخری تشہد سے فارغ ہو تو چار چیزوں سے اللہ کی پناہ طلب کرے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1324(588)) اہل ظاہر نے اسے واجب قرار دیا ہے۔ حضرت طاؤس نے اپنے بیٹے کو دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیا تھا کیونکہ اس نے تشہد کے بعد استعاذہ نہیں پڑھا تھا۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1330(590) ومسند أحمد:237/2) جمہور نے اسے مستحب قرار دیا ہے۔ امام بخاری نے اہل ظاہر کے موقف کی تردید کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ امام ابن منذر فرماتے ہیں کہ اگر حدیث میں یہ الفاظ ’’اس کے بعد جو دعا اسے پسند ہو پڑھے‘‘ نہ ہوتے تو میں بھی اس کے وجوب کے متعلق کہتا۔ (فتح الباري:414/2) ہمارے نزدیک دلائل کی رو سے دوسرے تشہد میں استعاذہ ضروری ہے اور امام ابن منذر ؒ کے مذکورہ بالا اشکال کا جواب یہ ہے کہ اختیار دعا تعوذ پڑھنے کے بعد ہے جیسا کہ بعض طرق میں اس کی صراحت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (أصل صفة صلاة النبي صلی اللہ علیه وسلم: 998/3) (2) علماء نے اس مسئلے میں بھی اختلاف کیا ہے کہ حسب منشا صرف ادعیہ ماثورہ ہی پڑھ سکتا ہے یا دنیا و آخرت کی جو بھی دعا چاہے پڑھ سکتا ہے؟ بعض حضرات کا موقف ہے کہ قرآن و سنت میں موجود ماثور و مسنون دعائیں ہی پڑھ سکتا ہے۔ ہمارے نزدیک بھی بہتر یہی ہے کہ پسندیدہ دعا کا انتخاب ادعیہ ماثورہ میں سے کرے کیونکہ بےشمار مسنون دعائیں ایسی موجود ہیں جو ہمارے جملہ مقاصد و مطالب پر مشتمل ہیں، ان کا پڑھنا باعث صد خیروبرکت ہو گا۔ جملہ مقاصد پر مشتمل درج ذیل جامع دعا ہی کافی ہے جو حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے منقول ہے۔ وہ اپنے شاگردوں کو بطور خاص اس کی تعلیم دیتے تھے اور اسے بہت جامع قرار دیتے تھے۔ وہ دعا یہ ہے: (اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُك مِنْ الْخَيْر كُلّه مَا عَلِمْت مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَم وَأَعُوذ بِك مِنْ الشَّرّ كُلّه مَا عَلِمْت مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَم اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُك مِنْ خَيْر مَا سَأَلَك مِنْهُ عِبَادك الصَّالِحُونَ وَأَعُوذ بِك مِنْ شَرّ مَا اِسْتَعَاذَك مِنْهُ عِبَادُك الصَّالِحُونَ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ، رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدتَّنَا عَلَىٰ رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ)(المصنف لعبد الرزاق:207/2 والمصنف لابن أبي شیبة:264/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحیٰ بن سعید قطان نے اعمش سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے شقیق نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے بیان کیا، انہوں نے فرمایا کہ ( پہلے ) جب ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تو ہم ( قعدہ میں ) یہ کہا کرتے تھے کہ اس کے بن دوں کی طرف سے اللہ پرسلام ہو اور فلاں پر اور فلاں پر سلام ہو۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ نہ کہو کہ “ اللہ پر سلام ہو ” کیوں کہ اللہ تو خود سلام ہے۔ بلکہ یہ کہو ( ترجمہ ) آداب بن دگان اور تمام عبادات اور تمام پاکیزہ خیراتیں اللہ ہی کے لیے ہیں آپ پر اے نبی سلام ہو اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں ہم پر اور اللہ کے صالح بن دوں پر سلام ہو اور جب تم یہ کہو گے تو آسمان پر خدا کے تمام بن دوں کو پہنچے گا آپ نے فرمایا کہ آسمان اور زمین کے درمیان تمام بن دوں کو پہنچے گا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمداس کے بن دے اور رسول ہیں۔ اس کے بعد دعا کا اختیار ہے جو اسے پسند ہو کرے۔
حدیث حاشیہ:
یہ لفظ عام ہے دین اور دنیا کے متعلق ہر ایک قسم کی دعا مانگ سکتا ہے اور مجھ کو حیرت ہے کہ حنفیہ نے یہ کیسے کہا ہے کہ فلاں قسم کی دعا نماز میں مانگ سکتا ہے فلاں قسم کی نہیں مانگ سکتا۔ نماز میں بندے کو اپنے مالک کی بارگاہ میں بار یابی کا شرف حاصل ہوتا ہے پھر اپنی اپنی لیاقت اور حوصلے کے موافق ہر بندہ اپنے مالک سے معروضہ کرتا ہے اور مالک اپنے کرم اور رحم سے عنایت فر ماتا ہے اگر صرف دین کے متعلق ہی دعائیں مانگنا نماز میں جائز ہوں اور دعائیں جائز نہ ہوں تو دوسرے مطلب کس سے مانگے صحیح حدیث میں ہے کہ اللہ سے اپنی سب حاجتیں مانگو یہاں تک کہ جوتی کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے یا ہانڈی میں نمک نہ ہو تو بھی اللہ سے کہو۔ ( مولانا وحید الزماں مرحوم ) مترجم کا کہناہے کہ ادعیہ ماثورہ ہمارے بیشتر مقاصد ومطالب پر مشتمل موجود ہیں ان کا پڑھنا موجب صد برکت ہوگا حدیث نمبر8337,832و 834 میں جامع دعائیں اور آخر میں سب مقاصد پر مشتمل پاکیزہ یہ دعا کافی ہے: ﴿رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾