تشریح:
(1) اس حدیث میں بھی امام کا مقتدیوں کی طرف منہ کر کے بیٹھنا اور انہیں وعظ کرنا مذکور ہے۔ امام بخاری ؒ کا مقصود بھی یہی ہے کہ نماز سے فراغت کے بعد امام کو چاہیے کہ وہ مقتدیوں کی طرف منہ کر کے بیٹھے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب نمازی، نماز باجماعت کے انتظار میں ہوتا ہے تو اس کے انتظار کرنے پر اسے نماز ہی کا ثواب ملتا ہے جیسا کہ دیگر احادیث میں اس کی صراحت ہے، چنانچہ امام بخاری ؒ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (من جلس في المسجد ينتظر الصلاة۔۔۔) ’’جو شخص مسجد میں نماز کے انتظار کے لیے بیٹھتا ہے ۔۔‘‘ (صحیح البخاري، الأذان، باب:36) پھر حدیث بیان کی ہے کہ جو شخص نماز کے انتظار میں ہو اسے نماز ہی کا ثواب دیا جاتا ہے، گویا وہ نماز میں ہے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:659) لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسجد میں صرف نماز کے انتظار کے لیے بیٹھے، اسے کوئی ذاتی غرض و مقصود نہ ہو کیونکہ حدیث میں ہے کہ مذکورہ اعزاز کا حقدار صرف وہ شخص ہے جسے اپنے گھر سے صرف نماز روکے ہوئے ہو۔ اگر دل میں محبت اور اخلاص ہے تو مسجد سے باہر جاتے وقت اگر اپنے دل اور توجہ کو مسجد سے وابستہ کر دیتا ہے تو قیامت کے دن اسے اللہ تعالیٰ کے عرش کا سایہ نصیب ہو گا۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:660 وصحیح مسلم، الزکاة، حدیث:2380(1031))