تشریح:
(1) حدیث بیان کرنے کے بعد امام بخاری ؒ نے سندوں کا اختلاف بیان کیا ہے تاکہ ہند کی نسبت کا اختلاف بیان کیا جائے۔ کسی راوی نے اسے فراسیہ اور کسی نے اسے قرشیہ قرار دیا ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس شخص کی تردید کی ہے جو قرشیہ کو تصحیف قرار دیتا ہے کیونکہ لیث کی روایت میں اس کے قرشیہ ہونے کی تصریح ہے لیکن یہ روایت موصول نہیں۔ بہرحال ہند فراسیہ یا قرشیہ نے براہ راست رسول اللہ ﷺ سے کچھ نہیں سنا۔ (2) امام بخاری ؒ کا ان احادیث کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جہاں فرض پڑھے گئے ہوں وہاں نفل وغیرہ بھی پڑھے جا سکتے ہیں، تاہم بہتر ہے کہ دیگر صحیح روایات کے پیش نظر ذرا جگہ تبدیل کر لی جائے یا کچھ گفتگو کر لی جائے تاکہ فرض اور نفل نماز میں اختلاط کا وہم نہ ہو۔ واللہ أعلم۔ (3) اس حدیث سے درج ذیل مسائل معلوم ہوتے ہیں: ٭ امام کو چاہیے کہ وہ مقتدی حضرات کا پورا پورا خیال رکھے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ خواتین کا خیال رکھتے تھے۔ ٭ ہر اس سبب سے اجتناب کرنا چاہیے جو انسان کو کسی ممنوع کام تک پہنچا دینے والا ہو۔ ٭ ایسے مقامات سے احتراز کرنا چاہیے جہاں انسان پر تہمت یا کوئی الزام لگنے کا خطرہ ہو۔ ٭ راستے میں مردوں کا عورتوں سے اختلاط شریعت کی نظر میں انتہائی مکروہ فعل ہے۔ ٭ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں عورتیں بھی نماز باجماعت ادا کرتی تھیں۔ (فتح الباري:434/2)