Sahi-Bukhari
10. Call to Prayers (Adhaan)
155. Chapter: Whoever did not say (a Taslim) in addition to the Taslim of the Imam but thought that Taslim of the Salat (prayer) was sufficient
باب: اس بارے میں کہ امام کو سلام کرنے کی ضرورت نہیں، صرف نماز کے دو سلام کافی ہیں۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: Whoever did not say (a Taslim) in addition to the Taslim of the Imam but thought that Taslim of the Salat (prayer) was sufficient)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
852.
حضرت محمود بن ربیع ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا میں نے حضرت عتبان بن مالک ؓ سے سنا جو بنو سالم قبیلے کے ایک فرد تھے، انہوں نے فرمایا: میں اپنی قوم بنو سالم کو نماز پڑھاتا تھا، ایک دفعہ میں نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں اپنی بینائی میں کمزوری محسوس کرتا ہوں اور یہ سیلابوں کا پانی میرے اور میری قوم کی مسجد کے درمیان حائل ہو جاتا ہے، لہٰذا میری خواہش ہے کہ آپ میرے گھر میں کسی جگہ پر نماز پڑھیں تاکہ میں اسے مسجد بناؤں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’میں إن شاءاللہ ایسا کروں گا۔‘‘ چنانچہ ایک دن دھوپ چڑھے رسول اللہ ﷺ حضرت ابوبکر ؓ کی معیت میں تشریف لائے، آپ نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو میں نے آپ کو اجازت دے دی۔ آپ نے بیٹھنے سے پہلے ہی فرمایا: ’’تم گھر کے کس حصے میں میرا نماز پڑھنا پسند کرتے ہو؟‘‘ انہوں نے ایک مقام کی طرف اشارہ کیا جہاں وہ اپنے لیے نماز پڑھنا پسند کرتے تھے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کھڑے ہو گئے اور ہم لوگوں نے بھی آپ کے پیچھے صف بنا لی۔ اس کے بعد آپ نے سلام پھیرا اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ سلام پھیر دیا۔
تشریح:
(1) بعض فقہاء کا موقف ہے کہ نماز کے آخر میں صرف ایک مرتبہ سلام کہا جائے جیسا کہ سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز کے آخر میں صرف ایک مرتبہ السلام علیکم کہتے تھے۔ (شرح معاني الآثار:266/1، والاستذکار:291/4) لیکن اکثر فقہاء و محدثین نے اس موقف کو اختیار کیا ہے کہ نماز کے آخر میں دو دفعہ سلام کہا جائے ایک دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب، اسے سلام نماز بھی کہتے ہیں۔ تقریبا بیس صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے دو دفعہ سلام کہنا مروی ہے اور ایک دفعہ سلام کہنے کی روایت وہم پر مبنی ہے کیونکہ حضرت ابن مبارک نے اس روایت کو دو سلام سے بیان کیا ہے۔ (عمدة القاري:601/4) ہمارے نزدیک راجح بات یہی ہے کہ ایک سلام پر اکتفا بھی جائز ہے، اگرچہ اکثر و بیشتر آپ کی عادت مبارکہ دو سلام کی تھی، اس لیے اسے وہم قرار دینا محل نظر ہے، نیز یہ سلام سامنے منہ کر کے ہی پھیرنا ہے۔ دیکھیے: (أصل صفة صلاة النبي صلی اللہ علیه وسلم: 1030/3) بعض روایات میں ہے کہ امام کو بھی سلام کہنا چاہیے جیسا کہ حضرت سمرہ بن جندب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں امام کو سلام کہنے کا حکم دیا تھا۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1001) اس کی توجیہ بعض شارحین نے بایں طور فرمائی ہے کہ ایک سلام دائیں جانب، دوسرا بائیں جانب والوں کو، اور تیرے سامنے امام کو کیا جائے۔ امام بخاری ؒ نے اس موقف کی تردید فرمائی ہے کیونکہ امام کو سلام کہنے کا مطلب ہے کہ جو شخص دائیں جانب ہے وہ بائیں سلام میں اور جو بائیں جانب ہے وہ دائیں سلام میں امام کے لیے سلام کی نیت کرے اور جو امام کے پیچھے ہے وہ پہلے سلام میں امام کی نیت کرے۔ (2) حدیث کی عنوان سے مطابقت اسی طرح ہے کہ روایت کے مطابق پہلے رسول اللہ ﷺ نے سلام پھیرا، پھر قوم نے بھی سلام پھیر دیا۔ اس میں تیسرے سلام کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ (عمدة القاري:602/4) حافظ ابن حجر ؒ نے بھی لکھا ہے کہ حدیث کے ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ کی متابعت میں آپ کے سلام جیسا سلام کیا اور آپ کا سلام ایک تھا جس سے نماز ختم کی گئی یا اس کے ساتھ دوسرا سلام بھی تھا، تیسرے سلام کے لیے دلیل درکار ہے جیسا کہ بعض مالکی حضرات کا موقف ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مؤخر الذکر موقف کی تردید کے لیے عنوان بندی کی ہے اور حدیث پیش کی ہے۔ (فتح الباري:418/2)واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
829.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
840
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
840
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
840
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
حضرت محمود بن ربیع ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا میں نے حضرت عتبان بن مالک ؓ سے سنا جو بنو سالم قبیلے کے ایک فرد تھے، انہوں نے فرمایا: میں اپنی قوم بنو سالم کو نماز پڑھاتا تھا، ایک دفعہ میں نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں اپنی بینائی میں کمزوری محسوس کرتا ہوں اور یہ سیلابوں کا پانی میرے اور میری قوم کی مسجد کے درمیان حائل ہو جاتا ہے، لہٰذا میری خواہش ہے کہ آپ میرے گھر میں کسی جگہ پر نماز پڑھیں تاکہ میں اسے مسجد بناؤں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’میں إن شاءاللہ ایسا کروں گا۔‘‘ چنانچہ ایک دن دھوپ چڑھے رسول اللہ ﷺ حضرت ابوبکر ؓ کی معیت میں تشریف لائے، آپ نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو میں نے آپ کو اجازت دے دی۔ آپ نے بیٹھنے سے پہلے ہی فرمایا: ’’تم گھر کے کس حصے میں میرا نماز پڑھنا پسند کرتے ہو؟‘‘ انہوں نے ایک مقام کی طرف اشارہ کیا جہاں وہ اپنے لیے نماز پڑھنا پسند کرتے تھے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کھڑے ہو گئے اور ہم لوگوں نے بھی آپ کے پیچھے صف بنا لی۔ اس کے بعد آپ نے سلام پھیرا اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ سلام پھیر دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) بعض فقہاء کا موقف ہے کہ نماز کے آخر میں صرف ایک مرتبہ سلام کہا جائے جیسا کہ سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز کے آخر میں صرف ایک مرتبہ السلام علیکم کہتے تھے۔ (شرح معاني الآثار:266/1، والاستذکار:291/4) لیکن اکثر فقہاء و محدثین نے اس موقف کو اختیار کیا ہے کہ نماز کے آخر میں دو دفعہ سلام کہا جائے ایک دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب، اسے سلام نماز بھی کہتے ہیں۔ تقریبا بیس صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے دو دفعہ سلام کہنا مروی ہے اور ایک دفعہ سلام کہنے کی روایت وہم پر مبنی ہے کیونکہ حضرت ابن مبارک نے اس روایت کو دو سلام سے بیان کیا ہے۔ (عمدة القاري:601/4) ہمارے نزدیک راجح بات یہی ہے کہ ایک سلام پر اکتفا بھی جائز ہے، اگرچہ اکثر و بیشتر آپ کی عادت مبارکہ دو سلام کی تھی، اس لیے اسے وہم قرار دینا محل نظر ہے، نیز یہ سلام سامنے منہ کر کے ہی پھیرنا ہے۔ دیکھیے: (أصل صفة صلاة النبي صلی اللہ علیه وسلم: 1030/3) بعض روایات میں ہے کہ امام کو بھی سلام کہنا چاہیے جیسا کہ حضرت سمرہ بن جندب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں امام کو سلام کہنے کا حکم دیا تھا۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1001) اس کی توجیہ بعض شارحین نے بایں طور فرمائی ہے کہ ایک سلام دائیں جانب، دوسرا بائیں جانب والوں کو، اور تیرے سامنے امام کو کیا جائے۔ امام بخاری ؒ نے اس موقف کی تردید فرمائی ہے کیونکہ امام کو سلام کہنے کا مطلب ہے کہ جو شخص دائیں جانب ہے وہ بائیں سلام میں اور جو بائیں جانب ہے وہ دائیں سلام میں امام کے لیے سلام کی نیت کرے اور جو امام کے پیچھے ہے وہ پہلے سلام میں امام کی نیت کرے۔ (2) حدیث کی عنوان سے مطابقت اسی طرح ہے کہ روایت کے مطابق پہلے رسول اللہ ﷺ نے سلام پھیرا، پھر قوم نے بھی سلام پھیر دیا۔ اس میں تیسرے سلام کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ (عمدة القاري:602/4) حافظ ابن حجر ؒ نے بھی لکھا ہے کہ حدیث کے ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ کی متابعت میں آپ کے سلام جیسا سلام کیا اور آپ کا سلام ایک تھا جس سے نماز ختم کی گئی یا اس کے ساتھ دوسرا سلام بھی تھا، تیسرے سلام کے لیے دلیل درکار ہے جیسا کہ بعض مالکی حضرات کا موقف ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مؤخر الذکر موقف کی تردید کے لیے عنوان بندی کی ہے اور حدیث پیش کی ہے۔ (فتح الباري:418/2)واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عتبان بن مالک انصاری سے سنا، پھر بنی سالم کے ایک شخص سے اس کی مزید تصدیق ہوئی۔ عتبان ؓ نے کہا کہ میں اپنی قوم بنی سالم کی امامت کیا کرتا تھا۔ میں انحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ حضور میری آنکھ خراب ہو گئی ہے اور (برسات میں) پانی سے بھرے ہوئے نالے میرے اور میری قوم کی مسجد کے بیچ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے مکان پر تشریف لا کر کسی ایک جگہ نماز ادا فرمائیں تاکہ میں اسے اپنی نماز کے لیے مقرر کر لوں آں حضور نے فرمایا کہ إن شاء اللہ تعالی میں تمہاری خواہش پوری کروں گا صبح کو جب دن چڑھ گیا تو نبی کریم ﷺ تشریف لائے۔ ابوبکر آپ کے ساتھ تھے۔ آپ نے (اندر آنے کی) اجازت چاہی اور میں نے دے دی۔ آپ بیٹھے نہیں بلکہ پوچھا کہ گھر کے کس حصہ میں نماز پڑھوانا چاہتے ہو۔ ایک جگہ کی طرف جسے میں نے نماز پڑھنے کے لیے پسند کیا تھا۔ اشارہ کیا۔ آپ (نماز کے لیے) کھڑے ہوئے اور ہم نے آپ کے پیچھے صف بن آئی۔ پھر آپ نے سلام پھیرا اور جب آپ نے سلام پھیراتو ہم نے بھی پھیرا۔
حدیث حاشیہ:
جمہور فقہاءکے نزدیک نماز میں دو سلام ہیں۔ لیکن امام مالک ؒ کے نزدیک تنہا نماز پڑھنے والے کے لیے صرف ایک سلام کافی ہے اورنماز با جماعت ہو رہی ہو تو دو سلام ہونے چاہئیں۔ امام کے لیے بھی اور مقتدی کے لیے بھی۔ لیکن اگر مقتدی امام کے بالکل پیچھے ہے یعنی نہ دائیں جانب نہ بائیں جانب تو اسے تین سلام پھیرنے پڑیںگے۔ ایک دائیں طرف کے مصلیوں کے لیے دوسرا بائیں طرف والوں کے لیے اور تیسرا امام کے لیے۔ گویااس سلام میں بھی انہوں نے ملاقات کے سلام کے آداب کا لحاظ رکھا ہے امام بخاری ؒ جمہور کے مسلک کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ ( تفہیم البخاری ) حضرت امام بخاری ؒ اس حدیث کو کئی جگہ لائے ہیں اور اس سے متعدد مسائل کا استنباط فرمایا ہے۔ یہاں اس حدیث سے باب کا مطلب یوںنکلا کہ ظاہر یہ ہے کہ مقتدیوں کا سلام بھی انحضرت ﷺ کے سلام کی طرح تھا اور اگر مقتدیوں نے کوئی تیسرا سلام کہا ہوتا تو اس کا ضرور بیان کرتے یہ بھی حدیث سے نکلا کہ معذورین کے لیے اور نوافل کے لیے گھر کے کسی حصہ میں نماز کی جگہ متعین کر دیجائے تو اس کی اجازت ہے۔ یہ بھی ثابت ہے کہ کسی واقعی اہل اللہ بزرگ سے اس قسم کی درخواست جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
I heard from ltban bin Malik Al-Ansari, who was one from Bani Salim, saying, "I used to lead my tribe of Bani Salim in prayer. Once I went to the Prophet (ﷺ) and said to him, 'I have weak eye-sight and at times the rainwater flood intervenes between me and the mosque of my tribe and I wish that you would come to my house and pray at some place so that I could take that place as a place for praying (mosque). He said, "Allah willing, I shall do that." Next day Allah's Apostle (ﷺ) along with Abu Bakr, came to my house after the sun had risen high and he asked permission to enter. I gave him permission, but he didn't sit till he said to me, "Where do you want me to pray in your house?" I pointed to a place in the house where I wanted him to pray. So he stood up for the prayer and we aligned behind him. He completed the prayer with Taslim and we did the same simultaneously."