تشریح:
(1) شریعت نے اگر کسی کام کے متعلق دو حیثیت سے وسعت دی ہو تو کسی ایک پر جمود یا انحصار کرنا درست نہیں، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض اوقات ترک مستحب پر تنبیہ بھی کی جا سکتی ہے۔ ابن منیر نے کہا ہے کہ مستحب مکروہ کے دائرے میں شامل ہو جاتا ہے جبکہ اسے اس کے مرتبے سے اونچا کر دیا جائے کیونکہ دائیں جانب تمام کاموں میں مستحب ہے لیکن جب حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو خطرہ محسوس ہوا کہ لوگ اسے اپنے آپ پر واجب قرار دے لیں گے تو اس کے مکروہ ہونے کی طرف اشارہ فرمایا۔ جب مباح کام کو لازم قرار دینے سے شیطان کا حصہ سمجھا جائے تو جو کام ناجائز یا بدعت ہے اسے اگر کوئی لازم قرار دے لے اور اس کے نہ کرنے پر دوسروں کو ملامت کرے تو ایسے انسان پر تو شیطان پوری طرح مسلط ہو جاتا ہے۔ (فتح الباري:437/2) ہمارے اس دور میں یہ وبا بہت عام ہے کہ بدعات و رسومات، مثلاً: قل خوانی، فاتحہ، چہلم اور برسی وغیرہ کو عام و خاص نے اپنے آپ پر لازم قرار دے لیا ہے اور نہ کرنے والوں کو لعن طعن کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ واللہ المستعان۔
(2) حضرت انس ؓ کے کہنے کے مطابق نماز سے فراغت کے بعد اکثر طور پر رسول اللہ ﷺ دائیں جانب مڑتے تھے جبکہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اکثر بائیں جانب مڑتے دیکھا ہے۔ ان دونوں حضرات کے بیان میں بظاہر تضاد ہے۔ تطبیق کی حسب ذیل دو صورتیں ہیں: ٭ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت کو مسجد میں نماز پڑھنے پر محمول کیا جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کے گھر مسجد کی بائیں جانب تھے جبکہ حضرت انس ؓ کے بیان کو اس کے علاوہ سفر وغیرہ پر محمول کیا جائے۔ ٭ بحالت نماز اگر پھرنے کی ضرورت ہوتی تو اکثر اوقات بائیں جانب سے پھرتے جیسا کہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا ہے۔ اگر مقتدی حضرات کی طرف منہ کرنا ہوتا تو نماز کے بعد دائیں جانب سے ان کی طرف پھرتے جیسا کہ حضرت انس ؓ نے کہا ہے۔ اس بنا پر انصراف کسی معین جہت کے ساتھ خاص نہ تھا۔ (فتح الباري:437/2) واللہ أعلم۔