تشریح:
(1) امام بخاری ؒ عنوان بندی کے سلسلے میں بہت محتاط رویہ اختیار کرتے ہیں، چنانچہ آپ نے بچوں کے وضو کے متعلق وثوق اور جزم کے ساتھ کوئی فیصلہ نہیں کیا، صرف اس کی مشروعیت بیان کی ہے کیونکہ اگر اسے استحباب کا درجہ دیتے تو اس کا تقاضا تھا کہ بچوں کی وضو کے بغیر بھی نماز صحیح ہو جائے اور اگر اس کے واجب ہونے کا فیصلہ کرتے تو ضروری تھا کہ بچے کو اس کے ترک پر سزا دی جاتی کیونکہ واجب کا تارک سزا کا حق دار ہوتا ہے، اس لیے امام بخاری نے ایک ایسا عنوان تجویز کیا جو اس قسم کے اعتراضات سے محفوظ ہے۔ پھر آپ نے بچوں کے متعلق غسل وغیرہ کا ذکر نہیں کیا کیونکہ ان کے لیے کوئی موجب غسل نہیں۔ (فتح الباري:446/2)
(2) مذکورہ عنوان کئی ایک اجزاء پر مشتمل ہے: پہلا جز بچوں کے لیے وضو کی مشروعیت ہے۔ دوسرا جز یہ ہے کہ ان پر غسل اور وضو کب واجب ہوتا ہے۔ تیسرا جز بچوں کے لیے نماز باجماعت، عیدین اور جنازوں میں شرکت کرنے سے متعلق ہے اور چوتھا جز ان کی صف بندی سے متعلق ہے۔ اس سلسلے میں امام بخاری ؒ نے سات احادیث ذکر کی ہیں: پہلی حدیث ابن عباس ؓ کی ہے جس میں قبر پر نماز پڑھنے کا ذکر ہے۔ یہ حدیث لانے کا مقصد یہ ہے کہ بچوں کی نماز میں شرکت کو ثابت کیا جائے اور صف بندی کو بیان کیا جائے، چنانچہ اس حدیث میں صراحت کے ساتھ ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے نابالغ ہونے کے باوجود نماز میں شرکت کی اور صف بندی میں حصہ لیا۔ دوسری حدیث حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے جس سے ثابت کیا ہے کہ غسل جمعہ بچوں پر واجب نہیں کیونکہ اس کے وجوب کے لیے بالغ ہونا شرط ہے۔ جمہور علماء کا یہی موقف ہے کہ غسل کے وجوب کے لیے بلوغت شرط ہے۔ تیسری حدیث بھی حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے جس میں وضاحت ہے کہ انہوں نے وضو کیا اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مل کر نماز ادا کی۔ اس سے ان کا وضو اور نماز ادا کرنا صحیح ثابت ہوا۔ چوتھی حدیث حضرت انس ؓ کی ہے جس میں حضرت انس ؓ کے ساتھ ایک بچے کا صف بنانا اور نماز پڑھنا مذکور ہے۔ حدیث میں لفظ یتیم آیا ہے جس کا اطلاق قبل از بلوغ پر ہوتا ہے۔ پانچویں حدیث حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے جس میں نماز عشاء دیر سے پڑھنے کا ذکر ہے تاآنکہ حضرت عمر ؓ نے بآواز بلند کہا کہ اب تو بچے اور عورتیں ہو چکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں کے ساتھ بچے بھی نماز میں شرکت کے لیے موجود تھے۔ چھٹی حدیث حضرت ابن عباس ؓ کی ہے جس میں ان کے صف میں شامل ہونے اور رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز ادا کرنے کا ذکر ہے۔ اس میں صراحت ہے کہ آپ اس وقت قریب البلوغ تھے۔ آخر میں امام بخاری ؒ نے حضرت ابن عباس ؓ ہی سے مروی ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز عید میں شرکت کی۔ اس طرح امام بخاری ؒ نے اپنے عنوان کے تمام اجزاء کو احادیث سے ثابت کیا ہے۔ واضح رہے کہ ان کی صف بندی سے مراد ان کا لوگوں کے ساتھ صف میں کھڑا ہونا ہے، اس سے بچوں کی خاص صف مراد نہیں ہے۔ (فتح الباري:447/2)
(3) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ بچے جب سن شعور کو پہنچ جائیں تو وہ عیدین اور جنازوں میں شرکت کر سکتے ہیں اور انہیں وضو بھی کرنا ہو گا اگرچہ وہ ان احکام کے مکلف نہیں، تاہم انہیں عادت ڈالنے کے لیے ان باتوں پر صغر سنی ہی میں عمل کرانا چاہیے۔