باب: نماز پڑھ کر دائیں یا بائیں دونوں طرف پھر بیٹھنا یا لوٹنا درست ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: To leave or depart from the right and from the left after finishing from the Salat (prayers))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور انس بن مالک ؓ دائیں اور بائیں دونوں طرف مڑتے تھے۔ اور اگر کوئی دائیں طرف خواہ مخواہ قصد کر کے مڑتا تو اس پر آپ اعتراض کرتے تھے۔
864.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز میں شیطان کا حصہ نہ بنائے، وہ اس طرح کہ نماز کے بعد دائیں جانب سے پھرنے کو ضروری خیال کرے۔ یقینا میں نے نبی ﷺ کو اکثر اپنی بائیں جانب سے بھی پھرتے دیکھا ہے۔
تشریح:
(1) شریعت نے اگر کسی کام کے متعلق دو حیثیت سے وسعت دی ہو تو کسی ایک پر جمود یا انحصار کرنا درست نہیں، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض اوقات ترک مستحب پر تنبیہ بھی کی جا سکتی ہے۔ ابن منیر نے کہا ہے کہ مستحب مکروہ کے دائرے میں شامل ہو جاتا ہے جبکہ اسے اس کے مرتبے سے اونچا کر دیا جائے کیونکہ دائیں جانب تمام کاموں میں مستحب ہے لیکن جب حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو خطرہ محسوس ہوا کہ لوگ اسے اپنے آپ پر واجب قرار دے لیں گے تو اس کے مکروہ ہونے کی طرف اشارہ فرمایا۔ جب مباح کام کو لازم قرار دینے سے شیطان کا حصہ سمجھا جائے تو جو کام ناجائز یا بدعت ہے اسے اگر کوئی لازم قرار دے لے اور اس کے نہ کرنے پر دوسروں کو ملامت کرے تو ایسے انسان پر تو شیطان پوری طرح مسلط ہو جاتا ہے۔ (فتح الباري:437/2) ہمارے اس دور میں یہ وبا بہت عام ہے کہ بدعات و رسومات، مثلاً: قل خوانی، فاتحہ، چہلم اور برسی وغیرہ کو عام و خاص نے اپنے آپ پر لازم قرار دے لیا ہے اور نہ کرنے والوں کو لعن طعن کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ واللہ المستعان۔ (2) حضرت انس ؓ کے کہنے کے مطابق نماز سے فراغت کے بعد اکثر طور پر رسول اللہ ﷺ دائیں جانب مڑتے تھے جبکہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اکثر بائیں جانب مڑتے دیکھا ہے۔ ان دونوں حضرات کے بیان میں بظاہر تضاد ہے۔ تطبیق کی حسب ذیل دو صورتیں ہیں: ٭ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت کو مسجد میں نماز پڑھنے پر محمول کیا جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کے گھر مسجد کی بائیں جانب تھے جبکہ حضرت انس ؓ کے بیان کو اس کے علاوہ سفر وغیرہ پر محمول کیا جائے۔ ٭ بحالت نماز اگر پھرنے کی ضرورت ہوتی تو اکثر اوقات بائیں جانب سے پھرتے جیسا کہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا ہے۔ اگر مقتدی حضرات کی طرف منہ کرنا ہوتا تو نماز کے بعد دائیں جانب سے ان کی طرف پھرتے جیسا کہ حضرت انس ؓ نے کہا ہے۔ اس بنا پر انصراف کسی معین جہت کے ساتھ خاص نہ تھا۔ (فتح الباري:437/2)واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
841
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
852
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
852
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
852
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان میں انفتال اور انصراف دو لفظ استعمال کیے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز سے فراغت کے بعد مقتدیوں کی طرف منہ کرنے اور اپنی حاجت کے لیے چلے جانے میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے مذکورہ اثر کو امام مسدد نے اپنی مسند کبیر میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا مذکورہ اثر ان کی روایت کردہ حدیث جسے امام مسلم نے ذکر کیا ہے، کے منافی ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اکثر دائیں جانب سے پھرتے دیکھتا تھا۔ ان دونوں میں تطبیق کی یہ صورت ہے کہ جو شخص دائیں جانب پھرنے کو لازم قرار دے لے اس پر اعتراض کرتے تھے۔ اگر کسی کے نزدیک دونوں طرف سے پھرنا برابر ہے تو اس کے لیے دائیں جانب بہتر ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر کام میں دائیں جانب پسند ہوتی تھی۔ (فتح الباری:2/436)
اور انس بن مالک ؓ دائیں اور بائیں دونوں طرف مڑتے تھے۔ اور اگر کوئی دائیں طرف خواہ مخواہ قصد کر کے مڑتا تو اس پر آپ اعتراض کرتے تھے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز میں شیطان کا حصہ نہ بنائے، وہ اس طرح کہ نماز کے بعد دائیں جانب سے پھرنے کو ضروری خیال کرے۔ یقینا میں نے نبی ﷺ کو اکثر اپنی بائیں جانب سے بھی پھرتے دیکھا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) شریعت نے اگر کسی کام کے متعلق دو حیثیت سے وسعت دی ہو تو کسی ایک پر جمود یا انحصار کرنا درست نہیں، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض اوقات ترک مستحب پر تنبیہ بھی کی جا سکتی ہے۔ ابن منیر نے کہا ہے کہ مستحب مکروہ کے دائرے میں شامل ہو جاتا ہے جبکہ اسے اس کے مرتبے سے اونچا کر دیا جائے کیونکہ دائیں جانب تمام کاموں میں مستحب ہے لیکن جب حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو خطرہ محسوس ہوا کہ لوگ اسے اپنے آپ پر واجب قرار دے لیں گے تو اس کے مکروہ ہونے کی طرف اشارہ فرمایا۔ جب مباح کام کو لازم قرار دینے سے شیطان کا حصہ سمجھا جائے تو جو کام ناجائز یا بدعت ہے اسے اگر کوئی لازم قرار دے لے اور اس کے نہ کرنے پر دوسروں کو ملامت کرے تو ایسے انسان پر تو شیطان پوری طرح مسلط ہو جاتا ہے۔ (فتح الباري:437/2) ہمارے اس دور میں یہ وبا بہت عام ہے کہ بدعات و رسومات، مثلاً: قل خوانی، فاتحہ، چہلم اور برسی وغیرہ کو عام و خاص نے اپنے آپ پر لازم قرار دے لیا ہے اور نہ کرنے والوں کو لعن طعن کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ واللہ المستعان۔ (2) حضرت انس ؓ کے کہنے کے مطابق نماز سے فراغت کے بعد اکثر طور پر رسول اللہ ﷺ دائیں جانب مڑتے تھے جبکہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اکثر بائیں جانب مڑتے دیکھا ہے۔ ان دونوں حضرات کے بیان میں بظاہر تضاد ہے۔ تطبیق کی حسب ذیل دو صورتیں ہیں: ٭ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت کو مسجد میں نماز پڑھنے پر محمول کیا جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کے گھر مسجد کی بائیں جانب تھے جبکہ حضرت انس ؓ کے بیان کو اس کے علاوہ سفر وغیرہ پر محمول کیا جائے۔ ٭ بحالت نماز اگر پھرنے کی ضرورت ہوتی تو اکثر اوقات بائیں جانب سے پھرتے جیسا کہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا ہے۔ اگر مقتدی حضرات کی طرف منہ کرنا ہوتا تو نماز کے بعد دائیں جانب سے ان کی طرف پھرتے جیسا کہ حضرت انس ؓ نے کہا ہے۔ اس بنا پر انصراف کسی معین جہت کے ساتھ خاص نہ تھا۔ (فتح الباري:437/2)واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حضرت انس بن مالک ؓ نماز سے فراغت کے بعد دائیں اور بائیں جانب سے پھرتے تھے اور جو شخص دانستہ طور پر دائیں جانب پھرنے کو لازم قرار دیتا اس پر عیب لگاتے تھے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے سلیمان سے بیان کیا، ان سے عمارہ بن عمیر نے، ان سے اسود بن یزید نے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایاکہ کوئی شخص اپنی نماز میں سے کچھ بھی شیطان کا حصہ نہ لگائے اس طرح کہ داہنی طرف ہی لوٹنا اپنے لیے ضروری قرار دے لے۔ میں نے نبی کریم ﷺ کو اکثر بائیں طرف سے لوٹتے دیکھا۔
حدیث حاشیہ:
تشریح : معلوم ہوا کہ کسی مباح یا مستحب کام کولازم یا واجب کر لینا شیطان کا اغوا ہے ابن منیر نے کہا مستحب کام کو اگر کوئی لازم قرار دے تو وہ مکروہ ہو جاتا ہے جب مباح کام لازم قرار دینے سے شیطان کا حصہ سمجھا جائے تو جو کام مکروہ یا بدعت ہے اس کو کوئی لازم قرار دے لے اور اس کے نہ کرنے پر خدا کو بندوں کے ستائے یا ان کا عیب کرے تو اس پر شیطان کا کیا تسلط ہے سمجھ لینا چاہیے۔ ہمارے زمانہ میں یہ بلابہت پھیلی ہے۔ بے اصل کاموں کو عوام کیا بلکہ خواص نے لازم قرار دے لیا ہے ( مولانا وحید الزماں ) تیجہ، فاتحہ چہلم وغیرہ سب اسی قسم کے کام ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA): You should not give away a part of your prayer to Satan by thinking that it is necessary to depart (after finishing the prayer) from one's right side only; I have seen the Prophet (ﷺ) often leave from the left side.