تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت پیش کردہ احادیث سے عورتوں کے لیے رات اور اندھیرے کے وقت مساجد میں جانے کا جواز بتایا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ اس جواز کو عدم فتنہ سے مقید کر رہے ہیں کیونکہ رات کا وقت اور اندھیرا فتنوں سے محفوظ رہنے کا سبب بنتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مردوں کی طرف سے عورتوں کے لیے فتنے کا خوف ہو یا عورتوں کی طرف سے مردوں کے لیے ابتلا کا اندیشہ ہو تو عورتوں کو مساجد کا رخ نہیں کرنا چاہیے۔ امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی اپنی پہلی حدیث بیان کی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت عورتیں مسجد میں نماز عشاء پڑھنے کے لیے آتی تھیں، چنانچہ حضرت عمر ؓ نے بآواز بلند کہا تھا کہ عورتیں اور بچے سو گئے ہیں۔ دوسری حدیث میں بھی رات کی قید موجود ہے اور جن روایات میں رات کی قید نہیں ہے انہیں بھی اس پر محمول کیا جائے گا۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ رات کا وقت خصوصیت کے ساتھ اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ اس میں عورتوں کے لیے پردہ پوشی زیادہ ہوتی ہے۔ یہ بھی اس وقت ہے جب فتنہ و فساد کا اندیشہ نہ ہو۔ (فتح الباري:2/449،448) صحیح مسلم میں یہ اضافہ ہے کہ جب حضرت ابن عمر ؓ نے یہ حدیث بیان کی تو ان کے بیٹے واقد نے کہا کہ عورتیں اس اجازت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اسے اپنی مطلب برآوری کا ذریعہ بنا لیں گی۔ اس پر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اس کے سینے پر گھونسا مارا اور فرمایا کہ میں تجھے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کرتا ہوں اور تو اس سے انکار کرتا ہے! بعض احادیث میں بیٹے کا نام بلال بتایا گیا ہے۔ صحیح مسلم میں اسی طرح کا بیان کردہ ایک اور واقعہ ہے جب حضرت ابن عمر ؓ نے یہ حدیث بیان کی کہ جب تمہاری عورتیں اجازت طلب کریں تو مسجد میں ان کے لیے خیروبرکت کا جو حصہ رکھا ہے اسے مت روکو۔ ان کے بیٹے بلال نے کہا کہ ہم تو ضرور روکیں گے۔ ایک روایت میں ہے کہ میں تو اپنی بیوی کو نہیں جانے دوں گا، اگر کوئی دوسرا انہیں کھلا چھوڑ دے تو اس کی مرضی۔ اس پر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اسے بہت برا بھلا کہا اور اس پر تین دفعہ لعنت کی بلکہ ایک روایت میں ہے کہ اس سے زندگی بھر گفتگو نہیں کی۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:995،994،992،988 (442)، وفتح الباري:449/2)
(2) حدیث کے آخر میں امام بخاری ؒ نے ایک متابعت بیان کی ہے کہ حضرت شعبہ نے یہ حدیث بیان کرنے میں عبیداللہ بن موسیٰ شیخ بخاری کی متابعت کی ہے۔ اسے امام احمد ؒ نے اپنی مسند میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (عمدة القاري:847/4)