باب: لہسن، پیاز اور گندنے کے متعلق جو روایات آئی ہیں ان کا بیان۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: What has been said about uncooked garlic, onion and leek)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے کہ جس نے لہسن یا پیاز بھوک یا اس کے علاوہ کسی وجہ سے کھائی ہو وہ ہماری مسجد کے پاس نہ پھٹکے۔
867.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص لہسن یا پیاز کھائے وہ ہم سے علیحدہ رہے یا فرمایا کہ ہماری مسجد سے الگ تھلگ رہے یا (فرمایا کہ) اسے چاہئے کہ اپنے گھر میں بیٹھا رہے۔‘‘ ایک مرتبہ نبی ﷺ کے پاس ہنڈیا لائی گئی جس میں سبز ترکاریاں تھیں۔ آپ نے اس میں کچھ ناگوار بو پائی تو دریافت فرمایا کہ اس میں کیا ہے؟ چنانچہ آپ کو ان ترکاریوں کے متعلق بتایا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’اسے میرے کسی ساتھی کے قریب کر دو۔‘‘ جب آپ نے دیکھا کہ وہ بھی اسے ناپسند کرتا ہے تو آپ نے فرمایا: ’’تم کھاؤ کیونکہ میں تو اس ذات سے مناجات کرتا ہوں جس سے تم نہیں کرتے ہو۔‘‘ احمد بن صالح نے ابن وہب سے یوں نقل کیا ہے کہ آپ کے سامنے بدر، یعنی طباق لایا گیا جس میں ترکاریاں تھیں۔ لیث اور ابوصفوان نے اپنے شیخ یونس سے ہنڈیا کا قصہ بیان نہیں کیا، اس لیے امام بخاری ؓ کہتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ مذکورہ الفاظ زہری کا کلام ہے یا حدیث کا حصہ ہیں۔
تشریح:
(1) مذکورہ حدیث دو حصوں پر مشتمل ہے: پہلا تو وہی جسے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے غزوۂ خیبر کے حوالے سے بیان کیا ہے اور دوسرا حصہ جس کے متعلق امام بخاری ؒ کو تردد ہے کہ یہ موصول ہے یا مرسل، جس میں ہنڈیا کا ذکر ہے۔ گویا یہ دو احادیث ہیں۔ پہلی حدیث اور دوسری حدیث کے درمیان تقریبا سات سال کا وقفہ ہے کیونکہ غزوۂ خیبر سات ہجری کو ہوا تھا اور دوسرا ہنڈیا کا واقعہ ہجرت کے پہلے سال پیش آیا جس کی تفصیل صحیح مسلم میں بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو حضرت ابو ایوب ؓ کے گھر قیام فرمایا اور حضرت ابو ایوب آپ ﷺ کے کھانے وغیرہ کا بندوبست کرتے تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ کھانے سے فارغ ہوتے اور بقیہ کھانا واپس بھیجتے تو ابو ایوب ؓ رسول اللہ ﷺ کی انگلیوں کے نشانات تلاش کر کے وہاں سے کھانا کھاتے۔ ایک دفعہ انہوں نے کھانے میں رسول اللہ ﷺ کی انگلیوں کے نشانات نہ دیکھے تو پتہ چلا کہ آپ نے کھانا نہیں کھایا ہے کیونکہ اس میں لہسن ڈالا گیا تھا۔ حضرت ابو ایوب ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ یہ حرام ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ حرام تو نہیں لیکن میں اسے ناپسند کرتا ہوں کیونکہ اس طرح کی چیزیں فرشتوں سے مناجات میں رکاوٹ کا باعث ہیں۔ اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے جن سے مناجات کا ذکر کیا ہے، اس سے مراد فرشتے ہیں جیسا کہ صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان میں اس کی صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ یہ کھانا تم خود تناول کرو کیونکہ میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں یہ کھانا تناول کرنے سے میرے ساتھیوں (فرشتوں) کو تکلیف ہو۔ (صحیح ابن خزیمة:88/3، وصحیح ابن حبان:4؍ 524، 525) (2) امام بخاری ؒ کے شیخ سعید بن عفیر نے ہنڈیا کا لفظ بیان کیا ہے جبکہ آپ کے دوسرے شیخ احمد بن صالح نے لفظ بدرروایت کیا ہے جس کے معنی طباق ہیں جو امام بخاری ؒ نے خود بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الاعتصام بالکتاب والسنة، حدیث:7359) وہاں بھی امام بخاری ؒ نے اس تردد کا اظہار کیا ہے لیکن لیث اور ابو صفوان نے سرے سے اس حدیث (جس میں ہنڈیا کا ذکر ہے) ہی کو بیان نہیں کیا۔ لیث کی روایت کو امام ذہلی نے زہریات میں بیان کیا ہے جبکہ ابو صفوان کی روایت خود امام بخارى ؒ نے متصل سند سے روایت کی ہے۔ (صحیح البخاري، الأطعمة، حدیث:5452) امام بیہقی ؒ نے اس تردد کے متعلق فرمایا ہے کہ متصل حدیث میں اگر کسی لفظ کے مدرج ہونے کی صراحت ہو تو اسے مرسل کا نام دیا جا سکتا ہے بصورت دیگر ہم پوری روایت کو متصل ہی کا درجہ دیں گے۔ (فتح الباري:442/2)واللہ أعلم۔ (3) لفظ قدر سے معلوم ہوتا ہے کہ کھانے میں جو لہسن ڈالا گیا تھا اسے پکایا گیا تھا لیکن اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے اسے تناول نہیں فرمایا اور نہ کھانے کی وجہ بھی بیان کی۔ دراصل لہسن کو جتنا بھی پکا لیا جائے اس میں ناگوار سی ہوا رہتی ہے، تاہم امت کو پکا کر استعمال کرنے کی اجازت ہے جبکہ رسول اللہ ﷺ پکا ہوا ہونے کے باوجود اس سے پرہیز کرتے تھے جیسا کہ اس حدیث پر امام ابن خزیمہ نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت تھی کہ آپ پکا ہوا لہسن بھی استعمال نہیں کرتے تھے۔‘‘ امام قرطبی ؒ نے فرمایا ہے کہ لہسن کو اس قدر نہیں پکایا گیا تھا کہ اس سے ناگوار سی ہوا ختم ہو گئی ہو، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسے واپس کر دیا۔ (فتح الباري:442/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
844
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
855
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
855
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
855
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
یہ روایت بالمعنی ہے کیونکہ "بھوک یا اس کے علاوہ کسی وجہ سے" کے الفاظ فرمودۂ نبوی نہیں ہیں بلکہ یہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی فقاہت کے پیش نظر استنباط کے طور پر ذکر کیے ہیں۔ یہ عنوان اور اس کے بعد آنے والے عنوانات احکام مساجد سے متعلق ہیں، اس سے پہلے طریقۂ نماز کا بیان تھا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان میں اذان و اقامت، امامت و صف بندی، نماز باجماعت، پھر طریقۂ نماز بیان کیا ہے۔ ان کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ اس ترتیب سے نماز باجماعت میں حاضر ہونے کی فضیلت کا پتہ چلتا ہے، اس لیے مناسب تھا کہ ان عوارض کو بیان کیا جائے جو نماز باجماعت کے لیے رکاوٹ کا باعث ہیں، جیسے لہسن یا پیاز کا استعمال۔ اور جن پر نماز فرض نہیں ہے، جیسے بچے وغیرہ، نیز جن کے لیے بعض اوقات جماعت میں شامل ہونا مستحب ہے جبکہ بعض اوقات کسی وجہ سے مسجد میں حاضر نہیں ہو سکتے، جیسے خواتین وغیرہ۔ اس بنا پر امام بخاری رحمہ اللہ نے انہیں بیان کر کے طریقۂ نماز کے باب کو ختم کیا ہے۔ (فتح الباری:2/438)
اور نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے کہ جس نے لہسن یا پیاز بھوک یا اس کے علاوہ کسی وجہ سے کھائی ہو وہ ہماری مسجد کے پاس نہ پھٹکے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص لہسن یا پیاز کھائے وہ ہم سے علیحدہ رہے یا فرمایا کہ ہماری مسجد سے الگ تھلگ رہے یا (فرمایا کہ) اسے چاہئے کہ اپنے گھر میں بیٹھا رہے۔‘‘ ایک مرتبہ نبی ﷺ کے پاس ہنڈیا لائی گئی جس میں سبز ترکاریاں تھیں۔ آپ نے اس میں کچھ ناگوار بو پائی تو دریافت فرمایا کہ اس میں کیا ہے؟ چنانچہ آپ کو ان ترکاریوں کے متعلق بتایا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’اسے میرے کسی ساتھی کے قریب کر دو۔‘‘ جب آپ نے دیکھا کہ وہ بھی اسے ناپسند کرتا ہے تو آپ نے فرمایا: ’’تم کھاؤ کیونکہ میں تو اس ذات سے مناجات کرتا ہوں جس سے تم نہیں کرتے ہو۔‘‘ احمد بن صالح نے ابن وہب سے یوں نقل کیا ہے کہ آپ کے سامنے بدر، یعنی طباق لایا گیا جس میں ترکاریاں تھیں۔ لیث اور ابوصفوان نے اپنے شیخ یونس سے ہنڈیا کا قصہ بیان نہیں کیا، اس لیے امام بخاری ؓ کہتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ مذکورہ الفاظ زہری کا کلام ہے یا حدیث کا حصہ ہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) مذکورہ حدیث دو حصوں پر مشتمل ہے: پہلا تو وہی جسے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے غزوۂ خیبر کے حوالے سے بیان کیا ہے اور دوسرا حصہ جس کے متعلق امام بخاری ؒ کو تردد ہے کہ یہ موصول ہے یا مرسل، جس میں ہنڈیا کا ذکر ہے۔ گویا یہ دو احادیث ہیں۔ پہلی حدیث اور دوسری حدیث کے درمیان تقریبا سات سال کا وقفہ ہے کیونکہ غزوۂ خیبر سات ہجری کو ہوا تھا اور دوسرا ہنڈیا کا واقعہ ہجرت کے پہلے سال پیش آیا جس کی تفصیل صحیح مسلم میں بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو حضرت ابو ایوب ؓ کے گھر قیام فرمایا اور حضرت ابو ایوب آپ ﷺ کے کھانے وغیرہ کا بندوبست کرتے تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ کھانے سے فارغ ہوتے اور بقیہ کھانا واپس بھیجتے تو ابو ایوب ؓ رسول اللہ ﷺ کی انگلیوں کے نشانات تلاش کر کے وہاں سے کھانا کھاتے۔ ایک دفعہ انہوں نے کھانے میں رسول اللہ ﷺ کی انگلیوں کے نشانات نہ دیکھے تو پتہ چلا کہ آپ نے کھانا نہیں کھایا ہے کیونکہ اس میں لہسن ڈالا گیا تھا۔ حضرت ابو ایوب ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ یہ حرام ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ حرام تو نہیں لیکن میں اسے ناپسند کرتا ہوں کیونکہ اس طرح کی چیزیں فرشتوں سے مناجات میں رکاوٹ کا باعث ہیں۔ اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے جن سے مناجات کا ذکر کیا ہے، اس سے مراد فرشتے ہیں جیسا کہ صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان میں اس کی صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ یہ کھانا تم خود تناول کرو کیونکہ میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں یہ کھانا تناول کرنے سے میرے ساتھیوں (فرشتوں) کو تکلیف ہو۔ (صحیح ابن خزیمة:88/3، وصحیح ابن حبان:4؍ 524، 525) (2) امام بخاری ؒ کے شیخ سعید بن عفیر نے ہنڈیا کا لفظ بیان کیا ہے جبکہ آپ کے دوسرے شیخ احمد بن صالح نے لفظ بدرروایت کیا ہے جس کے معنی طباق ہیں جو امام بخاری ؒ نے خود بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الاعتصام بالکتاب والسنة، حدیث:7359) وہاں بھی امام بخاری ؒ نے اس تردد کا اظہار کیا ہے لیکن لیث اور ابو صفوان نے سرے سے اس حدیث (جس میں ہنڈیا کا ذکر ہے) ہی کو بیان نہیں کیا۔ لیث کی روایت کو امام ذہلی نے زہریات میں بیان کیا ہے جبکہ ابو صفوان کی روایت خود امام بخارى ؒ نے متصل سند سے روایت کی ہے۔ (صحیح البخاري، الأطعمة، حدیث:5452) امام بیہقی ؒ نے اس تردد کے متعلق فرمایا ہے کہ متصل حدیث میں اگر کسی لفظ کے مدرج ہونے کی صراحت ہو تو اسے مرسل کا نام دیا جا سکتا ہے بصورت دیگر ہم پوری روایت کو متصل ہی کا درجہ دیں گے۔ (فتح الباري:442/2)واللہ أعلم۔ (3) لفظ قدر سے معلوم ہوتا ہے کہ کھانے میں جو لہسن ڈالا گیا تھا اسے پکایا گیا تھا لیکن اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے اسے تناول نہیں فرمایا اور نہ کھانے کی وجہ بھی بیان کی۔ دراصل لہسن کو جتنا بھی پکا لیا جائے اس میں ناگوار سی ہوا رہتی ہے، تاہم امت کو پکا کر استعمال کرنے کی اجازت ہے جبکہ رسول اللہ ﷺ پکا ہوا ہونے کے باوجود اس سے پرہیز کرتے تھے جیسا کہ اس حدیث پر امام ابن خزیمہ نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت تھی کہ آپ پکا ہوا لہسن بھی استعمال نہیں کرتے تھے۔‘‘ امام قرطبی ؒ نے فرمایا ہے کہ لہسن کو اس قدر نہیں پکایا گیا تھا کہ اس سے ناگوار سی ہوا ختم ہو گئی ہو، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسے واپس کر دیا۔ (فتح الباري:442/2)
ترجمۃ الباب:
نبی ﷺ کا فرمان ہے: "جس نے بھوک یا اس کے علاوہ کسی اور وجہ سے لہسن یا پیاز استعمال کیا وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن وہب نے یونس سے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے کہ عطاء جابر بن عبد اللہ سے روایت کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو لہسن یا پیاز کھائے ہوئے ہو تو ہو ہم سے دور رہے یا (یہ کہا کہ اسے) ہماری مسجد سے دور رہنا چاہیے یا اسے اپنے گھر میں ہی بیٹھنا چاہیے۔ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک ہانڈی لائی گئی جس میں کئی قسم کی ہری ترکاریاں تھیں۔ (پیازیا گندنا بھی) آپ نے اس میں بو محسوس کی اور اس کے متعلق دریافت کیا۔ اس سالن میں جتنی ترکاریاں ڈالی گئی تھیں وہ آپ کو بتا دی گئیں۔ وہاں ایک صحابی موجود تھے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کی طرف یہ سالن بڑھا دو۔ آپ ﷺ نے اسے کھانا پسند نہیں فرمایا اور فرمایا کہ تم لوگ کھا لو۔ میری جن سے سرگوشی رہتی ہے تمہاری نہیں رہتی اور احمد بن صالح نے ابن وہب سے یوں نقل کیا کہ تھال آپ ﷺ کی خدمت میں لائی گئی تھی۔ ابن وہب نے کہا کہ طبق جس میں ہری ترکاریاں تھیں اور لیث اور ابو صفوان نے یونس سے روایت میں ہانڈی کا قصہ نہیں بیان کیا ہے۔ امام بخاریؒ نے (یا سعید یا ابن وہب نے کہا) میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ خود زہری کا قول ہے یا حدیث میں داخل ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Whoever eats garlic or onion should keep away from our mosque or should remain in his house." (Jabir bin 'Abdullah, in another narration said, "Once a big pot containing cooked vegetables was brought. On finding unpleasant smell coming from it, the Prophet (ﷺ) asked, 'What is in it?' He was told all the names of the vegetables that were in it. The Prophet (ﷺ) ordered that it should be brought near to some of his companions who were with him. When the Prophet (ﷺ) saw it he disliked to eat it and said, 'Eat. (I don't eat) for I converse with those whom you don't converse with (i.e. the angels)."