تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کامقصد یہ ہے کہ تعلیم کو اپنی ذات کی حد تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ اسے دوسروں تک پہنچانا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے دو حدیثیں بیان فرمائی ہیں: ایک حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان جسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے موصولاً بھی بیان کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تقریباً بیس دن تک آپ کے ہاں قیام کیا جب ہم نے کہا ہم گھر جاناچاہتے ہیں تو آپ نے فرمایا: ’’جاؤ،اپنے گھر والوں کونماز کی تعلیم دو، نیزاس طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 631) دوسری حدیث وفد عبدالقیس والی ہے جس کی تفصیلات پہلے بھی حدیث :53 کے تحت گزر چکی ہیں۔ آپ نے مامورات اور منہیات کی تعلیم دینے کے بعد فرمایا کہ ایمان کی باتوں کو اچھی طرح یاد رکھیں اور انھیں اپنے پس ماندگان تک پہنچا دیں۔
2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب سازی کے چار برتنوں کے استعمال سے انھیں منع فرمایا جس کی تفصیل یہ ہے: دباء:کدو سے تیارکردہ پیالے۔ حنتم: بڑے بڑے مٹکے۔مزفت: تارکول سے رنگے ہوئے روغنی برتن۔ نقیر: لکڑی سے تراشے ہوئے لگن۔ حدیث میں تین برتنوں کا ذکر ہوا ہے، اس لیے شعبہ کا بیان ہے کہ ابو جمرہ کبھی کبھی ان کے ساتھ نقیر کا بھی ذکر کرتے تھے۔ مزید وضاحت فرمائی کہ ابوجمرہ کبھی لفظ مزفت استعمال کرتے اور کبھی اس کے بجائے مقیر کہتے۔ دونوں کے معنی میں کوئی فرق نہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ دونوں الفاظ ترک کردیے ہوں۔ ایسا صرف نقیر میں ہوا کہ کبھی اس کا ذکر نہیں کیا۔
3۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تبلیغ کے لیے پورا عالم دین ہونا ضروری نہیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن لوگوں کو تبلیغ کا حکم دیا تھا وہ تمام دینی باتوں سے واقف نہ تھے بلکہ انھیں صرف چار باتوں کا حکم دیا تھا اور چار ہی باتوں سےمنع کیا تھا۔ ایک حدیث میں تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے۔ خواہ وہ ایک قرآنی آیت ہی ہو۔ اس سے شبہ ہوتا ہے کہ شاید آیات قرآنی ہی کی تبلیغ مقصود ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مؤقف کی تردید کی اور فرمایا کہ ہر چیز کی تبلیغ کرو، خواہ قرآنی آیت ہو یا حدیث نبوی۔
4۔ واضح رہے کہ جن برتنوں کے استعمال کےمتعلق یہاں پابندی کا ذکر ہے، اسے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ختم کر دیا تھا۔ (صحیح مسلم، الأشربة، حدیث: 5207(977))