صحیح بخاری
10. کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
162. باب: بچوں کے وضو کرنے کا بیان۔
صحيح البخاري
10. كتاب الأذان
162. بَابُ وُضُوءِ الصِّبْيَانِ،
Sahi-Bukhari
10. Call to Prayers (Adhaan)
162. Chapter: The ablution for boys (youngsters). When they should perform Ghusl (take a bath) and Tuhur (purification). Their attendance at congregational prayers and their rows in the prayers
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: The ablution for boys (youngsters). When they should perform Ghusl (take a bath) and Tuhur (purification). Their attendance at congregational prayers and their rows in the prayers)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ان پر غسل اور وضو اور جماعت، عیدین، جنازوں میں ان کی حاضری اور ان کی صفوں میں شرکت کب ضروری ہو گی اور کیونکر ہو گی۔
871.
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے ایک رات اپنی خالہ حضرت میمونہ ؓ کے پاس گزاری، نبی ﷺ نے بھی ان کے ہاں قیام فرمایا۔ جب رات کا کچھ حصہ گزر گیا تو رسول اللہ ﷺ اٹھ کھڑے ہوئے، ایک لٹکتے ہوئے پرانے مشکیزے سے ہلکا سا وضو کیا ۔۔ راوی حدیث حضرت عمرو اسے بہت ہلکا اور خفیف سا بیان کرتے تھے ۔۔ پھر آپ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ اس دوران میں میں بھی اٹھا اور آپ کے وضو جیسا وضو کیا، پھر آ کر آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنے پیچھے سے پھیر کر اپنی دائیں جانب کھڑا کر لیا، پھر جس قدر اللہ کو منظور تھا آپ نے نماز پڑھی۔ اس کے بعد آپ لیٹ گئے اور نیند میں خراٹے بھرنے لگے۔ اتنے میں مؤذن آیا اور اس نے آپ کو نماز کی اطلاع دی تو آپ ﷺ اس کے ہمراہ نماز کے لیے کھڑا ہوئے آپ نے نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔ ہم نے حضرت عمرو سے کہا کہ ہماری شنید کے مطابق نبی ﷺ کی آنکھ سوتی تھی لیکن دل بیدار رہتا تھا۔ عمرو نے کہا: میں نے (اپنے شیخ) عبید بن عمیر سے سنا وہ فرماتے تھے کہ حضرات انبیاء ؑ کے خواب وحی ہوتے ہیں، پھر انہوں نے بطور تائید یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ﴾ ’’(بیٹے!) میں خواب میں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
848
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
859
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
859
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
859
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
حدیث میں بچے کے متعلق ہے کہ وہ مرفوع القلم ہے لیکن اگر وہ بلوغت سے پہلے نماز پڑھے تو کیا قابل اعتنا ہے یا نہیں؟ جمہور کے نزدیک اگر بچہ صاحب تمیز ہے تو اس کی طرف سے احکام کی بجا آوری کا اعتبار ہو گا لیکن کفر و الحاد کی وجہ سے اسے سزا نہیں دی جائے گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہاں اسی مسئلے کو بیان کیا ہے کہ اس کی دو حالتیں ہیں: ایک اس کی عبادت کا معتبر ہونا، دوسری اس پر اسے ثواب کا ملنا۔ ان سب چیزوں کا اعتبار ہو گا لیکن اگر وہ انہیں ترک کرے گا تو عقاب و سزا کا حق دار نہیں ہو گا۔
اور ان پر غسل اور وضو اور جماعت، عیدین، جنازوں میں ان کی حاضری اور ان کی صفوں میں شرکت کب ضروری ہو گی اور کیونکر ہو گی۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے ایک رات اپنی خالہ حضرت میمونہ ؓ کے پاس گزاری، نبی ﷺ نے بھی ان کے ہاں قیام فرمایا۔ جب رات کا کچھ حصہ گزر گیا تو رسول اللہ ﷺ اٹھ کھڑے ہوئے، ایک لٹکتے ہوئے پرانے مشکیزے سے ہلکا سا وضو کیا ۔۔ راوی حدیث حضرت عمرو اسے بہت ہلکا اور خفیف سا بیان کرتے تھے ۔۔ پھر آپ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ اس دوران میں میں بھی اٹھا اور آپ کے وضو جیسا وضو کیا، پھر آ کر آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنے پیچھے سے پھیر کر اپنی دائیں جانب کھڑا کر لیا، پھر جس قدر اللہ کو منظور تھا آپ نے نماز پڑھی۔ اس کے بعد آپ لیٹ گئے اور نیند میں خراٹے بھرنے لگے۔ اتنے میں مؤذن آیا اور اس نے آپ کو نماز کی اطلاع دی تو آپ ﷺ اس کے ہمراہ نماز کے لیے کھڑا ہوئے آپ نے نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔ ہم نے حضرت عمرو سے کہا کہ ہماری شنید کے مطابق نبی ﷺ کی آنکھ سوتی تھی لیکن دل بیدار رہتا تھا۔ عمرو نے کہا: میں نے (اپنے شیخ) عبید بن عمیر سے سنا وہ فرماتے تھے کہ حضرات انبیاء ؑ کے خواب وحی ہوتے ہیں، پھر انہوں نے بطور تائید یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ﴾ ’’(بیٹے!) میں خواب میں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیان کیا، کہ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے عمرو بن دینار سے بیان کیا، کہا کہ مجھے کریب نے خبر دی ابن عباس سے، انہوں نے بیان کیا کہ ایک رات میں اپنی خالہ میمونہ ؓ کے یہاں سویا اور رسول کریم ﷺ بھی وہاں سوگئے۔ پھر رات کا ایک حصہ جب گزر گیا آپ کھڑے ہوئے اور ایک لٹکی ہوئی مشک سے ہلکا سا وضو کیا۔ عمرو (راوی حدیث نے) اس وضو کو بہت ہی ہلکا بتلایا (یعنی اس میں آپ ﷺ نے بہت کم پانی استعمال فرمایا) پھر آپ نماز کے لیے کھڑے ہوئے اس کے بعد میں نے بھی اٹھ کر اسی طرح وضو کیا جیسے آپ ﷺ نے کیا تھا پھر میں آپ ﷺ کے بائیں طرف کھڑا ہوگیا۔ لیکن آپ ﷺ نے مجھے داہنی طرف پھیر دیا پھر اللہ تعالی نے جتنا چاہا آپ نے نماز پڑھی پھر آپ لیٹ رہے پھر سوگئے۔ یہاں تک کہ آپ خراٹے لینے لگے۔ آخر مؤذن نے آکر آپ کو نماز کی خبر دی اور آپ اس کے ساتھ نماز کے لیے تشریف لے گئے اور نماز پڑھائی مگر (نیا) وضو نہیں کیا سفیان نے کہا۔ ہم نے عمرو بن دینار سے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ (سوتے وقت) آپ ﷺ کی (صرف) آنکھیں سوتی تھیں لیکن دل نہیں سوتا تھا۔ عمرو بن دینار نے جواب دیا کہ میں نے عبید بن عمیرسے سنا وہ کہتے تھے کہ انبیاء کا خواب بھی وحی ہوتا ہے پھر عبید نے اس آیت کی تلاوت کی (ترجمہ): میں نے خواب دیکھا ہے کہ تمہیں ذبح کر رہا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ حضرت ابن عباس ؓ نے وضو کیا اور نماز میں شریک ہوئے حالانکہ اس وقت وہ نابالغ لڑکے تھے آیت مذکورہ سورہ صافات میں ہے حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ سے کہا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں یہاں خواب بمعنی وحی ہے صاحب خیر جاری لکھتے ہیں: ولما کانت وحیا لم یکن نومھم نوم غفلة مودیة إلی الحدیث بل نوم تنبه وتیقظ وانتباہ وانتظار للوحي الخاور جب انبیا کا خواب بھی وحی ہے تو ان کا سونا نہ ایسی غفلت کا سونا جس سے وضو کرنا فرض لازم آئے بلکہ وہ سونا محض ہوشیار ہونا اور وحی کا انتظار کرنے کاسوناہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): One night I slept at the house of my aunt Maimuna and the Prophet (ﷺ) slept (too). He got up (for prayer) in the last hours of the night and performed a light ablution from a hanging leather skin. ('Amr, the sub-narrator described that the ablution was very light). Then he stood up for prayer and I got up too and performed the ablution in the same way and joined him on his left side. He pulled me to the right and prayed as much as Allah will. Then he lay down and slept and I heard his breath sounds till the Mu'adh-dhin came to him to inform him about the (Fajr) prayer. He left with him for the prayer and prayed without repeating the ablution. (Sufyan the subnarrator said: We said to 'Amr, "Some people say, 'The eyes of the Prophet (ﷺ) sleep but his heart never sleeps.' " 'Amr said, "'Ubaid bin 'Umair said, 'The dreams of the Prophets are Divine Inspirations. Then he recited, '(O my son), I have seen in dream that I was slaughtering you (offering you in sacrifice).") (37.102)