تشریح:
(1) اس سے معلوم ہوا کہ عورت کو مسجد میں جانے کے لیے اپنے شوہر سے اجازت لینا ضروری ہے۔ اسے یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ نماز ادا کرنا تو اللہ کا حق ہے اس میں شوہر سے اجازت لینے کی کیا ضرورت۔ اگر حالات ناساز گار ہوں یا فتنے فساد کا اندیشہ ہو تو خاوند اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اسے روک بھی سکتا ہے۔ اگرچہ اس روایت میں مسجد جانے کا ذکر نہیں لیکن علامہ اسماعیلی نے جب اس روایت کو اسی سند سے بیان کیا ہے تو اس میں مسجد کے الفاظ بیان کیے ہیں۔ (فتح الباری:484/2)
(2) اجازت لینے کا معاملہ صرف مسجد کے ساتھ خاص نہیں بلکہ عورت کو چاہیے کہ وہ عیدین اور اپنے کسی عزیز کی قبر کی زیارت کے لیے بھی اپنے شوہر سے اجازت لے، جب مباح اور جائز کاموں میں اجازت لینا ضروری ہے تو فرائض و مستحبات کی ادائیگی بھی شوہر کی اجازت کے بغیر نہیں ہونی چاہیے، مثلاً: ادائے شہادت یا فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے باہر جانا یا اپنے والدین اور عزیز و اقارب کی ملاقات کے لیے جانا، یہ سب کام خاوند کی اجازت پر موقوف ہیں۔ (عمدة القاري:653/4)۔۔ تنبیہ: محمد فواد کے نسخے میں اس جگہ سابقہ باب: (164) اپنی دونوں حدیثوں (870 اور 871) کی نئی ترقیم: 874 اور 875 کے ساتھ مکرر لایا گیا ہے، جبکہ اصل نسخے میں یہ تکرار نہیں ہے، اس لیے اس تکرار کو ہم نے حذف کر دیا ہے۔