صحیح بخاری
10. کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
162. باب: بچوں کے وضو کرنے کا بیان۔
صحيح البخاري
10. كتاب الأذان
162. بَابُ وُضُوءِ الصِّبْيَانِ،
Sahi-Bukhari
10. Call to Prayers (Adhaan)
162. Chapter: The ablution for boys (youngsters). When they should perform Ghusl (take a bath) and Tuhur (purification). Their attendance at congregational prayers and their rows in the prayers
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: The ablution for boys (youngsters). When they should perform Ghusl (take a bath) and Tuhur (purification). Their attendance at congregational prayers and their rows in the prayers)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ان پر غسل اور وضو اور جماعت، عیدین، جنازوں میں ان کی حاضری اور ان کی صفوں میں شرکت کب ضروری ہو گی اور کیونکر ہو گی۔
875.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ان سے کسی آدمی نے دریافت کیا: آیا رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ آپ کو کبھی باہر حاضر ہونے کا اتفاق ہوا ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، اور اگر میرا مرتبہ اور مقام رسول اللہ ﷺ کے ہاں اتنا نہ ہوتا تو میں چھوٹے ہونے کی وجہ سے آپ کے ساتھ حاضر نہیں ہو سکتا تھا۔ آپ پہلے اس نشان کے پاس آئے جو کثیر بن صلت کے مکان کے قریب ہے، وہاں آپ نے خطبہ دیا، پھر عورتوں کے پاس تشریف لائے، انہیں وعظ و نصیحت کی اور صدقہ و خیرات کرنے کا حکم دیا، چنانچہ کوئی عورت (اپنی بالی کوئی انگوٹھی اور کوئی) اپنے زیور کی طرف ہاتھ بڑھا کر اسے اتار کر حضرت بلال ؓ کی چادر میں ڈالنے لگی۔ اس کے بعد آپ حضرت بلال ؓ کے ہمراہ اپنے گھر لوٹ آئے۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ عنوان بندی کے سلسلے میں بہت محتاط رویہ اختیار کرتے ہیں، چنانچہ آپ نے بچوں کے وضو کے متعلق وثوق اور جزم کے ساتھ کوئی فیصلہ نہیں کیا، صرف اس کی مشروعیت بیان کی ہے کیونکہ اگر اسے استحباب کا درجہ دیتے تو اس کا تقاضا تھا کہ بچوں کی وضو کے بغیر بھی نماز صحیح ہو جائے اور اگر اس کے واجب ہونے کا فیصلہ کرتے تو ضروری تھا کہ بچے کو اس کے ترک پر سزا دی جاتی کیونکہ واجب کا تارک سزا کا حق دار ہوتا ہے، اس لیے امام بخاری نے ایک ایسا عنوان تجویز کیا جو اس قسم کے اعتراضات سے محفوظ ہے۔ پھر آپ نے بچوں کے متعلق غسل وغیرہ کا ذکر نہیں کیا کیونکہ ان کے لیے کوئی موجب غسل نہیں۔ (فتح الباري:446/2) (2) مذکورہ عنوان کئی ایک اجزاء پر مشتمل ہے: پہلا جز بچوں کے لیے وضو کی مشروعیت ہے۔ دوسرا جز یہ ہے کہ ان پر غسل اور وضو کب واجب ہوتا ہے۔ تیسرا جز بچوں کے لیے نماز باجماعت، عیدین اور جنازوں میں شرکت کرنے سے متعلق ہے اور چوتھا جز ان کی صف بندی سے متعلق ہے۔ اس سلسلے میں امام بخاری ؒ نے سات احادیث ذکر کی ہیں: پہلی حدیث ابن عباس ؓ کی ہے جس میں قبر پر نماز پڑھنے کا ذکر ہے۔ یہ حدیث لانے کا مقصد یہ ہے کہ بچوں کی نماز میں شرکت کو ثابت کیا جائے اور صف بندی کو بیان کیا جائے، چنانچہ اس حدیث میں صراحت کے ساتھ ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے نابالغ ہونے کے باوجود نماز میں شرکت کی اور صف بندی میں حصہ لیا۔ دوسری حدیث حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے جس سے ثابت کیا ہے کہ غسل جمعہ بچوں پر واجب نہیں کیونکہ اس کے وجوب کے لیے بالغ ہونا شرط ہے۔ جمہور علماء کا یہی موقف ہے کہ غسل کے وجوب کے لیے بلوغت شرط ہے۔ تیسری حدیث بھی حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے جس میں وضاحت ہے کہ انہوں نے وضو کیا اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مل کر نماز ادا کی۔ اس سے ان کا وضو اور نماز ادا کرنا صحیح ثابت ہوا۔ چوتھی حدیث حضرت انس ؓ کی ہے جس میں حضرت انس ؓ کے ساتھ ایک بچے کا صف بنانا اور نماز پڑھنا مذکور ہے۔ حدیث میں لفظ یتیم آیا ہے جس کا اطلاق قبل از بلوغ پر ہوتا ہے۔ پانچویں حدیث حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے جس میں نماز عشاء دیر سے پڑھنے کا ذکر ہے تاآنکہ حضرت عمر ؓ نے بآواز بلند کہا کہ اب تو بچے اور عورتیں ہو چکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں کے ساتھ بچے بھی نماز میں شرکت کے لیے موجود تھے۔ چھٹی حدیث حضرت ابن عباس ؓ کی ہے جس میں ان کے صف میں شامل ہونے اور رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز ادا کرنے کا ذکر ہے۔ اس میں صراحت ہے کہ آپ اس وقت قریب البلوغ تھے۔ آخر میں امام بخاری ؒ نے حضرت ابن عباس ؓ ہی سے مروی ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز عید میں شرکت کی۔ اس طرح امام بخاری ؒ نے اپنے عنوان کے تمام اجزاء کو احادیث سے ثابت کیا ہے۔ واضح رہے کہ ان کی صف بندی سے مراد ان کا لوگوں کے ساتھ صف میں کھڑا ہونا ہے، اس سے بچوں کی خاص صف مراد نہیں ہے۔ (فتح الباري:447/2) (3) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ بچے جب سن شعور کو پہنچ جائیں تو وہ عیدین اور جنازوں میں شرکت کر سکتے ہیں اور انہیں وضو بھی کرنا ہو گا اگرچہ وہ ان احکام کے مکلف نہیں، تاہم انہیں عادت ڈالنے کے لیے ان باتوں پر صغر سنی ہی میں عمل کرانا چاہیے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
852
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
863
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
863
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
863
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
حدیث میں بچے کے متعلق ہے کہ وہ مرفوع القلم ہے لیکن اگر وہ بلوغت سے پہلے نماز پڑھے تو کیا قابل اعتنا ہے یا نہیں؟ جمہور کے نزدیک اگر بچہ صاحب تمیز ہے تو اس کی طرف سے احکام کی بجا آوری کا اعتبار ہو گا لیکن کفر و الحاد کی وجہ سے اسے سزا نہیں دی جائے گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہاں اسی مسئلے کو بیان کیا ہے کہ اس کی دو حالتیں ہیں: ایک اس کی عبادت کا معتبر ہونا، دوسری اس پر اسے ثواب کا ملنا۔ ان سب چیزوں کا اعتبار ہو گا لیکن اگر وہ انہیں ترک کرے گا تو عقاب و سزا کا حق دار نہیں ہو گا۔
اور ان پر غسل اور وضو اور جماعت، عیدین، جنازوں میں ان کی حاضری اور ان کی صفوں میں شرکت کب ضروری ہو گی اور کیونکر ہو گی۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ان سے کسی آدمی نے دریافت کیا: آیا رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ آپ کو کبھی باہر حاضر ہونے کا اتفاق ہوا ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، اور اگر میرا مرتبہ اور مقام رسول اللہ ﷺ کے ہاں اتنا نہ ہوتا تو میں چھوٹے ہونے کی وجہ سے آپ کے ساتھ حاضر نہیں ہو سکتا تھا۔ آپ پہلے اس نشان کے پاس آئے جو کثیر بن صلت کے مکان کے قریب ہے، وہاں آپ نے خطبہ دیا، پھر عورتوں کے پاس تشریف لائے، انہیں وعظ و نصیحت کی اور صدقہ و خیرات کرنے کا حکم دیا، چنانچہ کوئی عورت (اپنی بالی کوئی انگوٹھی اور کوئی) اپنے زیور کی طرف ہاتھ بڑھا کر اسے اتار کر حضرت بلال ؓ کی چادر میں ڈالنے لگی۔ اس کے بعد آپ حضرت بلال ؓ کے ہمراہ اپنے گھر لوٹ آئے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ عنوان بندی کے سلسلے میں بہت محتاط رویہ اختیار کرتے ہیں، چنانچہ آپ نے بچوں کے وضو کے متعلق وثوق اور جزم کے ساتھ کوئی فیصلہ نہیں کیا، صرف اس کی مشروعیت بیان کی ہے کیونکہ اگر اسے استحباب کا درجہ دیتے تو اس کا تقاضا تھا کہ بچوں کی وضو کے بغیر بھی نماز صحیح ہو جائے اور اگر اس کے واجب ہونے کا فیصلہ کرتے تو ضروری تھا کہ بچے کو اس کے ترک پر سزا دی جاتی کیونکہ واجب کا تارک سزا کا حق دار ہوتا ہے، اس لیے امام بخاری نے ایک ایسا عنوان تجویز کیا جو اس قسم کے اعتراضات سے محفوظ ہے۔ پھر آپ نے بچوں کے متعلق غسل وغیرہ کا ذکر نہیں کیا کیونکہ ان کے لیے کوئی موجب غسل نہیں۔ (فتح الباري:446/2) (2) مذکورہ عنوان کئی ایک اجزاء پر مشتمل ہے: پہلا جز بچوں کے لیے وضو کی مشروعیت ہے۔ دوسرا جز یہ ہے کہ ان پر غسل اور وضو کب واجب ہوتا ہے۔ تیسرا جز بچوں کے لیے نماز باجماعت، عیدین اور جنازوں میں شرکت کرنے سے متعلق ہے اور چوتھا جز ان کی صف بندی سے متعلق ہے۔ اس سلسلے میں امام بخاری ؒ نے سات احادیث ذکر کی ہیں: پہلی حدیث ابن عباس ؓ کی ہے جس میں قبر پر نماز پڑھنے کا ذکر ہے۔ یہ حدیث لانے کا مقصد یہ ہے کہ بچوں کی نماز میں شرکت کو ثابت کیا جائے اور صف بندی کو بیان کیا جائے، چنانچہ اس حدیث میں صراحت کے ساتھ ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے نابالغ ہونے کے باوجود نماز میں شرکت کی اور صف بندی میں حصہ لیا۔ دوسری حدیث حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے جس سے ثابت کیا ہے کہ غسل جمعہ بچوں پر واجب نہیں کیونکہ اس کے وجوب کے لیے بالغ ہونا شرط ہے۔ جمہور علماء کا یہی موقف ہے کہ غسل کے وجوب کے لیے بلوغت شرط ہے۔ تیسری حدیث بھی حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے جس میں وضاحت ہے کہ انہوں نے وضو کیا اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مل کر نماز ادا کی۔ اس سے ان کا وضو اور نماز ادا کرنا صحیح ثابت ہوا۔ چوتھی حدیث حضرت انس ؓ کی ہے جس میں حضرت انس ؓ کے ساتھ ایک بچے کا صف بنانا اور نماز پڑھنا مذکور ہے۔ حدیث میں لفظ یتیم آیا ہے جس کا اطلاق قبل از بلوغ پر ہوتا ہے۔ پانچویں حدیث حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے جس میں نماز عشاء دیر سے پڑھنے کا ذکر ہے تاآنکہ حضرت عمر ؓ نے بآواز بلند کہا کہ اب تو بچے اور عورتیں ہو چکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں کے ساتھ بچے بھی نماز میں شرکت کے لیے موجود تھے۔ چھٹی حدیث حضرت ابن عباس ؓ کی ہے جس میں ان کے صف میں شامل ہونے اور رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز ادا کرنے کا ذکر ہے۔ اس میں صراحت ہے کہ آپ اس وقت قریب البلوغ تھے۔ آخر میں امام بخاری ؒ نے حضرت ابن عباس ؓ ہی سے مروی ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز عید میں شرکت کی۔ اس طرح امام بخاری ؒ نے اپنے عنوان کے تمام اجزاء کو احادیث سے ثابت کیا ہے۔ واضح رہے کہ ان کی صف بندی سے مراد ان کا لوگوں کے ساتھ صف میں کھڑا ہونا ہے، اس سے بچوں کی خاص صف مراد نہیں ہے۔ (فتح الباري:447/2) (3) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ بچے جب سن شعور کو پہنچ جائیں تو وہ عیدین اور جنازوں میں شرکت کر سکتے ہیں اور انہیں وضو بھی کرنا ہو گا اگرچہ وہ ان احکام کے مکلف نہیں، تاہم انہیں عادت ڈالنے کے لیے ان باتوں پر صغر سنی ہی میں عمل کرانا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمرو بن علی فلاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحیٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبد الرحمن بن عابس نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابن عباس ؓ سے سنا اور ان سے ایک شخص نے یہ پوچھا تھا کہ کیا تم نے (عورتوں کا) نکلنا عید کے دن آنحضرت ﷺ کے ساتھ دیکھا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں دیکھا ہے اگر میں آپ کا رشتہ دار عزیز نہ ہوتا تو کبھی نہ دیکھتا (یعنی میری کم سنی اور قرابت کی وجہ سے آنحضرت مجھ کو اپنے ساتھ رکھتے تھے) کثیر بن صلت کے مکان کے پاس جو نشان ہے پہلے وہاں آپ ﷺ تشریف لائے وہاں آپ ﷺ نے خطبہ سنایا پھر آپ ﷺ عورتوں کے پاس تشریف لائے اور انہیں بھی وعظ ونصیحت کی۔ آپ ﷺ نے ان سے خیرات کرنے کے لیے کہا، چنانچہ عورتوں نے اپنے چھلے اور انگوٹھیاں اتار اتار کر بلال ؓ کے کپڑے میں ڈالنی شروع کر دیے۔ آخر آنحضور ﷺ بلال ؓ کے ساتھ گھر تشریف لائے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت ابن عباس ؓ کمسن تھے، باوجود اس کے عید میں شریک ہوئے، یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے اور اس سے عورتوں کا عید گاہ میں جانا بھی ثابت ہوا۔ چونکہ احناف کے ہاں عید گاہ میں عورتوں کا جاناجائز نہیں ہے، اس لیے ایک دیوبندی ترجمہ بخاری میں یہاں ترجمہ ہی بدل دیا گیا ہے چنانچہ وہ ترجمہ یوں کرتے ہیں’’ان سے ایک شخص نے یہ پوچھا کہ کیا نبی کریم ﷺ کے ساتھ آپ عیدگاہ گئے تھے۔‘‘ حالانکہ پوچھا یہ جارہا تھا کہ کیا تم نے عید کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عورتوں کا نکلنا دیکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہاں ضرور دیکھا ہے۔ یہ بدلا ہوا ترجمہ دیوبندی تفہیم البخاری پارہ: 4 ص: 32 پر دیکھا جا سکتا ہے۔ غالباً ایسے ہی حضرات کے لیے کہا گیا ہے خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں وفقنا اللہ لما یحب ویرضی۔ آمین!
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdur Rahman bin 'Abis (RA): A person asked Ibn Abbas (RA) , "Have you ever presented yourself at the ('Id) prayer with Allah's Apostle?" He replied, "Yes." And had it not been for my kinship (position) with the Prophet (ﷺ) it would not have been possible for me to do so (for he was too young). The Prophet (ﷺ) went to the mark near the house of Kathir bin As-Salt and delivered a sermon. He then went towards the women. He advised and reminded them and asked them to give alms. So the woman would bring her hand near her neck and take off her necklace and put it in the garment of Bilal (RA) . Then the Prophet (ﷺ) and Bilal (RA) came to the house."