Sahi-Bukhari
10. Call to Prayers (Adhaan)
164. Chapter: The waiting of the people for the religious learned Imam to get up (after the prayer to depart)
باب: لوگوں کا نماز کے بعد امام کے اٹھنے کا انتظار کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: The waiting of the people for the religious learned Imam to get up (after the prayer to depart))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
881.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: اگر نبی ﷺ کو ان حالات کا علم ہوتا جو عورتوں نے آج پیدا کر لیے ہیں تو یقینا انہیں مسجد میں جانے سے منع کر دیتے جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔ (یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ) میں نے حضرت عَمرہ سے دریافت کیا: واقعی بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں۔
تشریح:
(1) ان احادیث کا باب سابق سے تعلق ہے جس میں بیان ہوا تھا کہ مستورات رات اور اندھیرے میں نماز کے لیے مسجد کا رخ کر سکتی ہیں، چنانچہ حدیث عائشہ میں ہے کہ صحابیات مبشرات نماز صبح مسجد نبوی میں ادا کرتی تھیں۔ نماز سے فراغت کے بعد منہ اندھیرے اپنے گھروں کو واپس ہو جاتی تھیں۔ اس حدیث میں ہے کہ وہ اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہ جاتی تھیں۔ اس سے مراد معرفت جنس نہیں ہے کہ مرد کی یا عورت کی معرفت نہ ہوتی تھی بلکہ معرفت شخص ہے، یعنی عائشہ ؓ کو خدیجہ سے نہ پہچانا جاتا تھا جیسا کہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ وہ ایک دوسرے سے پہچانی نہ جاتی تھیں۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:872) حدیث ابو قتادہ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ عہد نبوی میں صحابیات بھی رسول اللہ ﷺ کی معیت میں نماز باجماعت ادا کرتی تھیں۔ جب کسی کا بچہ رونے لگتا تو رسول اللہ ﷺ نماز مختصر کر دیتے۔ حدیث میں صراحت ہے کہ قراءت میں تخفیف کر دیتے تاکہ ماں اپنے بچے کی وجہ سے پریشان نہ ہو۔ دوسری احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ ایسے حالات میں عورتوں پر پابندی تھی کہ خوشبو لگا کر، فیشنی کپڑے پہن کر اور آواز والے زیورات سے مسجد میں نہ آئیں بلکہ سادہ لباس میں اپنے گھروں سے نکلیں۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ عورتوں کو مسجد میں آنے کی اجازت دینے کے باوجود آپ نے انہیں ترغیب دی کہ ان کا گھر میں نماز پڑھنا بہتر ہے۔ (2) آخری حدیث عائشہ سے بعض حضرات نے یہ مسئلہ کشید کیا ہے کہ عورتیں مطلق طور پر مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے نہیں آ سکتیں، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ ان حضرات کا مذکورہ استنباط محل نظر ہے کیونکہ حضرت عائشہ ؓ کے قول سے مساجد میں عورتوں کی حاضری کا حکم تبدیل نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ حضرت عائشہ ؓ نے اسے جس شرط کے ساتھ معلق کیا وہ نہیں پائی گئی۔ انہوں نے یہ کہا کہ اگر رسول اللہ ﷺ یہ حالات دیکھتے تو انہیں منع کر دیتے۔ اس پر کہا جا سکتا ہے کہ آپ نے ان حالات کو نہ دیکھا اور نہ اس سے منع فرمایا، اس لیے حکم نبوی اپنی جگہ پر برقرار رہا۔ خود حضرت عائشہ ؓ نے بھی منع کی صراحت نہیں فرمائی اگرچہ ان کے کلام سے منع کا اشارہ نکلتا ہے۔ اس کے علاوہ قابل غور بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تو ضرور معلوم تھا کہ آئندہ حالات میں عورتوں کے متعلق کیا کیا نئے امور پیدا ہوں گے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو مساجد سے روکنے کے لیے کوئی وحی نازل نہیں فرمائی۔ اگر نئے حالات کی وجہ سے عورتوں کو منع کرنا لازم آتا تو مساجد کے علاوہ دوسرے مقامات بازار وغیرہ سے بھی انہیں ضرور منع کر دیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ فیشن پرستی کی لپیٹ میں تمام عورتیں نہیں آتیں بلکہ کچھ عورتیں اس کا شکار ہوتی ہیں، لہٰذا تمام پر پابندی لگانا کوئی عقل مندی نہیں، اس لیے بہتر یہ ہے کہ ان امور کا سدباب کیا جائے جو منکرات و فواحش کا پیش خیمہ ہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’عورتیں خوشبو لگا کر اور زیورات سے مزین ہو کر گھروں سے باہر نہ نکلیں بلکہ سادہ لباس پہن کر مساجد میں آئیں۔ رات کی پابندی کا ذکر بھی احادیث میں ملتا ہے۔‘‘ (فتح الباري:452/2) ان حقائق کے پیش نظر ہمارا موقف ہے کہ عورتیں شرعی قیود کا لحاظ کرتے ہوئے مسجد میں نماز ادا کر سکتی ہیں اگرچہ ان کا گھروں میں نماز پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔ واللہ أعلم۔ (3) اس حدیث کے آخر میں بنی اسرائیل کی عورتوں پر بھی مساجد میں داخلے کے متعلق پابندی کا ذکر ہے۔ اس کی وضاحت ایک موقوف اثر میں اس طرح ہے کہ بنی اسرائیل کی عورتوں نے مردوں سے تاک جھانک کے لیے اپنی ٹانگوں سے لمبے لمبے بانس باندھ لیے تاکہ اونچی ہو کر مردوں کو دیکھ سکیں۔ اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے انہیں مساجد میں آنے سے روک دیا اور ان پر حیض مسلط کر دیا۔ (المصنف لعبد الرزاق:149/3، حدیث:5114) لیکن یہ روایت مرفوع روایت کے مقابلے میں ناقابل التفات ہے جیسا کہ کتاب الحیض کے آغاز میں اپنے فوائد میں ہم اس کی وضاحت کر آئے ہیں، اس لیے اگر یہ بات صحیح ہے کہ بنو اسرائیل کی عورتوں کو مساجد میں آنے سے روک دیا گیا تھا (کیونکہ یہ موقوف قول ہے) تو اس کی کیا وجہ تھی؟ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ کسی صحیح مرفوع روایت میں نہ روکے جانے والی بات بیان ہوئی ہے اور نہ اس کی کوئی وجہ ہی ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
858
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
869
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
869
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
869
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
صحیح بخاری کے اکثر نسخوں میں یہ باب نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر اور علامہ عینی رحمہما اللہ نے بھی اس کا ذکر نہیں کیا، بلکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے "تنبیہ" کے عنوان سے اس کی تردید کی ہے۔ (فتح الباری:2/452) اس کے باوجود ناشرین نے اس عنوان کو فتح الباری اور عمدۃ القاری میں لکھ دیا ہے، حالانکہ شرح میں اس کا کہیں ذکر نہیں۔ ہمارے نزدیک یہ باب در باب کی قبیل سے ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ عادت ہے کہ ایک حدیث جس کا تعلق قائم کردہ عنوان سے ہوتا ہے اور اس میں کسی نئی بات کا ذکر ہوتا ہے، اس حدیث پر ایک نیا عنوان قائم کر کے اس کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں، پھر آگے جو احادیث بیان کرتے ہیں ان کا تعلق سابق عنوان سے ہوتا ہے۔ اس قسم کے عنوان کو ہنگامی طور پر درمیان میں ذکر کر دیتے ہیں۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: اگر نبی ﷺ کو ان حالات کا علم ہوتا جو عورتوں نے آج پیدا کر لیے ہیں تو یقینا انہیں مسجد میں جانے سے منع کر دیتے جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔ (یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ) میں نے حضرت عَمرہ سے دریافت کیا: واقعی بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں۔
حدیث حاشیہ:
(1) ان احادیث کا باب سابق سے تعلق ہے جس میں بیان ہوا تھا کہ مستورات رات اور اندھیرے میں نماز کے لیے مسجد کا رخ کر سکتی ہیں، چنانچہ حدیث عائشہ میں ہے کہ صحابیات مبشرات نماز صبح مسجد نبوی میں ادا کرتی تھیں۔ نماز سے فراغت کے بعد منہ اندھیرے اپنے گھروں کو واپس ہو جاتی تھیں۔ اس حدیث میں ہے کہ وہ اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہ جاتی تھیں۔ اس سے مراد معرفت جنس نہیں ہے کہ مرد کی یا عورت کی معرفت نہ ہوتی تھی بلکہ معرفت شخص ہے، یعنی عائشہ ؓ کو خدیجہ سے نہ پہچانا جاتا تھا جیسا کہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ وہ ایک دوسرے سے پہچانی نہ جاتی تھیں۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:872) حدیث ابو قتادہ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ عہد نبوی میں صحابیات بھی رسول اللہ ﷺ کی معیت میں نماز باجماعت ادا کرتی تھیں۔ جب کسی کا بچہ رونے لگتا تو رسول اللہ ﷺ نماز مختصر کر دیتے۔ حدیث میں صراحت ہے کہ قراءت میں تخفیف کر دیتے تاکہ ماں اپنے بچے کی وجہ سے پریشان نہ ہو۔ دوسری احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ ایسے حالات میں عورتوں پر پابندی تھی کہ خوشبو لگا کر، فیشنی کپڑے پہن کر اور آواز والے زیورات سے مسجد میں نہ آئیں بلکہ سادہ لباس میں اپنے گھروں سے نکلیں۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ عورتوں کو مسجد میں آنے کی اجازت دینے کے باوجود آپ نے انہیں ترغیب دی کہ ان کا گھر میں نماز پڑھنا بہتر ہے۔ (2) آخری حدیث عائشہ سے بعض حضرات نے یہ مسئلہ کشید کیا ہے کہ عورتیں مطلق طور پر مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے نہیں آ سکتیں، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ ان حضرات کا مذکورہ استنباط محل نظر ہے کیونکہ حضرت عائشہ ؓ کے قول سے مساجد میں عورتوں کی حاضری کا حکم تبدیل نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ حضرت عائشہ ؓ نے اسے جس شرط کے ساتھ معلق کیا وہ نہیں پائی گئی۔ انہوں نے یہ کہا کہ اگر رسول اللہ ﷺ یہ حالات دیکھتے تو انہیں منع کر دیتے۔ اس پر کہا جا سکتا ہے کہ آپ نے ان حالات کو نہ دیکھا اور نہ اس سے منع فرمایا، اس لیے حکم نبوی اپنی جگہ پر برقرار رہا۔ خود حضرت عائشہ ؓ نے بھی منع کی صراحت نہیں فرمائی اگرچہ ان کے کلام سے منع کا اشارہ نکلتا ہے۔ اس کے علاوہ قابل غور بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تو ضرور معلوم تھا کہ آئندہ حالات میں عورتوں کے متعلق کیا کیا نئے امور پیدا ہوں گے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو مساجد سے روکنے کے لیے کوئی وحی نازل نہیں فرمائی۔ اگر نئے حالات کی وجہ سے عورتوں کو منع کرنا لازم آتا تو مساجد کے علاوہ دوسرے مقامات بازار وغیرہ سے بھی انہیں ضرور منع کر دیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ فیشن پرستی کی لپیٹ میں تمام عورتیں نہیں آتیں بلکہ کچھ عورتیں اس کا شکار ہوتی ہیں، لہٰذا تمام پر پابندی لگانا کوئی عقل مندی نہیں، اس لیے بہتر یہ ہے کہ ان امور کا سدباب کیا جائے جو منکرات و فواحش کا پیش خیمہ ہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’عورتیں خوشبو لگا کر اور زیورات سے مزین ہو کر گھروں سے باہر نہ نکلیں بلکہ سادہ لباس پہن کر مساجد میں آئیں۔ رات کی پابندی کا ذکر بھی احادیث میں ملتا ہے۔‘‘ (فتح الباري:452/2) ان حقائق کے پیش نظر ہمارا موقف ہے کہ عورتیں شرعی قیود کا لحاظ کرتے ہوئے مسجد میں نماز ادا کر سکتی ہیں اگرچہ ان کا گھروں میں نماز پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔ واللہ أعلم۔ (3) اس حدیث کے آخر میں بنی اسرائیل کی عورتوں پر بھی مساجد میں داخلے کے متعلق پابندی کا ذکر ہے۔ اس کی وضاحت ایک موقوف اثر میں اس طرح ہے کہ بنی اسرائیل کی عورتوں نے مردوں سے تاک جھانک کے لیے اپنی ٹانگوں سے لمبے لمبے بانس باندھ لیے تاکہ اونچی ہو کر مردوں کو دیکھ سکیں۔ اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے انہیں مساجد میں آنے سے روک دیا اور ان پر حیض مسلط کر دیا۔ (المصنف لعبد الرزاق:149/3، حدیث:5114) لیکن یہ روایت مرفوع روایت کے مقابلے میں ناقابل التفات ہے جیسا کہ کتاب الحیض کے آغاز میں اپنے فوائد میں ہم اس کی وضاحت کر آئے ہیں، اس لیے اگر یہ بات صحیح ہے کہ بنو اسرائیل کی عورتوں کو مساجد میں آنے سے روک دیا گیا تھا (کیونکہ یہ موقوف قول ہے) تو اس کی کیا وجہ تھی؟ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ کسی صحیح مرفوع روایت میں نہ روکے جانے والی بات بیان ہوئی ہے اور نہ اس کی کوئی وجہ ہی ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالکؒ نے یحیٰ بن سعید سے خبر دی، ان سے عمرہ بنت عبدالرحمن نے، ان سے حضرت عائشہ ؓ نے، انہوں نے فرمایا کہ آج عورتوں میں جو نئی باتیں پیدا ہو گئی ہیں اگر رسول کریم ﷺ انہیں دیکھ لیتے توان کو مسجد میں آنے سے روک دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔ میں نے پوچھا کہ کیا بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا؟ آپ نے فرمایاکہ ہاں۔
حدیث حاشیہ:
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ اس سے یہ نہیں نکلتا کہ ہمارے زمانے میں عورتوں کو مسجد میں جانا منع ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے نہ یہ زمانہ پایا نہ منع کیا اور شریعت کے احکام کسی کے قیاس اور رائے سے نہیں بدل سکتے۔ مولانا وحید الزماں مرحوم فرماتے ہیں کہ یہ ام المؤمنین کی رائے تھی کہ اگر آنحضرت ﷺ یہ زمانہ پاتے تو ایسا کرتے اور شاید ان کے نزدیک عورتوں کا مسجد میں جانا منع ہوگا اس لیے بہتر یہ ہے کہ فساد اور فتنے کا خیال رکھا جائے اور اس سے پرہیز کیا جائے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے بھی خوشبو لگا کر اور زینت کر کے عورتوں کونکلنے سے منع کیا۔ اسی طرح رات کی قید بھی لگائی اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے جب یہ حدیث بیان کی کہ اللہ کی لونڈیوں کو اللہ کی مسجد میں جانے سے نہ روکو تو ان کے بیٹے واقد یا بلال نے کہا کہ ہم تو روکیں گے۔ عبداللہ نے ان کو ایک گھونسہ لگایا اور سخت سست کہا اور ایک روایت میں یوں ہے کہ مرنے تک بات نہ کی اور یہی سزا ہے اس نالائق کی جو آنحضرت کی حدیث سن کر سر نہ جھکائے اور ادب کے ساتھ تسلیم نہ کرے۔ وکیع نے کہا کہ شعار یعنی قربانی کے اونٹ کا کوہان چیر کر خون نکال دینا سنت ہے۔ ایک شخص بولا ابو حنیفہ تو اس کو مثلہ کہتے ہیں۔ وکیع نے کہا تو اس لائق ہے کہ قید رہے جب تک توبہ نہ کرے، میں تو آنحضرت ﷺ کی حدیث بیان کرتا ہوں اور تو ابو حنیفہ ؒ کا قول لاتا ہے۔ اس روایت سے مقلدین بے انصاف کو سبق لینا چاہیے اگر حضرت عمر فاروق ؓ زندہ ہوتے اور ان کے سامنے کوئی حدیث کے خلاف کسی مجتہد کا قول لاتا تو گردن مارنے کا حکم دیتے ارے لوگو ہائے خرابی یہ ایمان ہے یا کفر کہ پیغمبر کا فرمودہ سن کر پھر دوسرے کی رائے اور قیاس کو اس کے خلاف منظور کرتے ہو تم جانو اپنے پیغمبر کو جو جواب قیامت کے دن دینا ہو وہ دے لینا۔ وماعلینا إلا البلاغ (مولانا وحید الزماں)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): Had Allah's Apostle (ﷺ) known what the women were doing, he would have forbidden them from going to the mosque as the women of Bani Israel had been forbidden. Yahya bin Said (a sub-narrator) asked 'Amra (another sub-narrator), "Were the women of Bani Israel forbidden?" She replied "Yes."