تشریح:
(1) اس حدیث میں امام بخاری ؒ نے خطبے کے لیے پہلے پہل آنے والوں کی فضیلت کو بیان کیا ہے لیکن اس میں اختلاف ہے کہ فضیلت کا وقت صبح ہی سے شروع ہو جاتا ہے یا زوال آفتاب کے بعد جب نماز جمعہ کا وقت شروع ہوتا ہے، چنانچہ امام مالکؒ بعد زوال کے قائل ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے تعامل اہل مدینہ اس کے موافق نہیں پایا بلکہ وہ زوال کے بعد مسجد میں آتے تھے۔ اس کے علاوہ لفظ راح، رواح سے مشتق ہے جس کے معنی زوال کے بعد چلنے کے ہیں جبکہ جمہور اہل علم نے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا۔ ان کا استدلال تعامل سلف ہے کہ یہ حضرات صبح ہی سے مسجد میں آنا شروع کر دیتے تھے اور فراغت کے بعد واپس جا کر دوپہر کا کھانا کھاتے اور قیلولہ کرتے تھے، نیز لغت عرب میں رواح کے معنی مطلق جانے کے بھی آتے ہیں۔ اس کے علاوہ ممکن ہے کہ اہل مدینہ اپنی ضروریات و مشاغل کی وجہ سے صبح سویرے جمعے کے لیے نہ آتے ہوں، اس لیے ایسے حالات میں تعامل اہل مدینہ کو پیش کرنا صحیح نہیں۔
(2) واضح رہے کہ بعض حضرات نے اس حدیث سے مرغی کی قربانی دینے کا مسئلہ بھی کشید کیا ہے، حالانکہ یہاں قربانی کے مسائل بیان نہیں ہوئے بلکہ فضیلت کے مختلف مراتب سمجھانے کے لیے جانوروں کی قربانی کے اعلیٰ اور ادنیٰ مراتب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ علمائے امت میں سے کسی نے بھی اس حدیث سے قربانی کا مسئلہ کشید نہیں کیا اور نہ اس کے متعلق کوئی امت کا تعامل پیش کیا جا سکا ہے۔ اگر اس قسم کے اجتہاد پر اصرار ہے تو حدیث میں تو انڈے کا بھی ذکر ہے تو اس کی قربانی بھی جائز ہونی چاہیے۔ واللہ أعلم۔
(3) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعے کے دن غسل جنابت کر کے مسجد میں آنے والے کو مذکورہ فضیلت ملتی ہے، یعنی جمعہ کے دن پہلے بیوی سے ہم بستری کرے پھر غسل کر کے جلدی مسجد میں آئے۔ علامہ نووی نے اس مفہوم کو غلط قرار دیا ہے لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس مفہوم کو غلط قرار دینے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کیونکہ جمعے کا دن اجتماع کا دن ہوتا ہے۔ اس کے لیے بازاروں سے گزر کر مسجد میں آنا ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ کسی عورت پر نظر پڑ جائے پھر وہ بدنظری کا مرتکب ہو۔ اس سے محفوظ رہنے کا طریقہ یہی ہے کہ وہ اس قسم کے اسباب و خیالات سے فارغ ہو جائے کیونکہ جب ہم بستری سے فارغ ہو کر غسل جنابت کیا ہو گا تو طبیعت میں آسودگی اور سکون ہو گا۔ اس سے ہیجانی کیفیت پیدا ہو گی نہ بدنظری کا شکار ہو گا، اس لیے اس مفہوم کو کسی صورت غلط قرار نہیں دیا جا سکتا۔ (فتح الباري:471/2)
(4) اس حدیث کی عنوان سے بایں طور مطابقت ہے کہ جمعہ کی ادائیگی گویا بدنی اور مالی عبادات کو بجا لانا ہے کیونکہ ذاتی طور پر نماز جمعہ ایک بدنی عبادت ہے لیکن اس کے لیے پہلے پہلے آنے والے کو اونٹ، گائے، بکری وغیرہ ذبح کرنے کا ثواب بھی ملتا ہے، چنانچہ جانوروں کو اللہ کی راہ میں ذبح کرنا مالی عبادت ہے اس طرح نماز جمعہ ادا کرنے سے انسان کو بدنی اور مالی دونوں عبادات کا ثواب ملتا ہے۔ یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جو دیگر نمازوں کی ادائیگی سے حاصل نہیں ہوتی۔ (عمدة القاري:18/5)
(4) حدیث میں وارد ساعات سے مراد مختصر لمحات ہیں جو زوال آفتاب سے لے کر خطیب کے منبر پر بیٹھنے تک ہیں یا ان سے مراد حقیقی ساعات ہیں جن کا آغاز طلوع آفتاب سے شروع ہوتا ہے؟ امام ابن دقیق العید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان سے معروف ساعات مراد لینا زیادہ مناسب ہے۔ اگرچہ اس حدیث میں پانچ ساعات کا ذکر ہے لیکن ایک روایت میں چھٹی گھڑی بھی بیان ہوئی ہے۔ (سنن النسائي، الجمعة، حدیث:1388،اس میں چڑیا کا ذکر ہے لیکن یہ الفاظ منکر ہیں۔ قاله الألباني) ایک دوسری روایت میں جمعہ کی بارہ گھڑیوں کا بھی ذکر ہے۔ (سنن النسائي، الجمعة، حدیث:1390،وسنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1048)٭ دن کی بارہ گھڑیوں کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭الشروق٭البكور٭العدوة٭الضحی٭الهاجرة٭ الطهيرة٭الرواح٭العصر٭القصر٭الأصيل٭العشي٭العروب٭ رات کی بارہ گھڑیاں مندرجہ ذیل ہیں:٭الشفق٭العسق٭العثمة٭السدقة٭الجهمة٭الزلة٭الرلغة٭البهرة٭السحر٭الفجر٭الصبح٭الصباح-