تشریح:
(1) اس حدیث کی باب سے مطابقت ظاہر ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ایک ریشمی دھاری دار جوڑا خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا تاکہ رسول اللہ ﷺ اسے جمعے کے دن زیب تن کیا کریں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعے کے دن اچھا لباس پہننا رائج تھا اور رسول اللہ ﷺ نے اس خواہش پر کوئی انکار نہیں فرمایا۔ چونکہ وہ ریشم کا تھا، اس لیے آپ اس کے خریدنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ دوسری حدیث سے جمعے کے دن اچھا لباس پہننے کی رہنمائی ملتی ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ سے روایت ہے، انہوں نے جمعے کے دن رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’کتنا اچھا ہو اگر تم لوگ محنت و مزدوری کے کپڑوں کے علاوہ جمعہ کے دن کے لیے دو کپڑے اور خرید لو۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1078)
(2) حضرت عمر ؓ نے اپنے مادری بھائی عثمان بن حکیم کو ریشمی حلہ بطور تحفہ دیا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی کافر و مشرک کو ریشمی لباس بطور ہدیہ دیا جا سکتا ہے، نیز اس سے پتہ چلتا ہے کہ کفار فروعی احکام کے مکلف نہیں ہیں۔ اس کے متعلق علمائے امت کے تین اقوال ہیں: ٭ کفار فروعی احکام کی ادائیگی و اعتقاد کے لحاظ سے مکلف ہیں اور انہیں قیامت کے دن ترک ایمان و عمل کی وجہ سے عذاب ہو گا۔ ٭ فروعی مسائل کے اعتقاد اور ادائیگی کے لحاظ سے مخاطب نہیں ہیں۔ قیامت کے دن انہیں صرف ترک ایمان کی وجہ سے سزا دی جائے گی۔ ٭ اعتقاد مخاطب ہیں، ادائیگی کے لحاظ سے مکلف نہیں ہیں۔ قیامت کے دن انہیں جو عذاب دیا جائے گا وہ ترک ایمان اور فروعات کے متعلق ترک اعتقاد کے باعث ہو گا۔ محدثین کے نزدیک کفار ایمان کے علاوہ فروعی مسائل کے بھی اداء و اعتقاد مکلف ہیں۔
(3) اس حدیث میں ہے کہ ریشمی لباس پہننے والا قیامت کے دن اس سے محروم ہو گا۔ یہ محرومی اس اعتبار سے ہو گی کہ انہیں ریشمی لباس پہننے کا خیال تو آئے گا لیکن انہیں اس سے محروم ہونا پڑے گا، یعنی وہ اس کی خواہش نہیں کریں گے اور جنت میں ہر چیز ملنے کا وعدہ اہل جنت کی خواہش پر موقوف ہو گا، جس طرح اہل جنت اپنے سے اعلیٰ مراتب والوں کے مرتبہ و مقام کی طلب و خواہش نہیں کریں گے۔ قرآن پاک میں ہے: ﴿وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ ﴿٣١﴾ (حٰم السجدة:31:41) ’’اور اس میں تمہارے لیے وہ (سب کچھ) ہے جو تمہارے جی چاہیں گے اور اس میں تمہارے لیے وہ (سب کچھ) ہے جو تم مانگو گے۔‘‘ علامہ عینی ؒ نے لکھا ہے کہ اس قسم کے لوگوں کی محرومی کو بعض حضرات نے حقیقت پر محمول کیا ہے، خواہ انہوں نے توبہ ہی کیوں نہ کر لی ہو مگر اکثر حضرات کی رائے یہ ہے کہ اگر انسان توبہ کرنے کے بعد فوت ہو گا تو جنت میں اس قسم کی نعمتوں سے محروم نہیں رہے گا۔ (عمدة القاري:29/6)