تشریح:
(1) واضح رہے کہ "جواثی" بحرین کے دیہاتوں میں سے ایک دیہات تھا جیسا کہ دیگر روایات میں ہے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4371 وسنن أبي داود، حدیث:1068) حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت ان لوگوں کی تردید کی ہے جو نماز جمعہ کو شہروں کے ساتھ خاص کر کے دیہاتوں میں اقامت جمعہ کا انکار کرتے ہیں جن میں سرفہرست احناف ہیں۔ جن کی دلیل ابن ابی شیبہ (535/2) میں منقول سیدنا علی ؓ کا موقوف اثر ہے۔ اس کے برعکس حضرت عمر ؓ کے متعلق ابن ابی شیبہ (537/2) میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ انہوں نے اہل بحرین کو لکھا تھا کہ تم جہاں کہیں بھی ہو اقامت جمعہ کا اہتمام کرو۔ یہ عموم شہروں اور دیہاتوں دونوں کو شامل ہے۔ اس کے علاوہ حضرت لیث بن سعد ؓ سے بھی مروی ہے کہ وہ ہر شہر اور دیہات جہاں اہل اسلام کے چند افراد ہوں اقامت جمعہ کے قائل تھے، چنانچہ اہل مصر اور اس کے آس پاس رہنے والے حضرت عمر اور حضرت عثمان ؓ کے حکم سے جمعہ ادا کرتے تھے اور وہاں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی ہوا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ مکہ اور مدینہ کے درمیان بسنے والے لوگوں کو جمعہ پڑھتے دیکھتے تو کوئی اعتراض نہ کرتے تھے۔ (فتح الباري:489/2)
(2) بعض مؤرخین نے "جواثی" کے متعلق لکھا ہے کہ یہ آبادی ایک شہر پر مشتمل تھی جبکہ امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح کے ایک دوسرے مقام پر اس کے دیہات ہونے کی صراحت کی ہے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4371) یہ بھی ممکن ہے کہ جب اس مقام پر جمعہ پڑھنے کا اہتمام ہوا تو یہ ایک گاؤں تھا پھر آبادی کے بڑھنے سے ایک شہر کی صورت اختیار کر گیا۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کی صراحت کی ہے۔ (فتح الباري:489/2) واضح رہے کہ قبیلۂ عبدالقیس نے وہاں رسول اللہ ﷺ کے حکم ہی سے اقامت جمعہ کا اہتمام کیا تھا کیونکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اپنی طرف سے نزول وحی کے زمانے میں کسی شرعی کام کا اہتمام نہیں کرتے تھے۔ اگر یہ اقدام ناجائز ہوتا تو بذریعۂ وحی ضرور انہیں متنبہ کر دیا جاتا۔ اس کے علاوہ حضرت اسعد بن زرارہ ؓ نے (لفظ کی سمجھ نہیں آ رہی) کے علاقے میں بنو بیاضہ کی بستی (لفظ کی سمجھ نہیں آ رہی) میں جمعہ قائم کیا تھا۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1069) یہ بستی مدینہ منورہ سے ایک میل کے فاصلے پر تھی۔ دیہاتوں میں جمعہ پڑھنے کی سب سے بڑی دلیل ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ﴾ (الجمعة:9:62) ’’اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف چلے آؤ اور خریدوفروخت کو ترک کر دو۔‘‘ یہ آیت کریمہ تمام اہل ایمان کے لیے عام ہے، خواہ وہ شہری ہوں یا دیہاتی۔ الغرض اسلام نے جمعہ کی ادائیگی کے لیے کسی خاص جگہ کی پابندی نہیں لگائی۔ اس کے متعلق جو شرائط بیان کی جاتی ہے وہ سب خود ساختہ ہیں۔ اقامت جمعہ کے متعلق شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ رحمانی ؒ نے بڑا جامع تبصرہ کیا ہے، فرماتے ہیں، اہل علم نے اقامت جمعہ کے محل کے متعلق اختلاف کیا ہے۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے متبعین کا خیال ہے کہ جمعہ صرف مصر جامع ہی میں صحیح ہے، جبکہ امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ شہروں اور دیہاتوں غرضیکہ ہر جگہ جائز اور صحیح ہے۔ امام ابو حنیفہ نے اس حدیث کو بطور دلیل پیش کیا ہے کہ جمعہ اور عید صرف مصر جامع میں صحیح ہے لیکن امام احمد بن حنبل ؒ نے اس روایت کے مرفوع ہونے کو ضعیف قرار دیا ہے۔ امام ابن حزم نے اس کا موقوف ہونا صحیح تسلیم کیا ہے، یعنی یہ حضرت علی ؓ کا قول ہے۔ چونکہ یہ موقوف ہے اور اس میں اجتہاد کی کافی گنجائش ہے، اس لیے اس روایت کو بطور دلیل پیش نہیں کیا جا سکتا، نیز اس روایت سے سورۂ جمعہ کی آیت جو مطلق ہے اس کا مقید ہونا لازم آتا ہے جو اصول کے اعتبار سے صحیح نہیں۔ (مرعاة المفاتیح:288/2)