تشریح:
1۔ اسلامی تعلیمات میں غصے، ناراضی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا کیونکہ اس سے نفرت کےجذبات پروان چڑھتے ہیں اور اخوت ومودت کی فضا قائم نہیں رہتی لیکن استاد کا غصہ مختلف حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ استاد کا مقصود تعلیم دینا ہوتا ہے تو اس میں بعض دفعہ سختی کی بھی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے استاد کا غصہ مقصد تعلیم کے خلاف نہیں ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ان احادیث کے پیش نظر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ تعلیم کے موقع پر اگرضرورت ہوتو غصے سے بھی کام لیا جا سکتا ہے بلکہ بعض اوقات مستحسن ہے، مثلاً: کوئی طالب علم غیر حاضری کرتا ہے یا گستاخی اور بے ادبی کا ارتکاب کرتا ہے یا حاضری کے باوجود اسباق میں توجہ نہیں دیتا تو استاد کوڈانٹنے اور غصے ہونے کا حق ہے شفقت ومہربانی اپنی جگہ مطلوب ہے اورغصے کا اظہار اپنے محل پر۔
2۔ اصلاح معاشرہ کے لیے طریق نبوی یہ ہے کہ وعظ وارشاد میں کسی خاص شخص کا نام لے کر اسے نشانہ نہ بنایاجائے بلکہ ایک اصولی بات کہہ دی جائے جس سے مقصد بھی حاصل ہوجائے اور مخاطب کو شرمندگی بھی نہ ہو، یا کسی وقت الگ اسے غلطی پر تنبیہ کردی جائے کیونکہ بھرے مجمع میں کسی کو نشانہ بنانے سے بعض اوقات وہ ضد اور ہٹ دھرمی پر اتر آتا ہے۔
3۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ائمہ مساجد کواپنے مقتدی حضرات کاخیال رکھنا چاہیے کیونکہ امام کا اس قدر لمبی قراءت کرنا جس میں بیماروں، کمزوروں اور ضرورت مندوں کا لحاظ نہ ہو، شان امامت اور موضوع امامت کے خلاف ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے موقع پر بہت سختی سے نوٹس لیا اور فرمایا کہ تم لوگوں کونماز باجماعت سے نفرت دلانے والے ہو۔
4۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان میں وعظ وتعلیم کے مواقع پر غصہ کرنے کا ذکر کیا ہے جس کامطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ فیصلہ کرتے وقت غضبناک ہونا جائز نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جج کو بحالت غصہ فیصلہ کرنے سے منع فرمایا ہے، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحالت غصہ بھی فتویٰ دینے یا فیصلہ کرنے کے مجاز تھے کیونکہ یہ آپ کاخاصہ تھا۔ آپ کسی حالت میں بھی حق سےانحراف نہیں فرماتے تھے۔ ( صحیح البخاري، الأحکام، حدیث: 7160، وفتح الباري: 247/1)
5۔ اس حدیث میں شکایت کنندہ نے کہا: میرے لیے نماز باجماعت پڑھنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نماز باجماعت کے قریب نہیں جاتا بلکہ بعض اوقات دانستہ اس سے دیر کرتا ہوں کیونکہ جماعت میں قراءت بہت طویل ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض اس لیے ہوئے کہ شاید آپ پہلے بھی اس سے منع فرماچکے تھے۔ (فتح الباري: 246/1)