تشریح:
(1) جمعہ کا وقت جمہور ائمہ کے نزدیک وقت ظہر ہی ہے، یعنی اسے بھی زوال آفتاب کے بعد پڑھنا چاہیے جبکہ امام احمد کا موقف ہے کہ جمعہ، عیدین کے وقت بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں امام احمد ؒ کے موقف سے اختلاف کر کے جمہور کے موقف کو ثابت کیا ہے، چنانچہ اس حدیث میں لفظ "راحوا" استعمال ہوا ہے جس کے معنی بعد از زوال جانا ہے جیسا کہ اکثر اہل لغت نے اس کی صراحت کی ہے۔ پھر اس حدیث میں وضاحت ہے کہ اسی حالت میں لوگوں کو پسینہ آ جاتا جس سے بدبو پھیل جاتی۔ ایسا ہونا سخت گرمی میں ممکن ہے جبکہ وہ عوالی سے آتے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ لوگ زوال یا اس کے قریب قریب مسجد میں آتے ہوں گے۔ اسی مناسبت سے امام بخاری ؒ نے حدیث عائشہ ؓ کو ذکر کیا ہے۔ (فتح الباري:499/2) (2) بعض حنابلہ نے نماز جمعہ قبل از زوال، یعنی چاشت کے وقت پڑھنا جائز قرار دیا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کو مسلمانوں کی عید قرار دیا ہے، اس بنا پر عیدین کے وقت اسے پڑھا جا سکتا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اسے مسلمانوں کی عید قرار دینے کا مطلب یہ نہیں کہ عید کے تمام احکام اس پر چسپاں کر دیے جائیں۔ عید کے دن روزہ رکھنا حرام ہے لیکن جمعہ کے دن روزہ رکھا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري:498/2) اس کے علاوہ جمعہ میں خطبہ نماز سے پہلے ہے جبکہ عیدین میں نماز کے بعد ہے۔ عیدین میں نماز سے پہلے نوافل ادا کرنا منع ہے جبکہ جمعہ سے پہلے جائز ہے۔ عیدین کے لیے اذان و اقامت نہیں جبکہ جمعہ کے لیے اذان اور اقامت کہی جاتی ہے۔