تشریح:
(1) بعض حضرات کا خیال ہے کہ منبر پر خطبہ دینا امیر المومنین کا حق ہے، چنانچہ ابن بطال نے لکھا ہے کہ اگر خطیب مسلمانوں کا خلیفہ ہو تو اسے چاہیے کہ منبر پر خطبہ دے، اگر اس کے علاوہ ہو تو اسے اختیار ہے منبر استعمال کرے یا زمین پر کھڑا ہو جائے۔ علامہ زین بن منیر کہتے ہیں کہ یہ بات امام بخاری ؒ کے مقصود کے برعکس ہے۔ اصل بات تو سامعین کو وعظ کرنا اور انہیں امور دین کی تعلیم دینا ہے۔ جو بھی یہ فریضہ سر انجام دے گا اسے منبر پر خطبہ دینے کی اجازت ہے۔ امام بخاری ؒ کا مقصود بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔
(2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام اگر کوئی خلاف عادت کام کرے تو اسے چاہیے کہ عامۃ الناس کے سامنے اس کی وضاحت کر دے تاکہ شکوک و شبہات پیدا نہ ہوں۔ (فتح الباري:514/2)
(3) اس روایت میں تکبیر تحریمہ کے بعد قراءت کرنے اور رکوع کے بعد کھڑے ہونے کا ذکر نہیں ہے۔ اس قسم کی تفصیل ابو حازم سے سفیان نے بیان کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ أکبر کہا، پھر قراءت فرمائی، اس کے بعد رکوع کیا، پھر رکوع سے اپنے سر کو اٹھایا، اس کے بعد الٹے پاؤں واپس ہوئے۔ اس کے علاوہ طبرانی کی روایت یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے خطبہ دیا، پھر تکبیر کہی گئی تو آپ نے منبر پر ہی تکبیر تحریمہ کہہ کر نماز کا آغاز فرمایا۔ (المعجم الکبیر للطبراني:134/6، حدیث:5752) اس روایت سے پتہ چلا کہ خطبہ نماز سے پہلے ہے۔ (فتح الباري:514/2) امام ابن حزم نے اس نماز کو نفل قرار دیا ہے لیکن طبرانی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے منبر پر جمعے کا خطبہ دیا، پھر نماز جمعہ ادا فرمائی تھی۔ واللہ أعلم۔