صحیح بخاری
3. کتاب: علم کے بیان میں
27. باب:اس بیان میں کہ استاد شاگردوں کی جب کوئی ناگوار بات دیکھے تو وعظ کرے اور تعلیم دیتے وقت ان پر خفا ہو سکتا ہے
صحيح البخاري
3. كتاب العلم
27. بَابُ الغَضَبِ فِي المَوْعِظَةِ وَالتَّعْلِيمِ، إِذَا رَأَى مَا يَكْرَهُ
Sahi-Bukhari
3. Knowledge
27. Chapter: To be furious while preaching or teaching if one sees what one hates
باب:اس بیان میں کہ استاد شاگردوں کی جب کوئی ناگوار بات دیکھے تو وعظ کرے اور تعلیم دیتے وقت ان پر خفا ہو سکتا ہے
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: To be furious while preaching or teaching if one sees what one hates)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
92.
حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی ﷺ سے گری ہوئی چیز کے متعلق دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’اس کے بندھن یا برتن اور تھیلی کی پہچان رکھ اور ایک سال تک لوگوں سے پوچھتا رہ، پھر اس سے فائدہ اٹھا۔ اس دوران میں اگر اس کا مالک آ جائے تو اس کے حوالے کر دے۔‘‘ پھر اس شخص نے پوچھا کہ گمشدہ اونٹ کا کیا حکم ہے؟ یہ سن کر آپ اس قدر غصے ہوئے کہ آپ کے رخسار مبارک سرخ ہو گئے، یا آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا (راوی کو شک ہے۔) اور فرمایا: ’’تجھے اونٹ سے کیا غرض ہے؟ اس کی مشک اور اس کا موزہ اس کے ساتھ ہے، جب پانی پر پہنچے گا، پانی پی لے گا اور درخت سے چر لے گا، اسے چھوڑ دے یہاں تک کہ اس کا مالک اسے ڈھونڈ لے۔‘‘ پھر اس شخص نے کہا: اچھا، گمشدہ بکری؟ آپ نے فرمایا: ’’وہ تمہاری یا تمہارے بھائی (مالک) کی یا بھیڑیے کی ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ناراض ہونے کا ذکر ہے۔ اس کا سبب یہ ہوا کہ اونٹ کے متعلق سوال کرنا ہی فضول اور بےمحل تھا۔ کیونکہ لقطہ کو اٹھا کر محفوظ کرلینے کا مقصد مال کو ضائع ہونے سے بچانا ہے، لیکن اونٹ کے ضیاع کا اندیشہ نہیں ہے کہ اسے حفاظت کے لیے پکڑا جائے۔ اونٹ بھوک، پیاس اور تھکن کی وجہ سے تو مرنہیں سکتا۔ اس کے ساتھ مشکیزہ ہے کئی دن تک پانی پیے بغیر گزارہ کر سکتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کی گردن اتنی اونچی بنائی ہے کہ اونچے درخت کے پتے بھی کھا سکتا ہے۔ اسے چلنے میں تھکن نہیں ہوتی کیونکہ اس کے پاؤں میں جوتا ہے۔ طاقتور اتنا ہے کہ کسی جانور کا لقمہ نہیں بن سکتا۔ ایسے حالات میں اسے پکڑنے کا کیا فائدہ؟ اگر سائل نے تدبر سے کام لیا ہوتا تو اس کے متعلق سوال نہ کرتا، اس لیے کہ اس کا مالک اسے ڈھونڈتے ہوئے خود اس تک پہنچ جائےگا۔ ہاں! اگراونٹ ایسی جگہ نظر آئے جہاں ڈاکو یا چوررہتے ہوں یااس مقام پر خونخوار درندے ہوں تو ایسی صورت میں اندیشہ ہے کہ اگر اسے پکڑا نہ گیا توکوئی خونخوار درندہ پھاڑ کھائے گا یا کسی شرپسند کی بھینٹ چڑھ جائے گا اورمالک اس سے محروم ہوجائے گا، تو ایسے حالات میں اسے پکڑ لینا چاہیے۔ اونٹ کے متعلق آپ کا جواب زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماحول کے پیش نظر تھا مگرآج کل ماحول بہت بگڑا ہوا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شاگردوں کے نامناسب سوال کرنے پر استاد کی ناراضی بجا تسلیم کی جائے گی، اس لیے شاگردوں کو سوال کرنے سے پہلے خود سوال کی اہمیت پر غور کرلینا چاہیے۔ 2۔ گرے پڑے سامان کو اٹھا کر بعد از تشہیر اس سے فائدہ اٹھانے کی دوصورتیں ہیں۔(الف)۔اگر اٹھانے والا مال دار ہے تو کسی نادار کو صدقے کے طور پر دے کر ثواب کمائے۔(ب)۔اگر خود غریب ہے تو مالک کی طرف سے اسے خود پر بطور صدقہ صرف کرے۔ دونوں صورتوں میں نیت یہ ہو کہ مالک کے آنے پر اگروہ صدقہ منظور نہ کرے تو مطالبے پر اس کی قیمت ادا کردوں گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ گری پڑی چیز کو اٹھانے والا اس کا مالک نہیں بن جاتا بلکہ مالک کی طرف سے اس مال کا امین ہوجاتا ہے۔ اورامانت کااصول یہ ہے کہ مالک کے مطالبے پر اس کا واپس کرنا ضروری ہے۔ اس کے متعلق دیگر مسائل کتاب اللقطہ میں بیان کیے جائیں گے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
91
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
91
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
91
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
91
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی ﷺ سے گری ہوئی چیز کے متعلق دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’اس کے بندھن یا برتن اور تھیلی کی پہچان رکھ اور ایک سال تک لوگوں سے پوچھتا رہ، پھر اس سے فائدہ اٹھا۔ اس دوران میں اگر اس کا مالک آ جائے تو اس کے حوالے کر دے۔‘‘ پھر اس شخص نے پوچھا کہ گمشدہ اونٹ کا کیا حکم ہے؟ یہ سن کر آپ اس قدر غصے ہوئے کہ آپ کے رخسار مبارک سرخ ہو گئے، یا آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا (راوی کو شک ہے۔) اور فرمایا: ’’تجھے اونٹ سے کیا غرض ہے؟ اس کی مشک اور اس کا موزہ اس کے ساتھ ہے، جب پانی پر پہنچے گا، پانی پی لے گا اور درخت سے چر لے گا، اسے چھوڑ دے یہاں تک کہ اس کا مالک اسے ڈھونڈ لے۔‘‘ پھر اس شخص نے کہا: اچھا، گمشدہ بکری؟ آپ نے فرمایا: ’’وہ تمہاری یا تمہارے بھائی (مالک) کی یا بھیڑیے کی ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ناراض ہونے کا ذکر ہے۔ اس کا سبب یہ ہوا کہ اونٹ کے متعلق سوال کرنا ہی فضول اور بےمحل تھا۔ کیونکہ لقطہ کو اٹھا کر محفوظ کرلینے کا مقصد مال کو ضائع ہونے سے بچانا ہے، لیکن اونٹ کے ضیاع کا اندیشہ نہیں ہے کہ اسے حفاظت کے لیے پکڑا جائے۔ اونٹ بھوک، پیاس اور تھکن کی وجہ سے تو مرنہیں سکتا۔ اس کے ساتھ مشکیزہ ہے کئی دن تک پانی پیے بغیر گزارہ کر سکتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کی گردن اتنی اونچی بنائی ہے کہ اونچے درخت کے پتے بھی کھا سکتا ہے۔ اسے چلنے میں تھکن نہیں ہوتی کیونکہ اس کے پاؤں میں جوتا ہے۔ طاقتور اتنا ہے کہ کسی جانور کا لقمہ نہیں بن سکتا۔ ایسے حالات میں اسے پکڑنے کا کیا فائدہ؟ اگر سائل نے تدبر سے کام لیا ہوتا تو اس کے متعلق سوال نہ کرتا، اس لیے کہ اس کا مالک اسے ڈھونڈتے ہوئے خود اس تک پہنچ جائےگا۔ ہاں! اگراونٹ ایسی جگہ نظر آئے جہاں ڈاکو یا چوررہتے ہوں یااس مقام پر خونخوار درندے ہوں تو ایسی صورت میں اندیشہ ہے کہ اگر اسے پکڑا نہ گیا توکوئی خونخوار درندہ پھاڑ کھائے گا یا کسی شرپسند کی بھینٹ چڑھ جائے گا اورمالک اس سے محروم ہوجائے گا، تو ایسے حالات میں اسے پکڑ لینا چاہیے۔ اونٹ کے متعلق آپ کا جواب زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماحول کے پیش نظر تھا مگرآج کل ماحول بہت بگڑا ہوا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شاگردوں کے نامناسب سوال کرنے پر استاد کی ناراضی بجا تسلیم کی جائے گی، اس لیے شاگردوں کو سوال کرنے سے پہلے خود سوال کی اہمیت پر غور کرلینا چاہیے۔ 2۔ گرے پڑے سامان کو اٹھا کر بعد از تشہیر اس سے فائدہ اٹھانے کی دوصورتیں ہیں۔(الف)۔اگر اٹھانے والا مال دار ہے تو کسی نادار کو صدقے کے طور پر دے کر ثواب کمائے۔(ب)۔اگر خود غریب ہے تو مالک کی طرف سے اسے خود پر بطور صدقہ صرف کرے۔ دونوں صورتوں میں نیت یہ ہو کہ مالک کے آنے پر اگروہ صدقہ منظور نہ کرے تو مطالبے پر اس کی قیمت ادا کردوں گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ گری پڑی چیز کو اٹھانے والا اس کا مالک نہیں بن جاتا بلکہ مالک کی طرف سے اس مال کا امین ہوجاتا ہے۔ اورامانت کااصول یہ ہے کہ مالک کے مطالبے پر اس کا واپس کرنا ضروری ہے۔ اس کے متعلق دیگر مسائل کتاب اللقطہ میں بیان کیے جائیں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، ان سے ابوعامر العقدی نے، وہ سلیمان بن بلال المدینی سے، وہ ربیعہ بن ابی عبدالرحمن سے، وہ یزید سے جو منبعث کے آزاد کردہ تھے، وہ زید بن خالد الجہنی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص (عمیر یا بلال) نے رسول اللہ ﷺ سے پڑی ہوئی چیز کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا، اس کی بندھن پہچان لے یا فرمایا کہ اس کا برتن اور تھیلی (پہچان لے) پھر ایک سال تک اس کی شناخت (کا اعلان) کراؤ پھر (اس کا مالک نہ ملے تو) اس سے فائدہ اٹھاؤ اور اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے سونپ دو۔ اس نے پوچھا کہ اچھا گم شدہ اونٹ (کے بارے میں) کیا حکم ہے؟ آپ کو اس قدر غصہ آ گیا کہ رخسار مبارک سرخ ہو گئے۔ یا راوی نے یہ کہا کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ (یہ سن کر) آپ ﷺ نے فرمایا۔ تجھے اونٹ سے کیا واسطہ؟ اس کے ساتھ خود اس کی مشک ہے اور اس کے (پاؤں کے) سم ہیں۔ وہ خود پانی پر پہنچے گا اور خود پی لے گا اور خود درخت پر چرے گا۔ لہٰذا اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ اس کا مالک مل جائے۔ اس نے کہا کہ اچھا گم شدہ بکری کے (بارے میں) کیا ارشاد ہے؟ آپ نے فرمایا، وہ تیری ہے یا تیرے بھائی کی، ورنہ بھیڑئیے کی (غذا) ہے۔
حدیث حاشیہ:
گری پڑی چیز کو لقطہ کہتے ہیں۔ اس حدیث میں اسی کا حکم بیان فرمایا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غصے کا سبب یہ ہوا کہ اونٹ کے بارے میں سوال ہی بے کار تھا۔ جب کہ وہ تلف ہونے والا جانور نہیں۔ وہ جنگل میں اپنا چارہ پانی خود تلاش کرلیتا ہے، اسے شیر یا بھیڑیا بھی نہیں کھا سکتے، پھر اس کا پکڑنا بےکار ہے۔ خود اس کا مالک ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس تک پہنچ جائے گا، ہاں بکری کے تلف ہونے کا فوری خطرہ ہے لہٰذا اسے پکڑ لینا چاہیے۔ پھر مالک آئے تو اس کے حوالہ کردے۔ معلوم ہوا کہ شاگردوں کے نامناسب سوالات پر استاد کی خفگی بجا تسلیم کی جائے گی۔ یہ بھی ظاہر ہوا کہ شاگردوں کو سوال کرنے سے پہلے خود سوال کی اہمیت پر بھی غور کرلینا ضروری ہے۔ اونٹ سے متعلق آپ کا جواب اس زمانہ کے ماحول کے پیش نظر تھا مگرآج کل کا ماحول ظاہر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Zaid bin Khalid Al-Juhani (RA): A man asked the Prophet (ﷺ) about the picking up of a "Luqata" (fallen lost thing). The Prophet (ﷺ) replied, "Recognize and remember its tying material and its container, and make public announcement (about it) for one year, then utilize it but give it to its owner if he comes." Then the person asked about the lost camel. On that, the Prophet (ﷺ) got angry and his cheeks or his Face became red and he said, "You have no concern with it as it has its water container, and its feet and it will reach water, and eat (the leaves) of trees till its owner finds it." The man then asked about the lost sheep. The Prophet (ﷺ) replied, "It is either for you, for your brother (another person) or for the wolf."