قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الجُمُعَةِ (بَابُ مَنْ قَالَ فِي الخُطْبَةِ بَعْدَ الثَّنَاءِ: أَمَّا بَعْدُ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: رواه عكرمة ، عن ابن عباس ، عن النبيﷺ .

922. وَقَالَ مَحْمُودٌ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، قَالَ: أَخْبَرَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ المُنْذِرِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ قَالَتْ: دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ، قُلْتُ: مَا شَأْنُ النَّاسِ، فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا: إِلَى السَّمَاءِ، فَقُلْتُ: آيَةٌ؟ فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا: أَيْ نَعَمْ، قَالَتْ: فَأَطَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِدًّا حَتَّى تَجَلَّانِي الغَشْيُ، وَإِلَى جَنْبِي قِرْبَةٌ فِيهَا مَاءٌ، فَفَتَحْتُهَا، فَجَعَلْتُ أَصُبُّ مِنْهَا عَلَى رَأْسِي، فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ، فَخَطَبَ النَّاسَ، وَحَمِدَ اللَّهَ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: «أَمَّا بَعْدُ» قَالَتْ: - وَلَغَطَ نِسْوَةٌ مِنَ الأَنْصَارِ، فَانْكَفَأْتُ إِلَيْهِنَّ لِأُسَكِّتَهُنَّ، فَقُلْتُ لِعَائِشَةَ: مَا قَالَ؟ قَالَتْ: قَالَ -: مَا مِنْ شَيْءٍ لَمْ أَكُنْ أُرِيتُهُ إِلَّا قَدْ رَأَيْتُهُ فِي مَقَامِي هَذَا، حَتَّى الجَنَّةَ وَالنَّارَ، وَإِنَّهُ قَدْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي القُبُورِ، مِثْلَ - أَوْ قَرِيبَ مِنْ - فِتْنَةِ المَسِيحِ الدَّجَّالِ، يُؤْتَى أَحَدُكُمْ فَيُقَالُ لَهُ: مَا عِلْمُكَ بِهَذَا الرَّجُلِ؟ فَأَمَّا المُؤْمِنُ - أَوْ قَالَ: المُوقِنُ شَكَّ هِشَامٌ - فَيَقُولُ: هُوَ رَسُولُ اللَّهِ، هُوَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَالهُدَى، فَآمَنَّا وَأَجَبْنَا وَاتَّبَعْنَا وَصَدَّقْنَا، فَيُقَالُ لَهُ: نَمْ صَالِحًا قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ إِنْ كُنْتَ لَتُؤْمِنُ بِهِ، وَأَمَّا المُنَافِقُ - أَوْ قَالَ: المُرْتَابُ، شَكَّ هِشَامٌ - فَيُقَالُ لَهُ: مَا عِلْمُكَ بِهَذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُولُ: لاَ أَدْرِي، سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا فَقُلْتُ قَالَ هِشَامٌ: فَلَقَدْ قَالَتْ لِي فَاطِمَةُ فَأَوْعَيْتُهُ، غَيْرَ أَنَّهَا ذَكَرَتْ مَا يُغَلِّظُ عَلَيْهِ ‏

مترجم:

ترجمۃ الباب:

‏‏‏‏ اس کو عکرمہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا انہوں نے نبی کریمﷺ سے۔

922.

حضرت اسماء بنت ابی بکر‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ے پاس آئی جبکہ لوگ نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے دریافت کیا کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے اپنے سر کے ساتھ آسمان کی طرف اشارہ فرمایا۔ میں نے عرض کیا: کوئی نشانی ہے؟ تو انہوں نے اپنے سر سے اشارہ کیا کہ ہاں۔ وہ (حضرت اسماء ؓ ) کہتی ہیں کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے اتنی طوالت کی کہ مجھ پر غشی طاری ہونے لگی۔ میرے پہلو میں پانی کا ایک مشکیزہ تھا، میں نے اسے کھولا اور اس سے پانی لے کر اپنے سر پر ڈالنے لگی۔ پھر رسول اللہ ﷺ جب نماز سے فارغ ہوئے تو سورج روشن ہو چکا تھا۔ اس کے بعد آپ نے خطبہ دیا۔ اس میں اللہ کی حمدوثنا بیان کی جس کا وہ مستحق ہے، پھر "أمابعد" کہا۔ وہ (حضرت اسماء ؓ ) کہتی ہیں کہ انصار کی کچھ عورتوں نے شور کرنا شروع کیا تو میں انہیں خاموش کرانے کے لیے ان کی طرف متوجہ ہوئی۔ اس اثنا میں میں نے حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو مجھے نہ دکھائی گئی ہو۔ میں نے اسے آج اپنی اسی جگہ سے دیکھ لیا ہے حتی کہ میں نے جنت اور دوزخ کو بھی دیکھ لیا۔ اور میری طرف یہ وحی کی گئی کہ تمہارا مسیح دجال کے فتنے کی طرح یا اس کے قریب قریب قبروں میں امتحان لیا جائے گا، چنانچہ تم میں سے (ہر) ایک کے پاس فرشتہ آئے گا اور اس (ہر ایک) سے پوچھا جائے گا کہ اس ’’شخصیت‘‘ کے متعلق تم کیا جانتے ہو؟ جو شخص ایمان یا یقین والا ہو گا تو وہ کہے گا کہ یہ اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ ہیں جو ہمارے پاس ہدایت کی باتیں اور کھلی دلیلیں لے کر آئے۔ ہم ان پر ایمان لائے، ان کی دعوت کو قبول کیا، نیز ان کی پیروی اور تصدیق کی۔ پھر اس شخص سے کہا جائے گا کہ تو اطمینان و سکون سے سو جا۔ ہم جانتے تھے کہ تو یقین و ایمان والا تھا۔ اور جو شخص منافقت یا شک رکھنے والا ہو گا۔ ہشام کو شک ہے۔ اس سے کہا جائے گا کہ تو اس شخص کے متعلق کیا معلومات رکھتا ہے؟ تو وہ کہے گا کہ میں تو کچھ نہیں جانتا۔ لوگوں سے ایک بات سنتا تھا تو میں بھی ویسے ہی کہہ دیتا تھا۔‘‘ ہشام کہتے ہیں کہ مجھے فاطمہ بنت منذر نے جو کہا میں نے اسے خوب یاد کر لیا، البتہ منافقین پر کی جانے والی سختیاں جو اس نے بیان کی تھیں وہ یاد نہ رہیں۔