تشریح:
(1) علامہ زین بن منیر ؒ مذکورہ عنوانات میں بایں الفاظ فرق بیان کرتے ہیں کہ پہلے عنوان میں آنے والے کو دو رکعت ادا کرنے کا حکم دینا اس بات سے مشروط ہے کہ امام اسے دوران خطبہ میں دیکھے اور اس سے پوچھے کہ تو نے نماز پڑھی ہے یا نہیں اور یہ سب معاملات خطیب کے ساتھ خاص ہیں۔ دوسرا عنوان مسجد میں آنے والے سے متعلق ہے کہ اسے چاہیے کہ دوران خطبہ میں دو رکعت پڑھ کر خطبہ سننے کے لیے بیٹھے۔ امام بخاری ؒ نے اپنے قائم کردہ عنوانات میں ان تمام باتوں کو ملحوظ رکھا ہے، حالانکہ دونوں میں حدیث ایک ہی بیان کی ہے، (فتح الباري:530/2) نیز اس عنوان میں ہلکی پھلکی دو رکعت پڑھنے کا ذکر ہے جبکہ پیش کردہ حدیث میں اس قسم کی کوئی وضاحت نہیں ہے؟ اصل میں امام بخاری ؒ کی یہ عادت ہے کہ وہ عنوان کے ذریعے سے کسی ایسی حدیث کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں جو صحیح ہوتی ہے لیکن ان کی شرائط کے مطابق نہیں ہوتی، چنانچہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے ہلکی پھلکی دو رکعت پڑھنے کا حکم دیا۔ (صحیح مسلم، الجمعة، حدیث:2018 (875))
(2) دوران خطبہ میں آنے والا شخص سلیک بن ہدیہ غطفانی تھا جیسا کہ صحیح مسلم کی روایات میں اس کی صراحت ہے۔ بعض روایات میں آنے والے کا نام نعمان بن نوفل بتایا گیا ہے لیکن محدثین نے اسے کسی راوی کا وہم قرار دیا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دوران خطبہ میں حضرت ابوذر ؓ آئے تھے تو آپ نے انہیں دو رکعت پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ اس روایت میں ابن لبیعہ راوی نے ’’دوران خطبہ میں‘‘ کے الفاظ شاذ طور پر بیان کر دیے ہیں کیونکہ محفوظ الفاظ یہ ہیں کہ حضرت ابوذر ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس اس وقت آئے جبکہ آپ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ قیس قبیلے کا ایک شخص آپ کے پاس آیا تھا۔ اس سے مراد بھی سلیک ہے کیونکہ قبیلۂ غطفان قیس کی ایک شاخ ہے۔ ابن بشکوال نے اس آدمی کا نام ابو ہدیہ لکھا ہے۔ اگر یہ الفاظ محفوظ ہیں تو ممکن ہے کہ سلیک ؓ کی کنیت ابو ہدیہ ہو۔ اتفاق سے اس کے باب کا نام بھی ہدیہ ہے۔ (فتح الباري:524/2) واللہ أعلم
(3) یہ احادیث اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ جمعہ کے دن دوران خطبہ میں اگر کوئی شخص آئے تو اسے دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھ کر بیٹھنا چاہیے لیکن فقہائے کوفہ نے بعض ضعیف روایات کا سہارا لے کر اس موقف کی تردید کی ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا خطبہ بند کر دیا تھا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے فتح الباری میں ان تمام حیلوں بہانوں کا ذکر کیا ہے جن کے سہارے یہ حضرات اس سنت کا انکار کرتے ہیں، پھر دلائل و براہین سے محدثین کے موقف کو ثابت کیا ہے۔ یہ قابل قدر بحث، صفحہ 526 سے 529 تک پھیلی ہوئی ہے۔ ہم اس سلسلے میں حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کا فیصلہ نقل کر کے اس بحث کو ختم کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: جب کوئی نمازی ایسے حالات میں آئے کہ امام خطبہ دے رہا ہو تو اسے چاہیے کہ ہلکی پھلکی دو رکعتیں پڑھ کر بیٹھے تاکہ سنت راتبہ اور ادب خطبہ ہر دو کی رعایت ہو سکے۔ اور اس مسئلے کے متعلق تمہارے شہر کے لوگ جو شوروغوغا کرتے ہیں ان کے دھوکے میں نہیں آنا چاہیے کیونکہ اس مسئلے کے متعلق صحیح احادیث ہیں جن کی اتباع ضروری ہے۔ (حجة اللہ البالغة:29/2، طبع المکتبة السلفیة، لاھور) مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ کا واقعہ بھی بیان کر دیا جائے جسے امام ترمذی ؒ نے بیان کیا ہے: عبداللہ بن ابی سرح بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ جمعہ کے دن مسجد میں اس وقت آئے جب مروان بن حکم خطبہ دینے میں مصروف تھا۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو مروان کے سپاہی آئے اور آپ کو زبردستی نماز سے باز رکھنا چاہا مگر حضرت ابو سعید ؓ نے نماز توڑنے سے انکار کر دیا اور مکمل کر کے سلام پھیرا۔ نماز کے بعد ہم نے حضرت ابو سعید ؓ سے ملاقات کی اور عرض کیا کہ وہ سپاہی آپ پر حملہ آور ہونا ہی چاہتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ میں بھی ان دو رکعات کو چھوڑنے والا نہیں تھا، خواہ سپاہی کچھ بھی کر گزرتے کیونکہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے کہ آپ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے، ایک پراگندہ حال آدمی مسجد میں داخل ہوا، رسول اللہ ﷺ نے اسی حالت میں اسے دو رکعت پڑھنے کا حکم دیا، وہ نماز پڑھتا رہا جبکہ رسول اللہ ﷺ خطبہ دینے میں مصروف رہے۔ (جامع الترمذي، الجمعة، حدیث:511)