تشریح:
حافظ ابن حجر ؒ کے نزدیک امام بخاری ؒ نے نماز خوف کی ایک دوسری صورت بیان فرمائی ہے۔ آپ کی عادت ہے کہ بعض اوقات بطور تفنن عنوان قائم کر دیتے ہیں، لیکن اصل مقصود روایت بیان کرنا ہوتا ہے۔ اس مقام پر نماز خوف کی دوسری صورت یہ ہے کہ اگر دشمن قبلہ کی طرف ہو تو مجاہدین کو الگ الگ دو حصوں میں تقسیم نہیں کیا جائے گا لیکن اگر دشمن قبلہ کے علاوہ کسی دوسری طرف ہو تو انہیں الگ الگ دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے گا جیسا کہ قبل ازیں حضرت ابن عمر ؓ سے مروی روایت میں وضاحت ہے۔ اس روایت کے مطابق تمام مجاہدین امام کے ساتھ نماز کا آغاز کریں گے، پھر رکوع اور سجدہ صرف امام کے متصل صف والے ادا کریں اور دوسری صف والے ان کی حفاظت میں مصروف رہیں گے۔ جب امام ایک رکعت مکمل کر لے گا تو پہلی صف والے پیچھے ہٹ جائیں گے جیسا کہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔ (سنن النسائي، صلاة الخوف، حدیث:1535) پھر دوسری صف والے آگے بڑھ کر امام کے ساتھ دوسری رکعت پڑھیں گے، ان میں سے کوئی بھی فوت شدہ رکعت کو پورا نہیں کرے گا جیسا کہ دیگر احادیث میں اس کی وضاحت ہے۔ (سنن النسائي، صلاة الخوف، حدیث:1534) حضرت حذیفہ ؓ سے مروی ایک روایت میں یہ بھی صراحت ہے کہ انہوں نے دوسری رکعت نہیں پڑھی۔ اس صورت میں امام کی دو رکعت اور مجاہدین کی ایک ایک رکعت ہو گی۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں بھی نماز خوف کی یہ صورت بیان ہوئی ہے۔ (سنن النسائي، صلاة الخوف، حدیث:1548) اس صورت میں تائید کی ایک دوسری روایت سے بھی ہوتی ہے جسے حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے رسول کے ذریعے سے حضر کی چار رکعت، سفر کی دو رکعت اور صلاۃ خوف کی ایک رکعت کو فرض کیا ہے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1575 (687)) جمہور کے نزدیک نماز خوف میں صرف ایک رکعت پر اکتفا جائز نہیں لیکن صریح اور صحیح احادیث کے پیش نظر ان کا موقف محل نظر ہے۔ واللہ أعلم۔ (فتح الباري:558/2)