تشریح:
(1) ولید بن مسلم نے امام اوزاعی کے موقف کی تائید میں مذکورہ بالا واقعہ بطور دلیل پیش کیا ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس واقعے کو پہلے معلق ذکر کرنے کے بعد متصل سند سے بیان کیا ہے تاکہ صحت حدیث اور صحت استدلال کا علم ہو جائے۔ واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب غزوۂ خندق سے واپس آئے تو آپ نے ہتھیار اتار دیے۔ حضرت جبرئیل ؑ تشریف لائے اور فرمایا کہ ہم نے ابھی اپنے ہتھیار نہیں اتارے کیونکہ ہمارا بنو قریظہ سے نمٹنے کا ارادہ ہے۔ انہوں نے منافقانہ طریقے سے دشمن کی مدد کی تھی، چنانچہ رسول اللہ ﷺ بھی ان کا کام تمام کرنے کے لیے تیار ہو گئے، پھر آپ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو ارشاد فرمایا جس کا مذکورہ حدیث میں ذکر ہے۔ جن لوگوں کو رسول اللہ ﷺ نے روانہ ہونے کا حکم دیا تھا وہ حملہ آور تھے اور آپ نے انہیں وہاں جلد پہنچنے کا حکم دیا تھا۔ اگرچہ روایت میں صراحت نہیں ہے کہ انہوں نے سواریوں سے اتر کر نماز پڑھی یا سوار رہتے ہوئے اسے ادا کیا، تاہم جلد پہنچنے کے تقاضے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے سواریوں پر نماز پڑھی ہو گی۔ حضرت ولید بن مسلم نے سکوت سے استدلال کیا ہے کیونکہ حدیث میں سواریوں پر یا اتر کر نماز پڑھنے کی صراحت نہیں ہے۔ علامہ عینی نے اس حدیث کی عنوان سے مطابقت بایں الفاظ ذکر کی ہے کہ مطلوب آدمی نماز کو اشارے سے پڑھ سکتا ہے، حالانکہ اس پر رکوع اور سجود کا صحیح حالت میں ادا کرنا ضروری ہے جیسا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا بروقت نماز پڑھنا ضروری تھا لیکن انہوں نے تعمیل حکم کرتے ہوئے اسے مؤخر کیا اور بنو قریظہ میں جا کر اسے ادا کیا۔ (عمدة القاري:147/5)
(2) حملہ آور کی نماز کے متعلق ایک روایت بایں الفاظ مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن انیس ؓ کو خالد بن سفیان ہذلی کا کام تمام کرنے کے لیے روانہ کیا۔ فرماتے ہیں کہ جب میں نے اسے دیکھا تو نماز عصر کا وقت بھی ہو چکا تھا۔ مجھے اس کے فوت ہونے کا اندیشہ ہوا تو میں نے چلتے چلتے اشارے سے نماز ادا کر لی کیونکہ اگر ٹھہر کر تسلی سے نماز پڑھتا تو دشمن کے نکل جانے کا اندیشہ تھا، چنانچہ میں نے اسے قتل کر دیا۔ (سنن أبي داود، صلاة السفر، حدیث:1249) امام ابوداود ؒ نے اس حدیث پر ’’حملہ آور کی نماز‘‘ کا عنوان قائم کیا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔ (فتح الباري:584/2)
(3) بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ کے فرمان کا یہ مطلب لیا کہ راستے میں کسی جگہ پڑاؤ کیے بغیر ہم جلدی پہنچیں، انہوں نے نماز قصر نہ کی اور اسے سواری ہی پر ادا کر لیا جبکہ دوسرے اصحاب رضی اللہ عنہم نے آپ کے ارشاد گرامی کو ظاہر پر محمول کیا کہ اگر تعمیل حکم میں نماز دیر سے بھی ادا ہوئی تو ہم گناہ گار نہیں ہوں گے۔ چونکہ فریقین کی نیت درست تھی، اس لیے کوئی بھی قابل ملامت نہ ٹھہرا۔