تشریح:
(1) اس حدیث کی عنوان سے مطابقت واضح ہے کہ حضرت عمر ٍ نے ایک ریشمی جبہ لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا تاکہ آپ عید کے دن زیب تن فرما کر خود کو آراستہ کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عیدین کے موقع پر اچھا لباس پہننا رائج تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر ؓ کی اس خواہش پر کوئی انکار نہیں فرمایا۔ چونکہ وہ ریشم کا تھا، اس لیے آپ اسے لینے پر آمادہ نہ ہوئے بلکہ فرمایا کہ ایسا لباس وہ لوگ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ دوسری احادیث سے عیدین کے موقع پر بہترین لباس پہننے کے متعلق رہنمائی ملتی ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ عیدین اور جمعہ کے دین سرخ دھاری دار جوڑا زیب تن فرماتے تھے۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:280/3) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی عیدین کے موقع پر بہترین لباس استعمال کرتے تھے جیسا کہ حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق حدیث میں ہے کہ وہ عیدین کے دن بہترین لباس پہنا کرتے تھے۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:281/3)
(2) امام بخاری ؒ نے کتاب الجمعة میں اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا تھا: (باب يلبس أحسن ما يجد) ’’جمعہ کے لیے حسب توفیق بہترین لباس پہننا‘‘ لیکن کتاب العیدین میں اس حدیث پر جو عنوان قائم کیا ہے اس سے اشارہ ملتا ہے کہ جمعہ کے دن نئے کپڑے ہونا ضروری نہیں بلکہ صاف ستھرے ہونے چاہئیں لیکن اگر عیدین کے موقع پر نیا لباس بنا لیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ واضح رہے کہ کتاب الجمعة میں اس حدیث کے الفاظ تھے کہ اسے آپ جمعہ کے لیے زیب تن کیا کریں جبکہ اس روایت میں عیدین کے موقع پر پہننے کا ذکر ہے، وجہ یہ ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ سے عیدین اور جمعہ سے متعلق دونوں الفاظ مروی ہیں، البتہ حضرت سالم نے عید کے الفاظ جبکہ حضرت نافع نے جمعہ کے الفاظ نقل کیے ہیں۔ (فتح الباری:567/2) علامہ کرمانی ؒ نے اس طرح تطبیق دی ہے کہ قصہ تو ایک ہی ہے، چونکہ جمعہ بھی اہل اسلام کے لیے عید کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے ان الفاظ میں کوئی تعارض نہیں۔ (عمدة القاري:152/5)