تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان سے ان لوگوں کی تردید کی ہے جو حدیث کے دہرانے اور دہرا دینے کی طلب کو معیوب خیال کرتے ہیں۔ بات کو دہرانا طلبہ کی طبا ئع کے اختلاف کے پیش نظر ہوتا ہے، بعض طلباء ایک ہی مرتبہ سمجھ لیتے ہیں اور بعض حضرات کو کئی کئی بار دہرانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر طالب علم کندذہن ہوتو اس کے لیے زیادہ سے زیادہ تین دفعہ دہرایا جا سکتا ہے اور تین بار دہرانے کے باوجود سمجھنے سے قاصر رہے اس کا کوئی علاج نہیں۔ (فتح الباري: 249/1)
2۔ تین دفعہ سلام کرنے کی ایک توجیہ تو سابق حدیث میں بیان ہو چکی ہے کچھ توجیہات حسب ذیل ہیں: (1)۔ یہ سلام، سلام اجازت ہے جو زیادہ سے زیادہ تین مرتبہ کیا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مقصد ہو، کیونکہ آپ نے کتاب الاستئذان میں اس حدیث کو حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واقعے کے ساتھ بیان کیا ہے جو سلام اجازت کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ پیش آیا تھا۔ (صحیح البخاري، الإستئذان، حدیث: 6245) (2)۔ جب مجمع کثیر ہوتا اور لوگ منتشر ہوتے تو سب کو سلام پہنچانے کے لیے تین مرتبہ سلام کرتے ایک سامنے، دوسرا دائیں جانب اور تیسرا بائیں طرف، کیونکہ آپ کے سلام کے تمام حاضرین مشاق ہوتے تھے۔ (3)۔ جب آپ بڑے مجمع میں شریک ہوتے تو ایک سلام داخل ہوتے ہی کرتے، دوسرا وسط میں پہنچ کر اور تیسرا سلام مجلس کے آخر میں پہنچ کرکرتے تھے۔