تشریح:
(1) یہ دراصل ایک ہی حدیث ہے۔ چونکہ اس میں دو قسم کے مضامین تھے، اس لیے اس حدیث کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ پہلی حدیث کے بعض طرق میں ہے کہ انصار کی بچیاں عید کے دن گیت گا رہی تھیں۔ (صحیح البخاري، العیدین، حدیث:952) ایک روایت میں ہے کہ حج کے موقع پر قیام منیٰ کے دوران میں ایسا ہوا اور وہ گانے کے ساتھ دف بھی بجا رہی تھیں۔ (صحیح البخاري، العیدین، حدیث:987) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے ابوبکر! ہر قوم کا ایک تہوار ہوتا ہے جس میں وہ خوش ہوتے اور جشن مناتے ہیں اور ہماری عید آج کے دن ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث:3931)
(2) اس حدیث سے بعض روشن خیال حضرات نے گانے بجانے اور آلات موسیقی کے جائز ہونے پر استدلال کیا ہے۔ اس کے متعلق ہماری گزارشات یہ ہیں کہ گانے والی بچیاں پیشہ ور گلوکارائیں نہیں تھیں بلکہ وہ اپنے اسلاف کی شجاعت و بہادری پر مشتمل اشعار پڑھ رہی تھیں جیسا کہ ایک روایت میں اس کی وضاحت ہے۔ (صحیح البخاري، العیدین، حدیث:952) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دونوں گانے بجانے کے فن سے ناواقف تھیں جس طرح عام طور پر گانے بجانے کا کام کرنے والی لڑکیاں واقف ہوا کرتی ہیں۔ مغنیہ اسے کہتے ہیں جو خاص طور پر اپنے فن کے مطابق گائے، جس میں لے اور زیروبم ہوتا ہے جس سے جذبات میں ہیجان پیدا ہوتا ہے اور اس میں فواحش و منکرات کی تصریح یا تعریض ہوتی ہے، جبکہ مذکورہ واقعے میں ایسا نہیں تھا۔ اس حدیث کی روشنی میں مندرجہ ذیل شرائط ملحوظ رکھتے ہوئے خوشی کے موقع پر دف بجایا جا سکتا ہے اور اس کے ساتھ اشعار بھی پڑھے جا سکتے ہیں۔ ٭ دف صرف ایک طرف سے بجائی جاتی ہے اور اس کے بجانے سے سادہ سی آواز پیدا ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ گھنگرو کی جھنکار نہیں ہوتی۔ ٭ دف بجاتے وقت دیگر آلات موسیقی استعمال نہ کیے جائیں، کیونکہ آلات موسیقی کی حرمت پر قرآن مجید کی واضح نصوص موجود ہیں۔ قرآن کریم نے انہیں "لهو الحدیث" کہہ کر ان سے نفرت کا اظہار کیا ہے، بلکہ رسول اللہ ﷺ نے قرب قیامت کی یہ علامت بتائی ہے کہ لوگ اسے جائز سمجھ کر استعمال کرنا شروع کر دیں گے۔ ٭ رزمیہ، یعنی شجاعت و بہادری پر مشتمل اشعار ہوں، بزمیہ اشعار، یعنی ہیجان انگیز اور عشقیہ غزلیں نہ گائی جائیں۔ ٭ جوان عورتیں اس میں حصہ نہ لیں بلکہ نابالغ بچیاں اس طرح خوشی کا اظہار کر سکتی ہیں۔ ٭ یہ اہتمام بھی ایسے حلقے میں ہونا چاہیے جہاں اپنے ہی عزیز و اقارب ہوں، اجنبی لوگوں کے سامنے ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ٭ گیت اور اشعار خلاف شرع نہ ہوں کیونکہ اس قسم کے اشعار پڑھنا حرام اور ناجائز ہے۔ ٭ اس کے باوجود اگر فتنے کا اندیشہ ہو تو اس طرح کا مباح کام کرنا بھی ناجائز قرار پائے گا۔ مذکورہ شرائط کی پابندی کرتے ہوئے خوشی کے موقع پر دف کے ساتھ اشعار پڑھے جا سکتے ہیں۔
(3) اس حدیث پر ایک دوسرے پہلو سے بھی غور کیا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بچیوں کے گاتے اور دف بجاتے وقت اپنا چہرہ مبارک دوسری طرف پھیر لیا تھا اور بعض روایات کے مطابق اسے کپڑے سے ڈھانپ لیا تھا، گویا چشم پوشی کے ساتھ اپنی ناپسندیدگی ظاہر فرما دی اور یہ بھی تاثر دیا کہ آپ اس گیت اور دف کی آواز سے کسی طرح بھی محظوظ نہیں ہو رہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایسے حالات میں گانا اور دف بجانا بھی اباحت مرجوح کے درجے میں تھا۔ واللہ أعلم۔
(4) امام بخاری ؒ نے حدیث کے دوسرے حصے سے عنوان کو ثابت کیا ہے کہ عید کے موقع پر ہتھیاروں کی مشق اور اسلحہ کے کھیل جائز ہیں، البتہ اس کے بعد ایک دوسرا عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (باب ما يكره من حمل السلاح في العيد والحرم) ’’عید کے دن اور حرم میں ہتھیار لے جانا مکروہ ہے۔‘‘ ان دونوں عنوانات میں بظاہر تعارض ہے۔ اسے یوں حل کیا گیا ہے کہ ہتھیاروں سے کھیلنے کی اجازت حالت امن کے ساتھ خاص ہے اور ہتھیار ساتھ لے کر چلنے کی ممانعت بدامنی کے پیش نظر ہے۔ بعض شارحین نے بایں طور تطبیق دی ہے کہ کھیلنے کی اجازت مسجد سے باہر نماز عید سے فراغت کے بعد ہے، عید کے دن اظہار سرور کے پیش نظر ایسا کرنا جائز ہے، البتہ عید کو جاتے وقت یا حرم میں اجتماع کے موقع پر ہتھیار لے کر چلنا منع ہے مبادا بے پروائی میں کسی کو نقصان پہنچ جائے۔
(5) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورتوں کا اجنبی مردوں کی جہادی مشقیں دیکھنا جائز ہے، کیونکہ ناجائز وہ نظر ہے جو غیر مردوں کے محاسن کی طرف ہو یا بطور لذت کے ہو، چنانچہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (باب نظر المرأة إلی الحبش و نحوهم من غير ريبة) ’’کسی قسم کے شک و شبہ کے بغیر عورت کا اہل حبشہ اور دوسرے لوگوں کو دیکھنا‘‘ واضح رہے کہ اس وقت پردے کے احکام بھی نازل ہو چکے تھے۔ جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنی چادر سے چھپا رکھا تھا۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث:454)