تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اہل اسلام کی عید میں جائز قسم کے کھیل تماشے مباح ہیں لیکن اس سے پہلے نماز ادا کی جائے اور خود کو عبادت میں مصروف رکھا جائے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ بچیوں کا گانا وغیرہ اس وقت جائز ہے جب اس میں کوئی ہیجان انگیز اشعار نہ ہوں اور اجتماع مخلوط نہ ہو، نیز آلات محرمہ نہ ہوں اور نہ کسی عبادت ہی کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو۔ اس کے متعلق ہم تفصیلی نوٹ قبل ازیں لکھ چکے ہیں۔ بہرحال امام بخاری ؒ اس حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ عید کے دن تمام مسلمانوں کے لیے سب کھیل تماشے، دل بہلانے کے طریقے، خوشی منانے کے انداز جائز ہیں بشرطیکہ ان میں کوئی شرعی قباحت اور گناہ کا اندیشہ نہ ہو۔
(2) اس مقام پر ایک اشکال ہے کہ اگر بچیوں کے اشعار پڑھنے جائز تھے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسے شیطانی آوازیں کیوں قرار دیا؟ اور اگر ناجائز تھے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں کیوں برقرار رکھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ اشعار، ممنوعہ گیتوں پر مشتمل نہ تھے بلکہ جنگی کارناموں پر مشتمل تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انہیں برقرار رکھا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سدباب کے طور پر اپنے خیالات کا اظہار فرمایا کہ آئندہ لوگ اسے غیر مباح کاموں کے لیے بطور ذریعہ استعمال کریں گے۔