تشریح:
ایک روایت کے مطابق اس شخص نے اپنے پڑوسیوں کی بھوک اور تنگ دستی کا ذکر کیا۔ (صحیح البخاري، العیدین، حدیث:984) بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ جب اس نے اپنے ہمسائے کی محتاجی کا ذکر کیا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے معذور خیال فرمایا۔ (صحیح البخاري، الأضاحي، حدیث:5581) دیگر روایات میں صراحت ہے کہ وہ شخص ابو بردہ بن نیار تھے اور رسول اللہ ﷺ نے اسے قربانی کے لیے یک سالہ بکری کا بچہ ذبح کرنے کی اجازت دی اور فرمایا کہ یہ رخصت صرف تیرے لیے ہے، کسی دوسرے کو اس رخصت سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں۔ (صحیح البخاري، الأضاحي، حدیث:5560) امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں عید الاضحیٰ کے دن کھانا تناول کرنے کو کسی وقت کے ساتھ مشروط نہیں کیا جیسا کہ عید الفطر کے دن نماز سے پہلے کے ساتھ مقید کیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری ؒ کے نزدیک عیدالاضحیٰ کے دن کھانے کے متعلق کوئی پابندی نہیں، خواہ قربانی ذبح کرنے سے پہلے ہو یا بعد میں، چنانچہ مذکورہ حدیث میں ہے کہ جب اس شخص نے اپنی قربانی نماز سے پہلے ذبح کر ڈالی اور عرض کیا کہ اس دن گوشت کھانے کی ہر ایک کو چاہت ہوتی ہے تو آپ نے قبل از وقت قربانی ذبح کرنے پر تو انکار کیا لیکن نماز عید سے پہلے گوشت کھانے پر سکوت فرما کر اس عمل کو برقرار رکھا، شاید اس انداز سے امام بخاری ؒ نے ان احادیث کے ضعف کی طرف اشارہ فرمایا ہے جن میں عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے موقع پر کھانے کے متعلق فرق کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ عید الفطر کے دن اس وقت تک نہ نکلے جب تک کچھ کھا نہ لیتے اور عید الاضحیٰ میں اس وقت تک کچھ نہ کھاتے جب تک نماز نہ پڑھ لیتے۔ (جامع الترمذي، العیدین، حدیث:542) اس قسم کی دیگر احادیث کے متعلق بھی محدثین نے کلام کیا ہے۔ (فتح الباري:578/2) اگرچہ محدثین نے ان روایات پر کلام کیا ہے، تاہم راجح بات یہی ہے کہ یہ روایات صحیح اور حسن درجے کی ہیں۔ جیسا کہ شیخ البانی ؒ اور دیگر کئی محققین نے اس کی صراحت کی ہے، اس لیے عیدالاضحیٰ کے روز عید کی نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا ہی سنت ہے۔