تشریح:
(1) سنت یہی ہے کہ عیدگاہ میں خطبۂ عید کے لیے منبر استعمال نہ کیا جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا خطبۂ عید کے متعلق یہی معمول تھا۔ کھلی جگہ میں اس کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ ایسی جگہ میں امام کو خطبہ دیتے ہوئے ہر کوئی دیکھ سکتا ہے جبکہ مسجد میں منبر کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ جگہ تنگ ہونے کی بنا پر تمام سامعین خطیب کو نہیں دیکھ سکتے، اس لیے مسجد میں خطبے کے لیے منبر کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس روایت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں خطبۂ عید کے لیے منبر کا اہتمام نہیں کیا جاتا تھا کیونکہ آپ نماز کی ادائیگی کے بعد رخ پھیر کر لوگوں کے بالمقابل کھڑے ہو جاتے تھے۔ ابن حبان کی روایت میں ہے کہ آپ نماز پڑھنے کی جگہ میں کھڑے ہو جاتے، بلکہ ابن خزیمہ کی روایت میں ہے کہ نماز ادا کرنے کے بعد وہیں اپنے پاؤں کے بل کھڑے ہو جاتے۔ (فتح الباري:579/2)
(2) امام بخاری ؒ کی پیش کردہ روایت میں یہ صراحت ہے کہ پہلا شخص جس نے عیدگاہ میں منبر کا اہتمام کیا، مروان بن حکم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے پہلے خطبۂ عید کے لیے منبر استعمال نہیں ہوتا تھا، البتہ بخاری کی بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ خطبے سے فراغت کے بعد نیچے اترے اور خواتین کی طرف تشریف لے گئے۔ (صحیح البخاري، العیدین، حدیث:978) اسی طرح حضرت ابن عباس ؓ سے مروی روایت میں ’’نیچے اترنے‘‘ کے الفاظ ملتے ہیں۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4898) ان روایات سے بعض حضرات نے عیدگاہ میں منبر کے اہتمام کا مسئلہ کشید کیا ہے۔ اس کا جواب حافظ ابن قیم ؒ نے بایں الفاظ دیا ہے کہ روایات کے مطابق سب سے پہلے عیدگاہ میں خطبۂ عید کے لیے منبر کا اہتمام مروان بن حکم نے کیا تھا، پھر وہاں مستقل طور پر کچی اینٹوں کا منبر بنا دیا گیا۔ پھر اکثر روایات میں نیچے اترنے کے الفاظ نہیں ہیں، ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ کسی اونچی جگہ پر کھڑے ہوں، پھر وہاں سے اتر کر خواتین کو خطبہ دینے کے لیے ان کے پاس گئے ہوں۔ (زادالمعاد لابن قیم:447/1) البتہ صحیح ابن حبان میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی سواری پر خطبۂ عید ارشاد فرمایا۔ (صحیح ابن حبان، الصلاة، حدیث:2825) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی سواری وغیرہ پر بیٹھ کر خطبۂ عید مباح اور جائز ہے۔ واللہ أعلم۔