تشریح:
(1) عید کے دن اور حرم پاک میں ہتھیار اٹھانے کی نفی مطلق اور مقید دونوں طرح احادیث میں آئی ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عید کے دن ہتھیار اٹھا کر جانے سے منع فرمایا ہے، نیز حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ میں ہتھیار اٹھانے سے منع کیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عیدین کے موقع پر ہتھیار لگا کر نکلنے سے منع فرمایا ہے، ہاں! اگر دشمن سامنے ہو تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري:586/2)
(2) اس واقعے کا پس منظر یہ ہے کہ عبدالملک بن مروان نے حجاج بن یوسف کو لکھا کہ کسی معاملے میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی مخالفت نہ کرنا۔ یہ پابندی اس کے لیے بہت گراں گزری تو اس نے ایک آدمی کو زہر آلود نیزہ دے کر آپ کا کام تمام کرنے پر مامور کیا۔ اس شخص نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاؤں میں نیزہ چبھو دیا۔ چند دن کے بعد آپ کی وفات ہو گئی۔ پہلی حدیث میں صراحت کے ساتھ حجاج بن یوسف کو ’’مجرم‘‘ ٹھہرایا گیا جبکہ دوسری ہدایت میں اشارے کے ساتھ اس کی طرف جرم کی نسبت کی گئی۔ ایک تیسری روایت کے مطابق حضرت ابن عمر ؓ نے اس کے متعلق گفتگو کرنا بھی گوارا نہ کیا۔ ان تمام روایات کا حاصل یہ ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق حجاج نے جو منصوبہ سازی کی تو خود بار بار تیمارداری کرنے کے لیے حاضر ہوا، چنانچہ پہلی مرتبہ تو خود اسے مجرم ٹھہرایا گیا، پھر اس کی طرف اشارہ کیا، تیسری مرتبہ اسے نظر انداز کر کے اس سے گفتگو کرنا بھی گوارا نہ فرمائی۔ ان دونوں احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حجاج بن یوسف نے حرم پاک اور عید کے دنوں میں ہتھیار اٹھانے کی اجازت دے رکھی تھی جس کی شرعاً اجازت نہ تھی۔ امام بخاری ؒ نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ عیدین اور حرم پاک میں ہتھیار اٹھانا جائز نہیں۔ (فتح الباري:587/2)